• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی اختتامی تفصیلی بجٹ تقریر

اسلام آباد (رپورٹ:حنیف خالد)وفاقی وزیر خزانہ و ریونیو سنیٹر محمد اسحاق ڈار نے 9جون کو پیش کئے گئے مالیاتی بل اور بجٹ کے اعلان کردہ اہم معاشی اہداف کو تبدیل کر دیئے ہیں۔ وفاقی بجٹ 2023-24ء اور فنانس بل 2023ء پر عام بحث پر اختتامی تقریر میں اُنہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرط پر آئندہ مالی سال مزید 215ارب روپے کے اضافی نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ اس طرح ایف بی آر کا ٹیکس ریونیو کا ہدف 9200ارب سے بڑھ کر 9415ارب روپے کیا گیا ہے۔ حکومت 9جون کے بجٹ میں آئندہ مالی سال کیلئے 223ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا فنانس بل میں اضافہ کر چکی ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر 2023-24ءمیں 438 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد ہو گئے ہیں۔ ٹیکسوں میں صوبوں کا حصہ 5276ارب روپے سے بڑھ کر 5399ارب روپے ہو گا۔ یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کیلئے 85ارب کے اخراجات میں کٹوتی کی جائیگی۔ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14ہزار 460ارب روپے سے بڑھ کر 14ہزار 480ارب روپے ہو گیا ہے۔ سبسڈی کا تخمینہ 1073ارب روپے سے کم ہو کر 1064ارب روپے ہو گیا ہے جبکہ پنشن کی مد میں تخمینہ 761ارب سے بڑھ کر 801ارب روپے اور گرانٹس کا تخمینہ 1405ارب روپے کیا گیا ہے۔ دفاعی بجٹ برقرار رکھا جائیگا البتہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا یکم جولائی سے شروع ہونیوالے مالی سال کیلئے بجٹ 450ارب سے بڑھا کر 466ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ پٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی بڑھانے کا اختیار وفاقی حکومت کو دیا گیا ہے تاہم اسکی حد 60روپے فی لٹر مقرر کی گئی ہے۔ ان اقدامات سے نئے مالی سال کے بجٹ خسارے میں 300ارب روپے کی کمی ہو گی اور یہ 6924ارب روپے سے کم ہو کر 6624ارب روپے ہونگے۔ وفاقی بجٹ پر اختتامی بحث میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اور پارلیمنٹ کے اندر 9جون سے جاری بجٹ پر عام بحث کے اختتام پر وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مالی سال 2023-24ء کے بجٹ کے سالانہ بجٹ اسٹیٹمنٹ فنانس بل 2023ء اور دیگر بجٹ بکس کے اعدادو شمار میں اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ پنشن اصلاحات کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے مسلسل اہم مشاورت کر کے یہ فیصلے کئے ہیں کہ ایک سرکاری ریٹائرڈ آفیسر صرف ایک ادارے سے پنشن حاصل کیا کریگااور ایک سے زائد پنشنوں کے نظام کو (ملٹی پل پنشنز) (Multiple Pensions) کو فوری طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔ پنشن کی کمیوٹیشن (Computation) کے وقت ایڈہاک پنشن الائونس کو (کمپائونڈنگ) (compounding) کے بغیر نیٹ پنشن میں شامل کیا جائیگا۔ ایک پنشنرز اور اسکے سپائوس (Spouse) مرد کی صورت میں بیوی اور اگر بیوی سرکاری ملازم ہو تو اسکا مرد سرکاری ملازم یا ملازمہ کی وفات کے بعد فیملی پنشن صرف 10سال تک لواحقین (Dependents) کو دی جائیگی۔ ری ایمپلائمنٹ (ReEmployment) کی صورت میں متعلقہ سرکاری افسر متعلقہ مرد/خاتون سرکاری افسر پنشن یا تنخواہ میں سے ایک کو (او پی ٹی) OPTکر سکیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی ہدایات کی روشنی میں موجودہ مالی سال کے دوران اداروں میں سادگی اور کفایت شعاری کے اقدامات پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ سال رواں میں اب نان (Non Ere) اخراجات پر سالانہ بنیاد پر 15فیصد کمی کر کے خاطر خواہ بچت کی گئی ہے۔ (Austerity Measures) میں ہر قسم کی گاڑیوں (ماسوائے ایمبولنس‘ تعلیمی اداروں کی بسوں اور سالڈ ویسٹ کی گاڑیاں)فرنیچر اور دیگر مشینری آلہ جات بشمول ائر کنڈیشنرز‘ مائیکرو ویوز‘ فریج وغیرہ کی خریداری پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اسکے علاوہ سرکاری افسران کے سرکاری خرچ پر بیرون ملک دوروں اور سرکاری کھانوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ کفایت شعاری کے یہ اقدامات یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال 2023-24ء میں بھی جاری رہیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مسلم لیگ کی حکومتوں نے اپنے دور اقتدار میں وفاقی و صوبائی محکموں میں بہت اصلاحات نافذ کی ہیں۔ اس سلسلے میں کئی تجاویز معزز ایوان کے سامنے ہیں۔ موجودہ مخلوط حکومت نے بھی اصلاحات کے سلسلے کو آگے بڑھایا ہے جس میں قابل ذکر TSAکا نفاذ‘ نئے جنرل فنانشل اینڈ ٹریژری رولز (General Financial And Treasury Rules) اور کیش اینڈ ڈیبٹ مینجمنٹ رولز (Cash Debt Managenent) ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی پنشن کے سالانہ اخراجات تیزی سے بڑھے ہیں‘ پنشن اخراجات ان سسٹین ایبل (Un Sustainable) ہو چکے ہیں اور اس میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نئے وفاقی سرکاری ملازمین کیلئے حکومت پاکستان کو (Contributry) کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ سکیم کو لاگو کرنا پڑیگا۔ اس سلسلے میں بجٹ مالی سال 2023-24ء میں پنشن فنڈ قائم کر دیا گیا ہے اور اسکے رولز اینڈ پروسیجرز پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سنیٹر اسحاق ڈار نے اختتامی تقریر میں کہا کہ سائنس اور خاص طور پر آئی ٹی کے فروغ کیلئے 34ارب جبکہ پیداواری شعبوں (زراعت‘ صنعت‘ معدنیات) کیلئے پی ایس ڈی پی میں 50ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ غیر ترقیاتی بجٹ میں زراعت کیلئے تقریباً 13ارب روپے کی رقم اسکے علاوہ ہے۔ غذائیت کے شعبے کیلئے SDGs اور بی آئی ایس پی کے نشونما پروگرام کے تحت خاطر خواہ رقم مختص کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیوب ویل کی سولرائزیشن کیلئے پرائم منسٹر کے خصوصی پروگرام کے تحت 30ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ نوجوانوں کی فلاح و بہبود کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے تاکہ انہیں عملی زندگی کیلئے تیار کیا جا سکے۔ نوجوانوں کیلئے مختلف پی ایس ڈی پی اور جاری اخراجات میں تقریباً 31ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ترقیاتی سکیموں کی مد میں SDGsکے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے نہ صرف موجودہ مالی سال میں خاطر خواہ فنڈز فراہم کئے گئے ہیں بلکہ اگلے مالی سال 2023-24ء میں بھی 90ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی کی شرح میں اضافے کی اتھارٹی 9جون کے فنانس بل میں وفاقی حکومت کو دینے کی تجویز تھی۔ سینٹ کی فنانس کمیٹی اور دیگر معزز اراکین کی اس تجویز کو سامنے رکھتے ہوئے کہ وفاقی حکومت کی اس اتھارٹی کو محدود رکھا جائے۔ پی ڈی ایل کی زیادہ سے زیادہ شرح صرف ہائی سپیڈ ڈیزل اور ایم او جی اے ایس کو 50روپے فی لٹر سے بڑھا کر 60روپے فی لٹر پر CAPکر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی بچت کی سکیموں جن میں بہبود سیونگز سرٹیفکیٹ (BSC)اور شہداء فیملی ویلفیئر اکائونٹس (SFWA) کے سلسلے میں سرمایہ کاری کی حد 50لاکھ روپے سے بڑھا کر 75لاکھ روپے 9جون کے پیش کردہ بجٹ میں کر دی تھی۔ اب پنشنرز بینیفٹ اکائونٹ (PBA) کی سکیم میں بھی سرمایہ کاری کی حد 50لاکھ سے بڑھا کر 75لاکھ روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ توانائی کی بچت کے منصوبے کے تحت کابینہ نے توانائی کی پرانی ٹیکنالوجی کے (In Efficient) پنکھوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ فنانس بل 2023-24ء کے ذریعے سے PSQCA میں ایسے ان ایفی شنٹ پنکھوں پر 2ہزار روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز دی تھی۔ اس طرح کے پنکھوں کے مینو فیکچررز نے توانائی کی بچت والی ٹیکنالوجی پر جانے کیلئے منتقلی کیلئے وقت مانگا ہے۔ اس کیلئے 6ماہ بعد یعنی یکم جنوری 2024ء سے یہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ العمل ہو گی۔ سنیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج نے مارکیٹ کے موثر کام کرنے اور بہتری کیلئے تجاویز پیش کی ہیں۔ ان میں سے کچھ فوائد طویل مدتی شیئر ہولڈنگ کو فراہم کئے گئے تھے۔ اس سلسلے میں ہم قانون میں ضروری تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کا تقریباً 3اعشاریہ 2ٹریلین روپے کا ٹیکس مختلف جوڈیشل فورا مختلف عدالتوں‘ ٹربیونلوں میں زیر سماعت 62ہزار سے زائد مقدمات میں پچھلی دہائی سے پھنسا ہوا ہے۔ گزشتہ عشرے سے متبادل طریقہ کار کے ذریعے (Alternate Dispute Resolution) تنازعات کے فوری حل کی کوششیں کی جاتی رہیں ہیں جس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے لہٰذا موجودہ متبادل تنازعات کے حل کی کمیٹی (ADRC) کے طریقہ کار کو اس طرح مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکس دہندگان اے ڈی آر سی سے رجوع کرنے میں آسانی محسوس کریں اور تنازعات کے حل کیلئے اے ڈی آر سی پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کریں۔ اس طرح حکومت کی جانب سے نہ صرف واجب الادا ٹیکس وصول کیا جائیگا بلکہ ساتھ ساتھ عدالتی فورم پر بھی بوجھ کم ہو گا اور قانونی چارہ جوئی کی لاگت کم ہو جائیگی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے اے ڈی آر سی کے طریقہ کار پر نظر ثانی کی ہے اور بہتری کیلئے 3رکنی کمیٹی تجویز کی ہے جو کہ اکثریتی بنیاد پر تنازعات کا فیصلہ کریگی۔ اسکی سربراہی معزز ہائیکورٹ یا معزز سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کرینگے جبکہ چیف کمشنر ایف بی آر اسکے رکن ہونگے۔ تیسرا رکن ٹیکس پیئر خود یا اس کا نامزد شخص ہو گا۔ مزید برآں اب اے ڈی آر سی کا فیصلہ ایف بی آر پر بائینڈنگ ہو گا لیکن ٹیکس دہندگان پر بائینڈنگ نہیں ہو گا۔ اس طریقے سے ٹیکس دہندگان نئے فورم کو استعمال کرینگے اور انکے ٹیکس کے تنازعات کو تیزی اور کم لاگت کے ساتھ حل کیا جائیگا۔ بجٹ تخمینہ جات پر عام بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے عام آدمی کی ضروریات اور افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے اشیائے خوردو نوش کی مقررہ اشیاء پر فراہمی یقینی بنانے کیلئے یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو رمضان پیکیج کے علاوہ وزیراعظم ریلیف پیکیج کے تحت 24ارب روپے فراہم کئے جبکہ اگلے مالی سال 2023-24ء کے رمضان پیکیج کیلئے 5ارب اور وزیراعظم ریلیف پیکیج کیلئے 20ارب کی خطیر مختص کی گئی ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام غربت سے نمٹنے کیلئے حکومت پاکستان کا ایک فلیگ شپ پروگرام ہے۔ مالی سال 2021-22ء میں اس پروگرام کیلئے اڑھائی سو ارب روپے مختص کئے گئے تھے ۔ موجودہ حکومت نے بجٹ 2022-23ء میں 360ارب تک یہ رقم بڑھا دی۔ رواں مالی سال کے دوران اس مد میں 40ارب روپے کا مزید اضافہ کر کے BISP کا بجٹ 400ارب روپے کر دیا گیا۔ یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے دوران حکومت نے اس مد میں 450ارب کی بجائے مزید اضافہ کر کے اسے 466ارب روپے دیئے ہیں۔ وفاقی بجٹ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج ہر وقت ملک و قوم کے دفاع‘ اندرونی و بیرونی سازشوں کیخلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہیں۔ ہمیں اپنی مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز کی نمایاں کارکردگی اور قربانیوں پر فخر ہے۔ ہم نے اپنی نیشنل سکیورٹی کو ترجیح دینی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں تمام تر مالی مشکلات کے باوجود اپنی افواج کو ضروری فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔ ہم اس سلسلے میں کسی رکاوٹ کو آڑے نہیں آنے دینگے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی‘ زراعت کے فروغ اور نیشنل فوڈ سکیورٹی کیلئے کئے جانے والے اقدامات کیلئے 30ارب روپے بجٹ میں مختص کئے ہیں۔ وفاقی حکومت اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے بہتر حکمت عملی کے ذریعے موثر اقدامات کریگی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سول اور مسلح افواج کے حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کیلئے مالی سال 2023-24ء میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح نجی شعبے کے ملازمین کیلئے کم سے کم اجرت کو 25ہزار سے بڑھا کر 32ہزار روپے کر دیا ہے۔ اسی طرح ای او بی آئی پنشن کو بھی 8500سے بڑھا کر 10ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ سنیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ مالی مشکلات کے باوجود حکومت نے تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کا تمام تر فائدہ عوام تک پہنچایا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حتی الامکان کمی کی ہے۔ اسی پالیسی کے تحت آئندہ بھی یہ ریلیف عوام کو دیا جاتا رہے گا۔ اوورسیز پاکستانیز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سنیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی جن ممالک میں مقیم ہیں وہاں پر وہ پاکستان کے سفیر ہیں۔ اور جو نہ صرف ان ممالک کی ترقی و خوشحالی میں اپنا فعال کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ ترسیلات زر (Foreign Remittances) کے ذریعے سے اپنی مٹی کا حق بھی ادا کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان اس سلسلے میں اُن کو ہر طرح کی سہولیات دینے میں کوشاں ہے اسی لئے اگلے مالی سال کے بجٹ میں Remittancesکو (Facilitate) کرنے کیلئے 80ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد محترم نواز شریف نے اپنے دور حکومت کے دوران پورے ملک اور تمام علاقوں کی ترقی و خوشحالی کیلئے اقدامات اٹھائے۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور حکومتی اتحادی جماعتیں بھی اسی حکمت عملی اور ویژن کے تحت خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے وفاقی ترقیاتی پروگرام میں 57ارب روپے اور غیر ترقیاتی بجٹ میں 66ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ مالی سال 2023-24ء کے بجٹ کو بہتر بنانے کیلئے اراکین پارلیمنٹ نے مفید تجاویز دی ہیں جن پر وہ انکے شکرگزار ہیں۔ معزز اراکین کے مشورے‘ عوامی خواہشات اور امنگوں کے بہترین ترجمان ہیں۔ معیشت کے مختلف شعبوں کی بہتری کے بارے میں اراکین کی تجاویز اور آراء ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جن اراکین اسمبلی نے عام بحث میں حصہ لیا ان سب کا وہ شکریہ ادا کر رہے ہیں لیکن میں پھر بھی خاص طور پر وزیر خزانہ بلاول بھٹو زرداری‘ قائد حزب اختلاف راجہ ریاض احمد‘ اتحادی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈران کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ معزز اراکین کی طرف سے بجٹ مالی سال 2023-24ء میں اصلاح کیلئے تعمیری تنقید کے ساتھ عمدہ تجاویز پیش کی گئیں۔