کراچی(عبدالماجدبھٹی)بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم کی شرکت حکومت پاکستان کی اجازت سے مشروط ہے ،پی سی بی نے بھارت جانے کے لئے وزیر اعظم کو خط ارسال کردیا اور باضابطہ اجازت طلب کر لی ہے۔حکومت کی جانب سے جواب آنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ آئی سی سی کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرے گا۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے تصدیق کی ہے کہ ورلڈ کپ میں شرکت کی اجازت کے لئے پی سی بی کے پیٹرن اوروزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھاہے۔پی سی بی ترجمان نے گزشتہ روز نمائندہ جنگ کو بتایاکہ ورلڈ کپ شیڈول کے اعلان کے فورا بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے وزیر اعظم کووزارت بین الصوبائی رابطہ کے توسط سے خط تحریر کیا ہے جس کی کاپی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کو بھی بھیجی گئی ہے۔پی سی بی نے بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ کے شیڈول کی کاپی بھی وزیر اعظم کو بھیجی ہے اور ان سے بھارت جانے کے لئے رہنمائی مانگی ہے۔پی سی بی ترجمان کے مطابق وزیر اعظم کو لکھے خط میں ا ن سے رہنمائی مانگی ہے بھارت کا دورہ کرنے کے حوالے سے پاکستان کی کیا پوزیشن ہے،ہمیں کن بھارتی شہروں میں میچ کھیلنا ہیں اور کن شہروں میں نہیں جانا۔واضح رہے کہ بھارت کے دس شہروں میں پانچ اکتوبر سے19نومبر تک ورلڈ کپ ہوگا۔آئی سی سی نے ٹورنامنٹ کے شیڈول جاری کرتے وقت پاکستان کے میچ حیدرآباد،احمدآباد،بنگلور،چنئی اور کول کتہ میں رکھے ہیں۔پاکستان نے ممبئی میں کوئی میچ کھیلنے سے انکار کردیا ہے۔ اگر پاکستان سیمی فائنل میں کوالی فائی کرتا ہے تو وہ ممبئی کی بجائے کول کتہ میں میچ کھیلے گا۔15اکتوبر کو پاک بھارت میچ نریندر مودی اسٹیڈیم احمد آباد میں کھیلا جائے گا۔سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے 16جون کو وزیر اعظم شہباز شریف سے اسلام آباد میں ملاقات کی تھی اور ان سے درخواست کی تھی کہ ورلڈ کپ میں شرکت کے حوالے سے بورڈ کو حکومت کی پالیسی کے بارے میں رہنمائی کی ضرورت ہے ،آپ اس بارے میں حکومتی اداروں اور ایجنسیوں کو شریک کریں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نجم سیٹھی کی شہباز شریف سے ملاقات کے9دن بعد پی سی بی نے وزیر اعظم کو وزارت کے توسط سے خط تحریر کرکے اجازت مانگی ہے۔پی سی بی ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارت کا دورہ کرنے اور ان شہروں میں جہاں ہمیں اپنے میچ کھیلنا چاہیں، حکومت پاکستان کا استحقاق ہے۔ ہمیں اپنی حکومت کے فیصلے پر پورا بھروسہ ہے اور جو بھی مشورہ دیا جائے گا اس پر عمل کریں گے۔یہ مکمل طور پر حکومت پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ ہمیں اگلے اقدامات کے بارے میں مشورہ دینے سے پہلے کیا طریقہ کار وضع کرنا اور اس پر عمل کرنا چاہتی ہے۔ اگر ان شہروں کا معائنہ کرنے اور ٹورنامنٹ کے منتظمین کے ساتھ میٹنگ کرنے کے لیے ایک پیشگی سیکیورٹی ٹیم بھارت بھیجنے کی ضرورت ہے، تو یہ مکمل طور پر حکومت کا فیصلہ ہو گا۔واضح رہے کہ2016 کے ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ سے قبل بھی پاکستان کے سیکیورٹی وفدنے بھارت کا دورہ کرکے انتظامات کا جائزہ لیا تھا اور دھرم شالا میں پاکستان کے میچ کول کتہ منتقل ہوگئے تھے۔ترجمان نے کہا کہ پاکستان چاہتا کہ ورلڈ کپ میں شرکت کرے اور ٹورنامنٹ جیت کر تاریخ رقم کرے لیکن بھارت کے حوالے سے صورتحال مختلف ہے چاہے وہ دو طرفہ ہو سیریز ہویا کثیر ٹیموں کی سیریز - حکومت کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب ہم اس عمل کی پیروی کر رہے ہیں اور ایونٹ اتھارٹی اور ایونٹ کے میزبانوں سے اپنی بات چیت میں اس کے بارے میں کھلے اور شفاف رہے ہیں۔واضح رہے کہ پی سی بی نے متعدد بار کہا ہے کہ وہ سیاست اور کھیل کو الگ الگ رکھنا چاہتا ہے، ایک ایسی پالیسی جو حکومت پاکستان کی حکمت عملی سے ہم آہنگ ہے اور حال ہی میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے مئی میں شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کے بعد گوا سے واپسی پر اس کا اعادہ کیا تھا۔لیکن بھارتی حکومت کھیل کو سیاست سے منسلک کررہی ہے۔اکتوبر 2022 میں، بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ نے، بی سی سی آئی کے اے جی ایم کے بعد، ممبئی میں اعلان کیا کہ نئی دہلی نے کرکٹ ٹیم کو ایشیا کپ کے لیے پاکستان کے دورے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، اور ایشیا کپ کو پاکستان سے باہر منتقل کر دیا جائے گا۔ جس پر پی سی بی کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔تاہم، وسیع بات چیت اور لابنگ کے بعد، پی سی بی ایشین کرکٹ کونسل کو اس بات پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ پاکستان میں ایشیا کپ کے کم از کم چار میچز سری لنکا میں کرانے پر رضامند ہو جائے۔ حال ہی میں، پاکستان حکومت نے فٹ بال ٹیم کو بنگلورو میں ہونے والی ساف چیمپئن شپ 2023 میں شرکت کی اجازت دی ہے، جبکہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نےاگست میں ایشین چیمپنز ٹرافی کے لئے اپنی ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت دے رکھی ہے۔پاکستان نے2025میں آئی سی سی چیمپنز ٹرافی کی میزبانی کرنا ہے۔