• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

قلم سے اصلاح

اِس سے پیش تر بھی کئی مضامین روانہ کیے ہیں، آج ایک اور مضمون ’’انسانی معاشرتی معیار میں ہماری درجہ بندی اتنی منفی کیوں؟‘‘ حاضرِ خدمت ہے۔ اُمید ہے، باری آنے پر شائع ہوجائےگا۔ میرے خیال میں تو ’’سنڈے میگزین‘‘ بہت علمی و ادبی خدمت سرانجام دے رہا ہے، اگرمیرے قلم سے بھی لوگوں کی کچھ اصلاح اور معلومات میں اضافہ ہوجائے، تو کیا ہی اچھا ہو۔ (پروفیسر ڈاکٹر ظفر فاروقی، گورنمنٹ بوائز کالج، نشتر روڈ، کراچی)

ج:جی بالکل، اگر آپ کی کوئی بھی تحریر ایسی ہوئی کہ قارئین کی معلومات اور اصلاح کا سبب بن سکے، تو یقیناً آپ کے ری مائنڈر کے بغیرہی شائع کردی جائے گی۔

سُکھ، چین کی سانس

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پرتبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات موجود تھے۔ پہلا شمارہ تو مکمل ہی رمضان اسپیشل تھا، کیوں کہ اس میں ’’رمضان المبارک اور طبّی مسائل‘‘، ’’مرحبا، ماہِ رمضان مرحبا‘‘، ’’رحمتوں، برکتوں، فضیلتوں کا مہینہ‘‘، ’’مُلکی تاریخ کا منہگا ترین رمضان‘‘ جیسے شان دار مضامین موجود تھے۔ سعودی عرب، ایران تاریخی معاہدے پر تجزیہ بہت ہی مربوط تھا۔ میرے خیال میں تو اگر ایسا ہی معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی ہوجائے، تو دونوں ممالک کے عوام سُکھ چین کی سانس لیں۔ پھر جس جنس کی پیداوار پاکستان میں زیادہ ہو، وہ بھارت کو ایکسپورٹ کردے اور جس جنس کی بھارت میں زیادہ ہو، وہ پاکستان امپورٹ کرلے۔ 

بلوچستان کا تاریخی سبّی میلہ، چھے سو سال سے جاری ہے، پڑھ کر حیرت ہوئی۔ ’’دہلی نامہ‘‘ بھی زورشور سے جاری ہے۔ ’’پاکستان کا سیاسی و معاشی بحران اور عالمی تبدیلیاں‘‘ واقعی ایک تماشا سا جاری ہے، دنیا بھی ہمیں دیکھ کر ہنستی ہوگی۔ ’’زکوٰۃ کے معنی و مفہوم‘‘ مضمون پڑھ کر بہت سی اہم معلومات ملیں۔ 

چائلڈپروٹیکشن بیورو پنجاب کی چیئرپرسن، سارہ احمد کا انٹرویو بھی شان دار تھا، اس محکمے کی وجہ سے بہت سے بچّے اپنے پیاروں کو مل چُکے ہیں اور یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے۔ شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی کو آپ نے کرارا جواب دیا۔ اور اس ہفتے کی چٹھی ہولڈر شاہدہ تبسّم کی چٹھی بہت ہی دل چسپ تھی۔ بہت عرصے سے بزم کے شہزادے، محمّد سلیم راجا نظر نہیں آرہے، خیرتوہے۔ ممکن ہو تو ابرارالحق اور عارف لوہار کے انٹرویوز بھی شائع کریں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج:دونوں کے تفصیلی انٹرویوز شائع ہو چُکے ہیں۔