وہ ایوان کی خاتون ارکان کے موثر کردار اور ایوان کی کارروائی بشمول بجٹ 2023-24ء پر بحث میں دلچسپی کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی فوڈ سکیورٹی‘ شمالی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل‘ آبی تحفظ‘ آبادی میں اضافے کی روک تھام‘ بیروزگار نوجوانوں کی فنی مہارت‘خواتین کی بہبود‘ زراعت کے شعبہ میں مراعات‘ بی آئی ایس پی‘ یوٹیلیٹی سٹورز کی وسعت‘ ای او بی آئی پنشن‘ روس سے تجارت بڑھانے‘ مزدور کی کم سے کم اجرت 32ہزار روپے کرنے‘ سیاحت و ترقی کے فروغ اور پسماندہ علاقوں خاص طور پر بلوچستان اور ضم شدہ اضلاع (سابقہ فاٹا و پاٹا) کی ڈیویلپمنٹ کیلئے خصوصی اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ سینٹ کے معزز ارکان نے فنانس بل اور بجٹ تخمینہ جات کا جائزہ لیکر جو سفارشات پیش کیں وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ معزز قائمہ کمیٹی ‘ چیمبرز آف کامرس اور دیگر عوامی حلقوں کی آراء کو مدنظر رکھ کر اچھی سفارشات پیش کی ہیں۔ ہمیں ایوان بالا سے 59سفارشات موصول ہوئی ہیں جن میں سے 19سفارشات عمومی نوعیت کی ہیں۔ معزز اراکین سینٹ نے بجٹ بحث کے دوران بھی مفید تجاویز دی ہیں۔ اس سلسلے میں خاص طور پر سود کے خاتمے‘ دفاعی بجٹ میں اضافے‘ غیر ضروری اخراجات پر کنٹرول‘ لیپ ٹاپ سکیم اور ووکیشنل ٹریننگ‘ نقصان میں جانے والے اداروں کی نجکاری‘ یوٹیلیٹی سٹورز پر دستیاب اشیاء کی سستے داموں فراہمی‘ بیج‘ کھاد اور شمسی توانائی کی پیداوار پر سبسڈی‘ صحت کے محکمے کا بجٹ بڑھانے‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ‘ ٹیلی وژن اور ریڈیو پاکستان کا وہ خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہیں گے کہ موجودہ خصوصی چیلنجنگ حالات کے باوجود جن تجاویز پر عمل ممکن ہے انہیں منظور کر لیا جائے۔ وہ میڈیا کے معزز دوستوں‘ معاشی تجزیہ کاروں اور ماہرین کا بھی شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ انہوں نے بجٹ کے اچھے پہلوئوں کی ستائش کی اور ان حلقوں کی پیش کردہ مثبت تجاویز کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کچھ معزز ممبران کو بعض تبدیلیوں پر اختلاف ہے جو فنانس بل 2023-24ء میں سپر ٹیکس کے حوالے سے تجویز کی گئی ہیں۔ بینکوں سے رقم نکلوانے پر نان فائلرز پر زیرو اعشاریہ 6فیصد ٹیکس کے بارے میں بھی چند آراء سامنے آئی ہیں۔ وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ سپر ٹیکس گزشتہ سال متعارف کرایا گیا تھا۔ اس سال ہم نے اسے مزید پروگریسو بنایا ہے اور 10فیصد سپرٹیکس کے نفاذ کیلئے آمدنی کی سلیب کو 300ملین روپے سے بڑھا کر 500ملین روپے کر دیا ہے۔ اسی طرح ٹیکس کی شرح کو بھی مزید پروگریسو کیا ہے جو ایک فیصد‘ دو فیصد‘ تین فیصد‘ چار فیصد سے شروع ہو کر 6فیصد‘ 8فیصد اور 10فیصد تک ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ٹیکس ریونیو میں اضافے کی اشد ضرورت ہے اور سپر ٹیکس صرف زیادہ آمدنی والے افراد پر لگایا جاتا ہے جو یہ ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں اسلئے حکومت اسے برقرار رکھ رہی ہے۔ سنیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ نان فائلرز کے کیش نکالنے پر زیرو اعشاریہ چھ فیصد ٹیکس کی شرح کے معاملے کی وہ یہ وضاحت ر ہے ہیں کہ یہ معیشت کی ڈاکومنٹیشن اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ایک اہم قدم ہے۔ ٹیکس کا سارا بوجھ عملاً چند ملین ٹیکس دہندگان برداشت کر رہے ہیں اسلئے وقت کی اشد ضرورت ہے کہ اس ملک کے تمام شہری جو ٹیکس ادا کرنے کے قابل ہیں وہ اپنا واجب الادا ٹیکس ادا کریں تاکہ ٹیکس کی ذمہ داری کو بانٹا جا سکے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بونس شیئرز پر ٹیکس لگانے کے اقدامات کی بعض ممبران نے مخالفت کی۔ کمپنیاں شیئر ہولڈرز کو ڈیویڈنڈ کیش کی شکل میں یا بونس شیئر جاری کرتی ہیں جسے شیئر ہولڈرز سٹاک ایکسچینج میں بیچ سکتے ہیں اور نقد رقم وصول کر سکتے ہیں۔ پہلی صورت میں شیئر ہولڈرز موصول ہونے والے نقد منافع پر 15فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن دوسری صورت میں شیئر ہولڈر کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ اس اقدام کے ذریعے ہم نے کیش ڈیویڈنڈ اور بونس شیئر دونوں پر ٹیکس عائد کیا ہے لیکن ساتھ ساتھ ہم نے بونس شیئرز کیلئے 10فیصد کی کم شرح تجویز کی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ ٹیکس کمپنیاں نہیں شیئر ہولڈرز ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیکشن 99ڈی پر ٹیکسٹائل سیکٹر وغیرہ نے تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن جو وفاقی حکومت ایسے تشخیص کئے گئے ٹیکس گزار سے 50فیصد تک اضافی ٹیکس وصول کرنے کا اختیار رکھتی ہے جس نے اس میں خارجی عوامل (Exogenous Factors) کی وجہ سے غیر متوقع منافع (Windfall Gain) کمایا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون صرف ایک (Enabling Provision) ہے۔ اس کا ہدف کوئی خاص شخص یا کمپنی کی طرف نہیں ہے بلکہ اگر وفاقی حکومت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ایسے شعبے نے خارجی عنصر سے فائدہ اٹھایا ہے اور ونڈ فال منافع کمایا ہے تو یہ پروویژن پورے شعبے پر نافذ کی جائیگی۔ وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ سپر ٹیکس صرف کارپوریٹ سیکٹر پر لاگو ہو گا اور افراد کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک واحد ملک نہیں ہے جو اس طرح کی قانون سازی کر رہا ہے۔ یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے اسی طرح کے ٹیکس لگائے ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کیلئے تمام اقدامات کرینگے کہ کاروباری اعتماد متزلزل نہ ہو اور ہم نہیں چاہتے کہ قانون کی شق کی وجہ سے لوگ گھبرائیں۔ (Anomaly Committees) کی سفارشات کی بنیاد پر ہم 5سال کی مدت کو کم کر کے 3سال کر رہے ہیں اور اس قانون کا اطلاق ٹیکس سال 2021ء سے ہو گا۔وزیر خزانہ نے پنشن اور تنخواہوں کے حوالے سے کہا کہ 85ارب روپے اخراجات کی کٹوتی ترقیاتی اخراجات سے نہیں کی جائیگی نہ ملازمین کی تنخواہوں سے ہو گی اور نہ تنخواہ یا پنشن سے کٹوتی ہو گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ چند ماہ سے قوم کے سامنے ایک سوال یہ رہا ہے کہ آیا آئی ایم ایف کا نواں جائزہ کامیابی سے ہو گا یا نہیں۔ وہ اس سلسلے میں معزز ایوان کو اعتماد میں لے رہے ہیں کہ باوجود یہ کہ حکومت پاکستان نے تمام نکات پر مکمل Compliance بشمول Prior Actionsاپریل 2023ء کے شروع میں کر لی تھی لیکن ایکسٹرنل فنانسنگ گیپ کی وجہ سے ہمارا کیس آئی ایم ایف بورڈ کے سامنے نہیں رکھا جا سکا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی پیرس میں کلائمیٹ فنانس سمٹ کے دوران منیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف سے 2انتہائی اہم ملاقاتیں ہوئیں اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام کو آگے بڑھانے کیلئے دونوں اطراف کی طرف سے ایک آخری بھرپور کوشش کی جائے۔ اس حوالے سے پچھلے تین دنوں میں پاکستان کی معاشی ٹیم نے آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کئے ہیں تاکہ Pending Review کو مکمل کیا جا سکے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں مالی سال 2023-24ء کیلئے 215ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جانے کی تجاویز ہیں۔ ان ٹیکسوں میں اس امر کو خاص طور پر مدنظر رکھا گیا ہے کہ ان کا بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر نہ پڑے۔ اسی طرح اخراجات میں 85ارب روپے کی کمی اس طرح سے کی گئی ہے کہ ترقیاتی بجٹ پی ایس ڈی پی‘ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن سے کوئی کٹوتی نہ کی جائے۔