السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
خصوصی رعایتی قیمت پر
میری آپ سے گزارش ہے کہ دو کتابیں ’’چسکا گلیوں کا‘‘ اور ’’درِ حضورﷺ پہ اپنا سلام ہو جائے‘‘ مجھے خصوصی رعایتی قیمت پر ارسال کی جائیں۔ مَیں سنڈے میگزین بہت شوق سے پڑھتا ہوں اور خصوصاً ’’نئی کتابیں‘‘ کا صفحہ میرا پسندیدہ ترین صفحہ ہے۔ (غضنفر علی شیخ، کینال ویو ہاؤسنگ سوسائٹی، نزد ٹھوکر ملتان روڈ، لاہور)
ج:معذرت خواہ ہیں۔ ایسی کوئی سہولت ہمارے یہاں سے میسّر نہیں۔ ہمیں عمومی طور پر کتابوں کی صرف دو جِلدیں ملتی ہیں، جن میں سے ایک تبصرہ نگار کو اعزازی طور پر دی جاتی ہے اور دوسری روزنامہ جنگ کی لائبریری میں جمع کروا دی جاتی ہے۔ آپ کتب بینی کا شوق رکھتے ہیں، تو اِس کی تکمیل کے وسائل بھی خُود ہی بروئے کار لانے ہوں گے۔
لیجنڈز کے انٹرویوز
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات شامل تھے۔ ’’گوانتانامو بے جیل، حقوقِ انسانی کے عَلم برداروں کے لیے کلنک کا ٹیکا‘‘ پڑھ کر رُوح تک کانپ گئی۔ ’’ساکنانِ شہرِ قائد‘‘ نے اٹھائیسواں عظیم الشان عالمی مشاعرہ منعقد کرکے شہرِ قائد کا حق ادا کردیا۔ اور یہ بات بھی سو فی صد درست ہے کہ مطالعہ ہر مسئلے کا حل، ہر مرض کی دوا ہے۔ الحمدللہ، مجھے بچپن ہی سے مطالعے کا شوق رہا ہے اور اب تک جاری ہے۔ فارماسوٹیکل انڈسٹری کے معروف نام، غلام ہاشم نورانی کا انٹرویو شان دار تھا۔ ’’دہلی نامہ‘‘ بھی بہت خُوب ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ ’’استقبالِ رمضان، نبی کریمﷺ کی سُنّت بھی، ہدایت بھی‘‘ اَن مول مضمون تھا۔ خود مَیں نے روزے رکھنے سے کئی بیماروں کو اللہ کی رحمت سے شفایاب ہوتے دیکھا ہے۔
شفق رفیع نے ایک سلگتا ہوا موضوع چُنا، ’’ایک مُلک، دو قطاریں‘‘، واقعی عوام بہت قربانیاں دے چُکے، اب اشرافیہ کی مراعات ختم ہونی چاہئیں۔ منور مرزا کا تجزیہ ’’آئی ایم ایف کی شرائط اور ہماری بے بسی‘‘ بھی ایک زوردار طمانچا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ جفت ساز کمپنی، باٹا کے بانی، طامس باٹا سے متعلق اچھوتی تحریر کا بھی جواب نہ تھا۔ جریدے میں میرا خط بھی شاملِ اشاعت تھا۔ آپ سے گزارش ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کے لیجنڈز ندیم، شاہد اور جاوید شیخ وغیرہ کے بھی انٹرویوز شامل کیے جائیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
رمضان المبارک کے شان دار ایڈیشنز
مارچ اور اپریل کے مہینوں میں بیش تر شمارے نہایت عُمدگی سے مرتّب کئے گئے۔ خصوصاً رمضان المبارک کے ایڈیشنز کا تو جواب نہ تھا۔ دُعا ہے کہ سنڈے میگزین اپنا یہ معیار اسی طرح برقرار رکھے۔ میرے لیے تو یہ جریدہ ایک نعمت کے مترادف ہے۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
کرب و اذیّت کا ردعمل
محمود میاں نجمی مدینہ منوّرہ کی تاریخ، بہت تحقیق و جستجو کے ساتھ پیش کررہے ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ’’بجلی کے بریک ڈائونز‘‘ پر رائو محمّد شاہد نے ایک اچھا مضمون تحریر کیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ارشد ملک نے بھی دہشت گردی پر کافی بھرپور انداز سے مضمون لکھا، کوئٹہ سے ارسلان فیاض کا لیا گیا انٹرویو بھی اچھا رہا۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ کی یہ حکمتِ عملی بہترین ہے کہ وہ بلوچستان پر خصوصی توجّہ مرکوزکیےہوئےہے، وگرنہ ماضی میں اس صوبے کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ’’ہیلتھ افنڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر عبدالمالک نے مِرگی سے متعلق کئی ابہام اور توہمات رد کرتے ہوئے بڑا بھرپور مضمون تحریر کیا، جب کہ ڈاکٹر عارف سکندری بھی معدے کی ایک ایسی بیماری سے روشناس کروا رہے تھے، جس سے کم لوگ واقف ہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر قتیل شفائی کی ایک بہت ہی خُوب صُورت غزل کے انتخاب نے بزم کو چار چاند لگادیئے۔ جب سے آپ نے یہ ذمّے داری دوبارہ سنبھالی ہے، ایک نظر صفحات پر ضرور ہی دوڑاتا ہوں۔