خُوش کرنے کے لیے؟

میگزین کے سرِورق کی تعریف کرنا پڑے گی، کیوں کہ ماڈل کی بہت ہی خُوب صُورت اور پاکیزہ سے انداز میں تصویر شائع کی گئی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی اپنے پیارے مضمون کے ساتھ موجود تھے، پڑھ کر دلی راحت حاصل ہوئی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں سعودی عرب اور ایران کے تاریخی معاہدے سے متعلق تجزیاتی مضمون بہترین تھا۔ منور مرزا نے بہت ہی اچھے انداز میں سب تفصیل گوش گزار کی۔ ’’متفرق‘‘ میں ریاض ندیم نیازی کی بلوچستان کے تاریخی سبّی میلے سے متعلق رپورٹ اچھی تھی۔ کسی زمانے میں جیکب آباد میں بھی ایک سالانہ میلہ ہوا کرتا تھا۔ 

آپ کا شکریہ کہ آپ ’’پیارا گھر‘‘ میں مسلسل ہمارا خیال رکھتے ہوئے رنگا رنگ لوازمات کی تراکیب شامل کررہی ہیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے چاندنی چوک کی خُوب ہی سیر کروائی۔ شاہ جہاں کی بیٹی، جہاں آراء کا بھی ذکر آگیا، جن پر بھارت میں ایک فلم بھی بنی ہے۔ اگلے شمارے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں اُسی خُوب صُورت اندازِ نگارش کےساتھ موجود تھےاورمدینہ منوّرہ کی تاریخ و حال بیان کررہے تھے۔ منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ پر شان دار انداز سے روشنی ڈالی۔ 

سرِورق کے لیے خاتونِ خانہ کا انتخاب بہترین لگا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ کے ذریعے تو دہلی کی پوری تاریخ ہی سامنے آگئی ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں اقصٰی منوّر ملک اور نیناں اکبر کی تحریریں پسند آئیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات بھی ناقابلِ فراموش ہی تھے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے مریم طلعت محمود بیگ کے رنگ برنگ لیٹر پیڈز کا ذکر کیا، تو میرے خیال میں بچّی نے آپ کو خُوش کرنے کے لیے ایسا کیا ہوگا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ہمیں اصل اعتراض بچّی کے رنگ برنگ لیٹر پیڈز پر ہرگزنہ تھا، سات الگ الگ لیٹر پیڈز پر ایک ہی مضمون لکھ کر الگ الگ لفافوں میں بھیجنے پر یعنی وقت اور پیسے کے زیاں پر تھا۔

قسطوں میں سیر

اُمید ہے، آپ اور آپ کی ٹیم بخیرت ہوگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں بہترین، معلوماتی، شان دار سلسلے کی 14ویں قسط پیش کی گئی، یہ قسط بھی لاجواب تھی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم جو کچھ نصاب میں پڑھ چُکے ہیں، مضمون نگاراُس کو دوبارہ یاد کروا رہے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں پروفیسر سرور حسین خان نے بچّوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اچھا مضمون تحریر کیا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں رئوف ظفر نے گوانتاناموبے جیل پر زبردست رپورٹ تیار کی اورکئی تلخ حقائق سے پردہ اُٹھایا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے اٹلی کے ساحل کے قریب پیش آنے والے حادثے پر بڑی درد مندی سے روشنی ڈالی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا بھارت کی سیر قسطوں میں کروا رہے ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں شہلا خضر کا افسانہ ’’قربانی‘‘ بہت خُوب تھا۔

ناقابلِ فراموش میں واقعہ ’’دکھیاری کی آہ‘‘ بھی سبق آموزلگا اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میرے خط کی اشاعت کا شکریہ۔ اگلے شمارے کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر افتخار برنی نےرمضان المبارک سے متعلق بہت ہی معلوماتی تحریر ہماری نذر کی۔ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کی تحریر بھی بے مثال تھی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے بھی ہمیشہ کی طرح منفرد تحریر رقم کی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منورمرزا کے تجزیے کا کیا ہی کہنا۔ آصفیہ عزیز نے دو مائوں کی کاوشوں سے پروان چڑھنے والے پودے کا ذکر کیا۔ اللہ جزائے خیردے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں مصباح طیّب کا واقعہ سبق آموز تھا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اس بار ہمارا خط شامل نہیں تھا۔ خیر، کوئی بات نہیں، اگلی بار شامل ہوجائے گا۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)

ج:جی ہاں، ظاہر ہے، جس طرح آپ تھوک کے بھائو خط لکھتے ہیں، تو ایک ہفتے نہ بھی شائع ہو، تو اگلے ہفتے لامحالہ شائع کرنا ہی پڑتا ہے اور جس ہفتے نہیں شائع ہوتا، وہ بھی صرف اِس وجہ سے کہ ہم دانستہ آپ کے دو، تین خطوط یک جا کر کے شائع کردیتے ہیں۔

کام یابیوں، کام رانیوں کا سال؟

اُمید ہے، اللہ کے فضل و کرم سے آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ برکتوں، رحمتوں اور نزولِ قرآن والے بابرکت ’’ماہِ رمضان‘‘ کی کیا ہی بات ہے۔ سالِ نو کا شمارہ جونہی موصول ہوا تھا، سب سے پہلے نظریں سالِ گزشتہ کے دُکھوں سے متعلق لیڈنگ شعر ؎ ’’جھیلا ہے مَیں نے تین سو پینسٹھ دُکھوں کاسال … چاہو تو پچھلے بارہ مہینوں سے پوچھ لو۔‘‘ پرآ رُکیں۔ کیا کمال شعرتھا، گویا دریا کو کُوزے میں بند کردیا گیا۔ 

دل داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ اِس کے بعد مُلکی اور بین الاقوامی اقتصادی بگاڑ، سیاسی افراتفری، معاشی بدحالی، معاشرتی ابتری، روس، یوکرین، جنگ، سیاسی قوّتوں کے غیر ذمّے دارانہ آئینی اور غیرآئینی رویّوں، سیلاب اور دیگر حالات و واقعات کو تین سو پینسٹھ دُکھوں کے تناظر میں بالکل غیرجانب دارانہ انداز اور انتہائی نفاست، سلیقے سے ترتیب دیا گیا۔ اللہ سے دُعا ہے کہ آپ کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ فرمائے اور ہر نظرِبد سے بچائے۔ ادارے اور ادارے کے کارکنان کے لیے 2023ء کام یابیوں، کام رانیوں کا سال ثابت ہو۔ (مبارک علی ثاقب،راول پنڈی)

ج:آپ کی ثابت قدمی کو (عرفِ عام میں اِسے ’’ہٹ دھرمی، ڈھٹائی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں) سلام ہے۔ مطلب ہم سر پھوڑ پھوڑ تھک گئے کہ بھائی! تازہ ایڈیشنز پر تبصرہ نگاری فرمائیے۔ چھے ماہ پہلے کے جرائد پر نہیں، مگر حرام ہے، جو آپ ٹس سے مَس ہوئے ہوں۔ تو چلیں، پھر یوں کرلیں کہ آج سے اپنا نام ہی ’’مبارک علی ثابت قدم‘‘ رکھ لیں۔ اب یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ نمونوں کی دریافت کے ضمن میں ہم ہی اِس قدر خُوش نصیب اور خُود کفیل ہیں یا ساری دنیا میں ایسا ہی تناسب پایا جاتا ہے۔

سیاست سے بالکل دل چپسی نہیں رہی

جریدے کا سرِورق دیکھا۔ ’’ہے نُور میں ڈوبی ہوئی اللہ کی بستی…‘‘ واقعی کوئی شک نہیں، رمضان المبارک میں ہر طرف نماز، روزے، ذکر اذکار ہی کا ماحول ہوتا ہے۔ آپ کا پزل تو آج تک ہم سے حل نہیں ہوپایا۔ رائو محمّد شاہد اقبال کے اندازِ تحریر کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ بخدا، ’’قرآن مجید کے مسلمانوں پر حقوق‘‘ کے عنوان سے کیا عُمدہ مضمون تحریر کیا، پھر لیلتہ القدر سے متعلق علاّمہ ذوالفقار کی تحریر اوراریبہ گل کے مضمون ’’گنتی کے چند روز ہی تو ہیں‘‘ کے بھی کیا ہی کہنے۔ محمود میاں نجمی بھی معلومات کا خزانہ لُٹا رہے ہیں۔ 

اللہ پاک اُن کےعلم میں اضافہ فرمائے۔ سیاست سے اب بالکل دل چپسی نہیں رہی، اس لیے ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کو دیکھا ضرورمگر پڑھا نہیں۔ ہاہاہا… ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں حسن ضیاء خان کا فیملی شوٹ دیکھا۔ رائٹ اَپ جب آپ لکھتی ہیں، تو ہم ضرور ہی پڑھتے ہیں۔ کیا مَیں ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات کے لیے رائٹ اَپ لکھ کر بھیج سکتی ہوں۔ اس بار تو منور مرزا کو بھی نہیں پڑھا۔ ہاں، ڈاکٹر جمیل جالبی سے متعلق ڈاکٹر نسیم فاطمہ کی تحریر کا جواب نہ تھا۔ بہت ہی عُمدگی سے پوری شخصیت کا احاطہ کیا گیا اور قدرت اللہ شہاب سے متعلق لکھی گئی تحریر بھی اچھی تھی۔ ’’دہلی نامہ‘‘ کی تعریف نہ کروں، ممکن نہیں، ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے جس طرح سیر کروائی ہے، بھارت جانے کا شوق سوا ہوگیا ہے۔ 

ڈاکٹر عزیزہ انجم نے مشترکہ خاندانی نظام سے متعلق اچھا لکھا۔ ٹھنڈے ٹھار مشروبات پی کر بھی مزہ آگیا۔ قانتہ رابعہ ’’ضمیر کی دستک‘‘ کے ساتھ چھا گئیں۔ دل تو میرا بھی بہت چاہتا ہے کہ مَیں بھی کوئی اچھا سا افسانہ، کہانی لکھوں اور چھاجائوں۔ ابھی توصرف آپ کو خط لکھنے ہی پراکتفا کرتی ہوں۔ ارے ہاں، وہ ہمارا صفحہ تو رہ ہی گیا، تبصرے سے۔ قسم سے بڑی شدید خواہش ہے، کبھی میرا خط بھی ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ بنے اورایک بات بھی پوچھنی تھی، اگر آپ ڈانٹیں نہیں تو، کیا مَیں کوئی افسانہ یا کہانی یا کچھ بھی بال پین سے لکھ کر بھیج سکتی ہوں یا بلیک سیاہی والےپین ہی سےلکھناضروری ہے۔ ارے… اب ایسے گھور کے تو نہ دیکھیں ہمارے خط کو، بس میرے سوال کا جواب دے دیں۔ (ناز جعفری، بفر زون، کراچی)

ج: آپ لوگ پہلے ڈانٹ کھانے والی باتیں کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم ڈانٹتے، غصّہ کرتے ہیں۔ ارے بھئی، آپ کوئی بورڈ کا پیپر تھوڑا دے رہی ہیں، ہمیں خط لکھ رہی ہیں اور ہم تو ای میلزبھی صفحے میں شامل کرتے ہیں، تو کیا وہ اِنک والے پین سے لکھی ہوتی ہیں۔ یہ اِنک والے پین کی شرط بھلا ہم نے کب، کہاں اورکس واسطے لگائی تھی۔ ہماری شرائط پر تو آپ لوگوں سےعمل ہوتا نہیں،اُلٹااپنی اختراعات ہمارے کھاتے ڈال دیتے ہیں اور ہاں، آپ کا یہ خط 9 مئی سے پہلے کا ہے۔ تواچھا کیا، بروقت ہی سیاست سےعدم دل چسپی کا اظہار کردیا کہ9مئی کے بعد تو خُود سیاست دان، سیاست سے تائب ہوتے پِھر رہے ہیں۔

                            فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

مَیں آج جریدے سے متعلق بہت مختصر بات کروں گی، جب کہ کچھ باتیں تفصیلاً بھی کرنا چاہتی ہوں۔ دراصل بندیٔ ناچیز، ہستیٔ بے نشاں کچھ دِنوں سے آپ کے صفحے میں حاضری سے گریز کررہی تھی اوراس کی وجہ یہ تھی کہ اِس کا عشق مسلسل اِسےدھتکار رہا ہے، اُسے خُود سے دُور کررہا ہےاور یہ عاجز و ناکارہ، محض نظراندازکیےجانےکے ڈر سے اپنے معشوق کے گھر جانے سے گریزکررہی ہے۔ ارے! آپ سوچ رہی ہوں گی کہ یہ کیالیلیٰ، مجنوں کی کہانی شروع ہوگئی، توغلط فہمی دُور کیے دیتی ہوں کہ ’’لکھنا‘‘ میرا عشق اور میرے معشوق کا گھر ’’سنڈے میگزین‘‘ ہے، اورجب اِس گھر کا دروازہ مجھ پر بار بار بند کیاجارہا ہے، مطلب یہ کہ جوبھی تحریر بھیجتی ہوں، ناقابلِ اشاعت کی فہرست ہی میں جگہ بناتی ہے، تومعشوق سے بدگمانی، ناراضی تو بنتی ہے۔ لیکن پھر بہت سوچا، تو یہی فیصلہ کیا کہ معشوق چاہےجتنا بھی دھتکارے، لاکھ دروازوں کی چٹخنیاں چڑھائے،اب اُس کا دَرنہیں چھوڑنا کہ ’’جب پیار کیا، تو ڈرنا کیا…‘‘

سو، ایک مرتبہ پھر ’’سنڈے میگزین‘‘ کے دوارے آ کھڑی ہوں۔ شاید کچھ پرانے عاشق ہمیں بھی آدابِ عشق (اچھا لکھنا)سِکھا ہی دیں۔ اب اصل بات کی طرف آتی ہوں، دراصل مَیں لکھنے لکھانے سے گہرا شغف بلکہ جنون رکھتی ہوں۔ بے شک اناڑی ہوں، مگر مسلسل کوشش اور جستجو کرتی رہتی ہوں، تو کیا مجھے مطلع کیاجاسکتا ہےکہ آخر میری تحریریں مسلسل ’’ناقابلِ اشاعت فہرست‘‘ میں کیوں شامل ہو رہی ہیں۔ کیا مَیں کچھ صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہی ہوں یا تحریر ہی کم زور ہے اور یہ کہ تحریر کو کیسے درست کیاجاسکتاہے۔ آپ اکثرمیرٹ کی بات کرتی ہیں، تو کیابتا سکتی ہیں کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کامیرٹ کیاہے۔آپ کاشماراہلِ قلم میں ہوتا ہے،تومیرےخیال میں مجھ جیسے نوآموزوں کی، جو بہت سے خواب آنکھوں میں سجا کرنکلتے ہیں، اصلاح و رہنمائی آپ کا فرض ہے۔ باقی آپ کا جریدہ تو ہمیشہ کی طرح پرفیکٹ ہے۔ موادسےلے کرلےآئوٹ تک، بہت ڈھونڈے سےبھی کوئی غلطی بمشکل ہی دکھائی دیتی ہے۔ تازہ شمارےکا صفحہ اول تا اخیر خُوب مہکتا محسوس ہوا، بخدا پڑھ کر دلِ بے قرار کو جیسے قرار سا آجاتا ہے۔ (ایمن علی منصور)

ج: ایمن! یہ جو آپ کو جریدے کی تحریریں پڑھ کر قرار سا آتا ہے ناں، تو درحقیقت یہ ہمارے ’’میرٹ‘‘ ہی کا شاخسانہ ہے۔ بظاہر یہ چند صفحات کا ایک میگزین ہے، لیکن اس کی تیاری بخدا ’’خونِ جگر‘‘ مانگتی ہے۔ بڑے بڑے پارلرز بھی چند گھنٹوں میں ایک بہترین دلہن تیار کرلیتے ہیں، لیکن ہمیں اپنی اِس ’’عروس‘‘ کی تیاری میں پورا ہفتہ لگتا ہے بلکہ پورا ہفتہ کہاں گزرتا ہے، پتا ہی نہیں چلتا، اِک اِک تحریر کی نوک پلک سنواری جاتی ہے، کاپی پریس جانے تک پوری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی غلطی نہ جائے۔ رہی بات ہمارے فرض کی، تو ہم اِسی قدر رہنمائی کرسکتے ہیں، جتنی ہم نے آج آپ کے خط کی بھرپور ایڈیٹنگ (درستی)  کرکے کی ہے۔ کیوں کہ بہرکیف، یہ اخبار کا دفتر ہے، کوئی اردو سکھانے کی اکیڈمی نہیں اور ہماری اوّلین ذمّے داری جریدہ تیار کرنے کی ہے، نہ کہ لکھاری تیارکرنےکی۔ اورہاں، آپ صحافتی اصولوں کی کوئی خلاف ورزی نہیں کررہیں بلکہ آپ کی تحریر ہی کم زور ہے، جس پر ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* سنڈے میگزین میں اگر میرا فسانہ شایع ہوگیا ہے، تو اُس کی تصویر کھینچ کر بھیج دیں۔ (منیبہ مختار اعوان)

ج: یہاں اتنی فراغت کسی کے پا س نہیں ہوتی۔ براہِ مہربانی، اپنی تحریروں کا اسٹیٹس چیک کرنے کے لیے خُود ہی جریدے کا باقاعدگی سے مطالعہ فرمائیں۔

* ایک گزارش ہے کہ پلیز ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں قیامت کی نشانیوں سے متعلق بھی ایک تفصیلی مضمون شایع کریں۔ اور ماڈلز کے انتخاب کے معاملے میں آپ غالباً بے بس ہیں۔ سال، چھےماہ ہی میں کوئی ایک ڈھنگ کی ماڈل آپ لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اور ماشاءاللہ، ماشاءاللہ نظرِبد دُور، میگزین نے دوبارہ جِم اسٹارٹ کردیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں، وزن 16 سے 10 پر کب آتا ہے۔ (آمنہ اسلم، لاہور)

ج: ہمارے نئے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں قیامت کی کچھ نشانیاں تو آپ ملاحظہ کر ہی رہی ہوں گی۔ ماڈل کے انتخاب کے معاملے میں واقعی ہم بےبس ہیں۔ بغیرمعاوضے کے جوکام ہوتے ہیں، وہ پھرایسے ہی ہوتے ہیں۔ اورتم شکر کرو کہ جِم اسٹارف کرکے بھی 16 ہی پرآیاہے، دیگراخبارات کا تو ’’زیرو فِگر‘‘ پر چلا گیا ہے۔

* یوں تو مَیں سنڈے میگزین کا بہت پرانا قاری ہوں، لیکن ای میل آج پہلی بار کررہا ہوں۔ ماشاءاللہ ایک طویل عرصے سے جریدے نے اپنا شان دار معیار قائم کر رکھا ہے۔ اور یہ یقیناً آپ اور آپ کی ٹیم کی محنتِ شاقّہ اور کمٹمنٹ ہی کا نتیجہ اور ثمر ہے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ جریدہ یوں ہی ترقی کی منازل طے کرتا رہے اور معیار اِسی طرح بلند سے بلند تر رہے۔ (امجد اقبال خان، سیال کوٹ)

ج: آپ کی حوصلہ افزائی، ذرّہ نوازی کا بے حد شکریہ۔ لیکن ’’یوں ہی ترقی‘‘ کی دُعا تو نہ ہی دیں پلیز… کہ ان دنوں تو ہم 36 صفحات کے جریدے سے 16صفحات تک آ پہنچے ہیں۔

* میگزین میں عرفان جاوید کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ اُن کا کوئی نیا سلسلہ کب شروع کررہی ہیں۔ (حمّاد احمد، کوئٹہ)

ج: جب وہ ہمیں کچھ لکھ بھیجیں گے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk