• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
O… نئے سال کی آمد کو خوش آمدید کہتے ہیں!
O…آغاز خالق ِ کائنات کے حضور سجدہ ریزی اور طلبِ رحمت کی دعائوں کے ساتھ! O…آیئے پہلے زمینی سیارے کے نارمل اچھے انسان نیلسن منڈیلا کو یاد کریںآپ کی روح سکینت اور بالیدگی محسوس کرے گی !
O…پاکستان اور عالم اسلام کی بی بی بینظیر شہید کو بھی نہ بھولیں۔ انہوں نے مردوں اور مذہبی جنونیوں کی دنیامیں جرأت بے مثال دکھائی۔ O…اس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے مظلوموں، بے گناہ مقتولوں، بھوکے ننگوں ، بیماروں کے لئے ہمدردی، شفا اور مغفرت کی آرزو کیجئے۔
O…اس موقع پر لاہور کے ہی نہیں پاکستان کےادبی محقق اورشاعر ناصر زیدی کے لئے مکمل صحت یابی کی عرضداشت کو اپنی دعائوں میں شامل کریں۔
O…اپنے اور اس کے مشترکہ دوست عطا الحق قاسمی کواس موقع پر ایک شعری تخاطب میں اسی کے لئے لکھے گئے ایک مصرعے کی یاددہانی ’’کہ ناصر ہے پرانا یارِ جانی‘‘۔ O…اس لمحےمیں جیو ٹی وی کو ’’بزبان قاسمی‘‘ کی منعقدہ تقریب کی مبارکباد بھی نہیں بھولنی چاہئے۔
جیوگروپ نے اس کے استحقاق کی تصدیق کی۔
O…اور وہ تو دلکش لذت کی سرمستی میں شرابور ایک گھڑی تھی جب اس تقریب میں متعدد دانشور شریک تھے۔ O…اس سینئر نسل کے جینوئن ترین پہریداروں کی موجودگی نے مقام عطا کے اعتراف کی سند پیش کی۔
O…لفظ کی تخلیقی سلطنت میں ’’عطائی شہ جہانی‘‘ کی وراثت اس کے فرزند ارجمند یاسر پیرزادہ کو ارزانی ہوئی۔ اےاصحاب ِ ادب! جب کسی کے مقدر کاستارہ جگمگانے کا اعلان طے کرلے اس وقت اپنی روح کو کثیف بخارات سے بچانا چاہئے۔ یہ اسی جہاں میں اپنے لئے جہنم دکھانے کا سودا ہے! O…میں وقت کے اس بہائو میں پاکستانی صحافت کے ایک ’’بڑے‘‘ عباس اطہر مرحوم کو دعاے مغفرت اور یادوں کی لڑی میںپروئے جانے کابھی درخواست گزار ہوں۔ میری برادری نے صحافت کے اس تاریخ ساز عہد کے احترام میں تعزیتی ریفرنس تک کی بھی زحمت گوارا نہ کی۔ O…اور اب ہر نئے سال پر پھیلے برسوں لکھے گئے اپنے ذاتی مشمولات کو ایک بار پھر ریکارڈ پرلاتا ہوں، یہ کہ:O…پاکستان سمیت ایسے تمام ممالک کے لئے نجات کی صدا بلند کریں۔ O…جن کے دریچوں سے درآنے والی بے برکت ہوائوںنے ان ملکوں کی فضائوں کو مسموم کردیا۔ O…تمام غلام ملکوں اور ان کے غلام عوام کی آزادی کی آرزو کرنے میں، دعائیہ انداز سے ایستادہ ہو کرخاموش مناجات میں مصروف ہو جائیں، O…اب تھوڑی دیر کے لئے آنسو بہائیں اور یاد کریں،
’’ونی‘‘ اور ’’کاروکاری‘‘ جیسے کاروبارکرنے والے لعنتیوں کو، بلوچستان کی ان بے کس و بے بس عورتوں کو جنہیں زندہ دفن کردیا گیا۔ اس راندہ ٔ انسانیت سردار کو جس نے اس واقعہ پر متکبرانہ ہرزہ سرائی سےکا م لیا تاکہ قدرت کا جوش غضب میں آئے،وہ ایسے تمام لعنتیوں کے لئے پوری طور پر منتقم ہوجائے۔O…بلوچستان اور دوسرے صوبے کے ’’مسنگ پرسنز‘‘ مذہبی جنونیت کے ہلاک شدگان، طالبان کےساتھ جنگ میں شہید ہونے والے رکھوالوں کی یادوں کے چراغ جلائے رکھنے میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔ O…اس موقع پر ایک لفظ مغفرت ہمارے ہم پیشہ قلم مزدور ضیا ساجد کے لئے بھی لازمی ہے۔ O…اس کے ان تمام شب و روز پر حرفِ افسوس جن میں اس کی قلم مزدوری کااستحصال کیا گیا۔
O…اگر میں مزید آگے بڑھ سکوں تب میں یہ بھی کہوں گا، O…آیئے پورادن خاموش رہ کر سوگ منائیں، O…ان ہزاروں مظلوم فلسطینیوں کے لہو کا،
O…اس غیرملکی خاتون رپورٹر کے لئے دعائے مغفرت جس نے فلسطینیوں کے قتل عام پر احتجاج کےلئے اسرائیلی بلڈوزر کے نیچے ، اپنی جوانی اور جان،جاں آفریں کے سپرد کردی۔ O…اور ہمیشہ کی خاموشی اس عراقی بچی کےلئے جسے امریکی فوجیوں نے تاراج کرنے کےبعدزندہ جلا ڈالا۔ O…اور اب ایک خاموشی ان لاکھوں، ہزاروں ہلاک شدہ افریقیوں، افغانوں اور دیگر قومیتوں کے افراد کے نام جنہوں نےاپنی قبریں سمندر سے بھی زیادہ گہرائی میں دیکھیں۔ O…ظلم و شقاوت کی شکار ان باقیات کو جاننے کے لئے ان کا کوئی ڈی این اےٹیسٹ ہوگا نہ انہیں پہچاننے کے لئے ان کے دانتوں کاکوئی ریکارڈ چیک کیاجائے گا۔ O…ایک خاموشی پاکستان کے مذہبی جنونیوں اور مقدس ضدبازوں کے لئے، انہوں نے مسلمانوں کو فرقہ وارانہ اختلافات کے ہاتھوں ایک دوسرے سے قتل کروایا، انہوں نے سوات، وزیرستان اور جہاں کہیں ان کا بس چلا اپنی نیک تعبیر، کے مطابق لوگوں کے لئے خوف کی فصلیں کاشت کیں۔ ان کے شب و روز میں منافقت اور نفرت کے ساتھ جینے کے بیج بوئے، وہ پاکستانیوں کی گردنوں پر تلوار کی نوک رکھ کر خود کو منوانے پرتلے بیٹھے ہیں! O…اس خاموشی میں مستقبل کے اس نتیجے کو بھی شامل کرلیں کہ پاکستان کی ان ساری دینی اور مذہبی جماعتوں کے افکار بالآخر زندگی کے بلیک ہولز میں گم ہو جائیں گے، صرف قدرتی قوانین ِزندگی ہی کو بقا مل سکے گی۔ O…نئے سال پر چند اور اذکار کے بغیر چارۂ کار نہیں مثلاً، ٱ O…پاکستان کے قومی افق پر ڈاکٹر طاہر القادری کی متوقع آمد، ریاستی ظلم و جبر، معاشی ذلت و خواری اور لڑکوں بالوں کااپنے انداز ِ حکمرانی سے پاکستانیو ں کو ذلیل و رسوا کرنے کا عمل، ڈاکٹر طاہر القادری اس Status Co میں پاکستانیوں کے انتظار کی لغت کا سب سے اہم اور بے چین استعارہ بن سکتے ہیں، واقعی ’’صبح انقلاب یا شام شہادت‘‘ کا منظر تشکیل پا سکتا ہے، وقت کاجبر عوام کی طاقت ڈاکٹر طاہرالقادری کی نذرکرتا دکھائی دیتاہے۔ O…جنرل (ر) مشرف کے کیس پر فکر کے لمحے کی ضرورت، افواج پاکستان کے وقار اورکردار کو آئین کی بالادستی کےنام پر انتہائی غیرمتوازن دانشوری کے ہاتھوں ذبح کئے جانے کی سرگرمیاں بےقابو ہو رہی ہیں! O…اور ایک لفظ موجودہ جمہوری نظام کے حامیوں کے لئے، جنہوں نے عوام کے حق ووٹ کی خاطر 60برس سے زائد جدوجہد کی، انہیں اس سوال کی اذیت کا سامناہے ’کیا اس انداز سے ووٹ کا تسلسل انہیں آوارہ مزاج حکمرانی کی ذلتوں سے نجات دلا پائے گا؟
O…تحسین و اعتراف کا ایک قلبی خراج نجم سیٹھی اور ایاز امیر کے لئے، O…اس مرحلے پر نجم سیٹھی کے لئے یاسر پیرزادہ کے جاری کردہ اعلامیے ’’نجم سیٹھی تو پاکستان ہے‘‘ کی سو فیصد تائید، ان پر خود لکھنے کی حسرت دل میں رہے گی، پر جلتے ہیں۔ O…اور ایاز امیر، خالد حسن کی انگریزی کے بعد اس زبان میں آپ کا انداز نگارش، ہم نئے سال میں بھی آپ کی شاعرانہ انگریزی نثر کے اس انمول اردو قالب سے لطف اٹھانےاور سرشار ہونے کی دعاکرتے ہیں! O…چلتے چلتے ایکبار پھر پاکستان کےان تمام سرمایہ دارحکمران خاندانوں کےان افراد ا ور کرداروں پر پھٹکار برساتے جائیں جنہوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کی قیمت پر کروڑوں کی پرتعیش گاڑیاں خریدیں، ان کے خون پسینے پر لاپرواہی سے تبر ّہ کرتے ہوئے غیرملکی دورے کئے، اب ہیلی کاپٹروں پر مہنگائی کاجائزہ لے کر ان کی کھلی بے عزتی کرتے ہیں!
……اور آخر میں بلاول بھٹو زرداری کی سیاست میں باضابطہ آمد کی تاریخی ساعتو ں کا وجود، بلاول کے نظریاتی افکار کی جھلکیوں پرخاندان شہیداں کے نواسے کےلئے ایک خاموش دعائیہ مراقبہ، یقین و اعتماد کے نئے آثار کی آمد، قومی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے نظریاتی سیاسی اثاثے کی فکری نسل نے ہمیں قائداعظمؒ کے پاکستان کی یاد دلادی ہے۔ O…اوریہ کہ قائداعظمؒ کا جو پاکستان ہوتا اس میں مذہب سو فیصد ذاتی معاملہ رہتا، وہ پاکستان مسلمان شناخت کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام رنگینیوں سے بھی بھرپور ہوتا، اس کی صبحیں، دوپہر اور شامیں غیرفرقہ وارانہ ہوتیں، ان میں گیت گائے جاتے اور سرمستیوں کی داستانیں کہی اور سنائی جاتیں،
O…بلاول کے اس مقام پر اسے عوام آگے بڑھنے کا سندیسہ دیتے ہیں۔ مخلص مخالفین شک و شبے میں مبتلا اور بھٹو خاندان کے ازلی مخالفین بیمار لفظوںاور مردہ اظہا ریوں کے جنازے اٹھائے اپنی ناامیدیوں کے قبرستان کی طرف رواں دواں ہو چکے ہیں کہ بلاول مستقبل کا استعارہ اور وہ غیرفطری ماضی کے مزار ہیں!
تازہ ترین