ویسے ایک بات ہے کہ آپ کی ماڈل، غزل سے کچھ خاص میل نہیں کھا رہی تھی کہ غزل بہت ہی حسین ہے۔ اعزازی چٹھی میں غالباً پہلی مرتبہ شامل ہونے والی نیناں کیانی کی یہ تجویز کہ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کے لیے قارئین سے تحریر لکھوائی جائے، کچھ زیادہ موزوں نہیں لگی۔ اس طرح تو آپ کا سردرد مزید بڑھ جائے گا۔ نرگس خان کے خط نے بہت حیران بلکہ بہت مایوس کیا۔ حیرت ہے، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ جیسا سلسلہ، جس کی ایک خلقت گرویدہ ہے، اُس پر ایسی بے سروپا تنقید۔ ابھی خط پوسٹ بھی نہ کیا تھا کہ اگلا شمارہ آگیا، تو تبصرے کا سلسلہ وہیں سے جوڑتا ہوں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں میرا بھیجا گیا واقعہ شائع کرنے کا بے حد شکریہ۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ترکیہ و شام کے دردناک، الم ناک زلزلے کے احوال نے خون کےآنسو رُلایا۔
ڈاکٹر سمیحہ قاضی اور پروفیسر سیما ناز نے بہترین نگارشات رقم کیں۔ ’’گفتگو‘‘ میں کالم نگار، دانش وَر حمّاد غزنوی سے ’’گفتگو‘‘ بہت اچھی رہی۔ ’’رپورٹ‘‘ میں مشکل پسند لکھاری منور راجپوت ’’مادری زبانوں کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے بہت ہی بھرپور مضمون لےکر حاضر ہوئے۔ اور مختلف زبانوں کے تعارف و تاریخ اور انضمام و اہتمام کو بہت احتشام کے ساتھ پیش کیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کے رائٹ اَپ کے کیا ہی کہنے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ان دنوں عجیب و غریب خطوط کی تعداد کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔ میرے خیال میں اِن دنوں عوام جس کرب و اذیت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، یہ اُسی کا ردِعمل معلوم ہوتا ہے۔ (ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی)
ج: جی، جی بالکل۔ آپ کے یہ طول طویل نامے دیکھ کر ہمیں بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ کیا تمام تر مُلکی مسائل، عوام کے کرب و اذیت کا سبب ہم ہیں، جو آپ ہر ہفتے یہ 20، 20 صفحاتی ظلم و ستم کا پہاڑ ہم ہی پر توڑنا ضروری سمجھتے ہیں۔
لفظ درست نہیں
ماہِ رمضان کے مقدّس مہینے میں سنڈے میگزین میں بہترین اسلامی مضامین شائع کیے گئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کا تحریر کردہ سلسلۂ نگارش معلوماتی سلسلہ ہے۔ جریدے میں طبّی مسائل پر بھی بہت اچھے مشورے دیئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کی تحریر ’’مرحبا ماہِ رمضان‘‘ بھی ایک پُراثر تحریر تھی۔ قصور شہر سے متعلق اعجاز سلیم کی تحریر بہت پسند آئی۔
نیز، بلوچستان کے تاریخی سبّی میلے پر رپورٹ بھی عُمدہ تھی۔ ’’دہلی نامہ‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے اپنے زورِ طبع سے نہایت دل چسپ واقعات بیان کیے اور اُن کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ چاندنی چوک بازار میں گھومتے ایسے محسوس ہوتا ہے، جیسے لاہور کے انار کلی بازار میں گھوم رہے ہوں۔ ہلدی رام سوئٹس کا پڑھ کر تو منہ میں پانی بھر آیا کہ ہمیں مٹھائیوں سے کافی رغبت ہے۔
ہاں، رانجھا صاحب نے ایک جملہ لکھا کہ ’’قہوہ خانوں میں بیٹھے قہوہ نوش کررہے ہیں، ساتھ منقّش حُقّوں کی منہال کی لے منہ میں دبائے ہلکے ہلکے کش لگارہے ہیں۔‘‘ لیکن یہ لفظ ’’منہال‘‘ نہیں بلکہ ’’مُنہنال‘‘ ہے یعنی دھات کی ایسی نلی، جو حُقّہ پینے کی جگہ لگا دیتے ہیں۔ اور آخر میں ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا ذکر، جس میں خطوط نگاروں کے چُبھتے ہوئے سوالات اورآپ کے برجستہ جوابات محفل کو چار چاند لگادیتے ہیں۔ (تجمّل حسین مرزا، مسلم کالونی، ڈاک خانہ باغ بان پورہ، لاہور)
ج:اصلاح و رہنمائی کا بے حد شکریہ، مگر خدارا! آپ سے دست بستہ التماس ہے کہ حاشیہ، سطر چھوڑ کرخط لکھنے کی عادت ڈالیں اورصفحے کی بیک سائیڈ خالی چھوڑ دیا کریں۔ بخدا، اگر آپ ایک کی جگہ دو صفحات استعمال کرلیں گے، تو پہلے سے ڈانواں ڈول مُلکی معیشت پر ہرگزکچھ خاص بُرے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
ایک صفحے کے پیچھے دوسرا
آپ لوگ محمود میاں نجمی کی تحریر شائع کرکے گویا امتِ مسلمہ کو ایک مشعلِ راہ فراہم کررہے ہیں۔ اللہ رب العزت آپ لوگوں کی یہ شان دار کاوش قبول فرمائے۔ آپ کی اطلاع کے لیے مَیں 2016ء سے محمود میاں کی نگارشات محفوظ کررہا ہوں اور اِس کے لیے ایک ہفتے کی اشاعت کو دوسرے ہفتےکی اشاعت کے پیچھے چسپاں کرلیتا ہوں۔ اس طرح تصویر چُھپ جاتی ہے اورمضامین بھی کتابی شکل میں محفوظ ہوتے جارہے ہیں۔ ایک بات اور، مَیں نے جہانِ حمد پبلی کیشنز کے نام دو خطوط لکھ کربھیجے تھے، مگر نہ کتاب ملی، نہ جواب آیا۔ (ملک فضل الٰہی، پی آئی اے کالونی، لاہور)
ج: بلاشبہ، آپ نے صفحات محفوظ کرنے کا بہت اچھا طریقہ اختیار کررکھا ہے۔ آپ کا بپلشر کے نام خط ہمیں ہی موصول ہوا تھا، لیکن جیسا کہ پہلے بھی بتایا جاچُکا ہے کہ ہمیں کسی بھی کتاب کی صرف دو جِلدیں وصول پاتی ہیں اور وہ ہم ذاتی طور پر کسی کودینےکےمجاز نہیں۔ ایک جِلد ادارے کی لائبریری کو بھیج دی جاتی ہے اور دوسری تبصرہ نگار کے لیے ہوتی ہے۔ سو، آپ خط براہِ راست پبلشر کو لکھیں اور اب تو ہم نے آپ لوگوں کی سہولت کے لیے ناشرین کےفون نمبرز بھی شائع کرنے شروع کردیئے ہیں۔
موضوع، اندازِ تحریر… بے مثال کاوش
مطالعے کا آغاز رائو محمّد شاہد اقبال کے قلمی شہ پارے ’’استقبالِ رمضان:نبی کریمؐ کی سنّت بھی، ہدایت بھی‘‘ سے کیا۔ زندگی ہر دَم رواں ہے، اس لیے شفق رفیع کا قلم بھی پہیم جواں ہے۔ ’ایک مُلک، دو قطاریں‘‘ موضوع اور اندازِ تحریر دونوں اعتبار سے ایک بے مثال کاوش تھی۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ایسی تحریریں خال خال ہی لکھی جاتی ہیں۔ 21؍مارچ کو ’’ورلڈ ڈائون سینڈ روم ڈے‘‘ منایا گیا اور واقعی سچ ہے کہ ’’محبّت آئی کیو لیول کی محتاج نہیں‘‘۔ ڈاکٹر افتخار برنی کا مضمون شان دار تھا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر نرجس ملک کا قلم ہو، تو پھر بھلا کوئی تحریر پڑھے بغیر رہ سکتا ہے۔
منور مرزا اپنے ہر تجزیے میں قوم کا حقیقی چہرہ دکھاتے ہیں، لیکن اے کاش! ہم اپنی اصلاح کا ارادہ ہی کرلیں۔ محمود میاں نجمی ’’مدینہ منوّرہ: عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک‘‘ کی 15ویں قسط کے ساتھ مخزن کے صفحہ نمبر13 پر جلوہ گر ہوئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کسی بھی صفحے پر شایع کیا جائے، پڑھا ضرور جاتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سہیل اختر اور ڈاکٹر مدیحہ بلال صدیقی کے مضامین بہت معلوماتی تھے۔ ’’دہلی نامہ‘‘ بھی ڈاکٹر رانجھا کی کمال کاوش ہے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے دونوں کردار بلاشبہ ہمارے سَروں کے تاج ہیں کہ باپ، گھنیری چھائوں والا شجر ہے، تو ماواں ٹھنڈیاں چھاواں۔
اللہ جی محمّد مشتاق احمد سیال کے والد اور رُحما اشفاق کی والدہ کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے۔ ’’طامس باٹا‘‘ کو سلام کہ بے شمار سماجی، تعلیمی، تربیتی اور خیراتی ادارے قائم کرکے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ اختر سعیدی کے قلمی پارے بے حد پسند آتے ہیں۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ حقیقت میں زندگی کے ہر رُخ سے آشنا کرواتا ہے۔ نیز، سب کو یک جا ہونے کا پلیٹ فارم بھی مہیا کررہا ہے۔ ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ اقصٰی منور ملک کے نام رہی۔ اقصٰی بھی جب آتی ہیں، چھا جاتی ہیں۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو میرپور خاص)
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
تازہ شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پر شرم و حیا کے آنچل میں لپٹی ماڈل براجمان تھی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’مدینہ منوّرہ: عہدِ قریم سے دورِ جدید تک‘‘ کی اٹھارویں قسط لائے۔ سعودی دورِ حکومت میں مسجد نبویؐ کے جدید طرزِ تعمیرکا بہترین کام ہوا۔ بلاشبہ سعودی فرماں روائوں نے اخراجات میں بے حد فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں بنتِ فردوسی نے حضرت فاطمۃ الزھراؓ کی حضورﷺ سے محبت اور آنحضرت ﷺ کی شفقت کا بہترین پیرائے میں تذکرہ کیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ ہی میں دردانہ صدیقی روزوں کا مقصدِ حقیقی بیان کررہی تھیں۔’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے عُمدہ موضوع منتخب کیا کہ جھوٹ کی قباحت، اللہ و رسولﷺ کی سخت ممانعت کے باوجود لوگ کذب بیانی سے گریز نہیں کرتے۔
’’رپورٹ‘‘ میں سیّد ثقلین علی نقوی غربت، مفلسی و فاقہ کشی کے مارے لوگوں کی سِسکیوں میں ڈوبی فریادیں سُنارہے تھے، بخدا پڑھ کر آنکھیں نم ہوگئیں، مگر ہمارے سنگ دل حُکم رانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے گی کہ درحقیقت اُن کی کرپشن ہی کی وجہ سے تو لوگ اس عذاب میں مبتلا ہیں۔ لوگ خُودکشیاں کررہے ہیں، مگر حُکم رانوں کی عیاشیاں کم ہونے ہی میں نہیں آتیں۔ بے مقصد غیرمُلکی دوروں پر اربوں روپے لٹادیتے ہیں اور پھر آئی ایم ایف کے پاس کشکول لیے کھڑے ہوتے ہیں اور آئی ایم ایف بھی یہی لچّھن دیکھتے ہوئے ذلت آمیز شرائط منوا راہا ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ترکیہ کے انتخابات کے ضمن میں 16 سال سے حکومت کرنے والے طیّب اردوان کی مشکلات اور پریشانیوں پر تبصرہ کررہے تھے۔
بے شک، طیّب اردوان مردِ آہن ہیں، مگر معاشی بدحالی کے چیلنجز سے کیسے نمٹتے ہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ ’’شرم و حیا میں حُسن ہے‘‘ کے موضوع کی مناسبت سے اصغر حسین کی خُوب صُورت غزل لائیں۔ آپ کے علم و صلاحیت کےتو ہم پہلے ہی قائل بلکہ مرعوب ہیں، مگر موضوعات کی مناسبت سے چھان پھٹک اوراس قدرعرق ریزی پر عقل دنگ ہوکر عقیدت مندی میں کچھ اور بھی اضافہ کر دیتی ہے۔ آپ یہ معرکہ کیسے سر کرلیتی ہیں؟ ہم تو کسی موضوع پر کتابیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جاتے ہیں، مگر مدعا بمشکل ہی حاصل ہوپاتا ہے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں وحید زہیر بلوچستان کے حالات سے متعلق مشہور ادیب، کالم نگار،فاروق سردار سے بات چیت کررہے تھے، تو ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا دلی کے کوچہ و بازار کی معلومات افزا سیر کروارہے تھے۔
ہم نے بھی دلی دیکھا ہے، مگر صرف اسٹیشن لال قلعہ کا بیرونی حصّہ اور پھر اگلی منزل پر روانہ ہوگئے تھے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر ایم عارف سکندری سرطان سے متعلق بہترین مضمون لائے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حافظ بلال بشیر دینِ اسلام میں عورت کے مقام و مرتبے پر روشنی ڈال رہے تھے۔ سیما وکیل کچن ٹوٹکے لائیں، جب کہ ارم نفیس نے بڑے پتے کی بات بتائی کہ خُود سے امیر نہیں، غریب لوگوں کو دیکھیں، تو اپنا بہت سوں سے اچھا حال دیکھ کر سُکون حاصل ہوجائے گا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ افطار پارٹیوں میں بے جا اسراف پر تنقید کررہی تھیں اور بجا کررہی تھیں۔ اللہ کاخوف دلانا ہر مسلمان پرواجب ہے۔ ناقابلِ فراموش کے تینوں واقعات متاثر کُن اور درد انگیز لگے۔ اختر سعیدی کا تبصرہ جان دار تھا، جب کہ ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز خالدہ سمیع کے حصّے آیا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج:وقت وقت کی بات ہے، آج یہ اعزاز آپ کے حصّے آگیا۔
گوشہ برقی خطوط
* جب سے آپ نے خُود ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات پر لکھنا شروع کیا ہے، بخدا صفحات میں گویا نئی رُوح سی پھونک گئی ہے۔ قسم سے ملبوسات دیکھنے کے لیے کم، آپ کی تحریر کی چاہ میں زیادہ، سیدھی ’’اسٹائل صفحات‘‘ ہی پر چھلانگ لگاتی ہوں۔ (رمشہ عُمر، میرپور، آزاد کشمیر)
ج: حالاں کہ تم یہ کام انسانوں کی طرح بغیر چھلانگ لگائے بھی کرسکتی ہو۔
* ’’آپ کا صفحہ‘‘ اس جریدے کی جان ہے۔ بخدا اسی صفحے نے ایک طویل عرصے سے سنڈے میگزین سے جوڑ رکھا ہے۔ (عالیہ ایمان)
* مَیں نے دو عدد افسانے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ کےلیےای میل کیے تھے۔ عنوانات کسی فہرست میں نظر آئے، نہ ہی اشاعت کی منزل پا سکے۔ ممکن ہو تو اُن سے متعلق بتا دیں۔ نیز، سنڈے میگزین آپ کی ادارت میں مسلسل ترقّی کی طرف گام زن ہے۔ خصوصاً نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں تو اس قدر عُمدہ مضامین شامل ہوتے ہیں کہ پڑھ کر جی خوش ہوجاتا ہے۔ پچھلے کسی جریدے میں نرسنگ سے متعلق ایک شان دار انٹرویو شایع ہوا، تو دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ خاصا معلوماتی انٹرویو تھا۔ ویسے آپ لوگوں کی رنگا رنگ تحریریں دیکھ کر، محنتِ شاقّہ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ پاک صحت و سلامتی عطا فرمائے اور ادارے کی تمام تر مشکلات دُور کرے۔ (خالد نذیر خالد، ای بلاک، سیٹلائٹ ٹاؤن، راول پنڈی)
ج: آپ کے افسانے قابلِ اشاعت کی صف میں اپنی باری کے منتظر ہیں۔ اِن شاء اللہ جلد شایع کردیئےجائیں گےاورآپ کی دُعائوں اور تعریف و توصیف کا بے حد شکریہ۔
* اکثر اوقات میگزین خشک مضامین ہی سے بھرا ہوتا ہے، تو براہِ مہربانی ’’ڈائجسٹ‘‘ کا سلسلہ تو باقاعدگی سے شامل کیا کریں۔ (حسام، ملتان)
ج: جی، بہت بہتر۔
* سنڈے میگزین آج سے نہیں، ایک مدّت سے پسندیدہ جریدہ ہے۔ اب تو بس عادت سی ہوگئی ہے، اِس کے مطالعے کی۔ (روحی شاکر، فیصل آباد)
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk