حکیم حارث نسیم سوہدروی
دَورِ حاضر میں جو امراض عام ہیں، اُن میں سے ایک ڈیپریشن بھی ہے، جسے یاسیت، اضمحلال ، پژمُردگی یا افسردگی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے، جو عُمر کے کسی بھی حصّے میں لاحق ہو سکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے ایک ارب افراد اس عارضے کا شکارہیں۔ یعنی ہر پانچ میں سے ایک فرد ڈیپریشن کا مریض ہے، جب کہ اس تعداد میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
یاد رہے، مَردوں کی نسبت خواتین ذہنی تناؤ کا زیادہ شکار ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف اُن کے روزمرّہ معمولات متاثر ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات احباب سے تعلقات اور خاندانی رشتے بھی زد میں آجاتے ہیں۔ پھر ڈیپریشن کے زکارافراد بعض غیر متعدی امراض مثلاً ذیابطیس، امراضِ قلب اور قوّت فیصلہ میں کمی کے بھی شکار ہو سکتے ہیں۔ بلاشبہ، آج کا انسان فطرت سے دُور ،مشینی زندگی گزار رہا ہے اور اس مشینی زندگی ہی کے سبب ذہنی دباؤ، اعصابی تناؤ مسلسل بڑھ رہا ہے اور جب یہ دباؤ حد سے بڑھ جائے تواضمحلال، افسردگی کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ کوئی شخص طویل عرصے سے بے روز گار ہے، میاں بیوی میں مسلسل جھگڑا رہتا ہے، مطلوبہ یونی ورسٹی/ کالج میں داخلہ نہیں ہورہا،اسکول فیس بروقت ادا نہیں کی جا رہی، امتحانات میں اچھے نمبرز نہیں آرہے، سخت محنت کے باوجود دفتر میں سراہا نہیں جا رہا، تن خواہ وقت پر نہیں مل رہی، کاروبار میں نقصان ہورہاہے، منصوبوں میں پے دَر پے ناکامیاں ہو رہی ہیں وغیرہ وغیرہ جیسی وجوہ ڈیپریشن کا سبب بنتی ہیں۔ نیز، پس منظر میں کارفرما وجوہ میں حسد، بغض، کینہ اور احساسِ کم تری وغیرہ شامل ہیں۔
کچھ افراد اس مرض سے عارضی طور پر بھی دوچار ہو سکتے ہیں، مثلاً کوئی طالب علم امتحان کے بعد نتیجے کے انتظار میں ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے اور جب نتیجہ آجائے تو وہ دباؤ سے باہر آجاتا ہے۔ ایسے ہی اگر کوئی بے روز گار ہے، تو روز گار ملنے پر مطمئن ہو کردباؤ سے آزاد ہوجاتا ہے یا پھر میاں بیوی میں صلح کے بعد یہ دباؤ اور تناؤ ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اخبارات یا الیکٹرانک میڈیا پر قتل و غارت یا دھماکوں سے ہلاکتوں کی خبروں سے وقتی طور پر ذہن دباؤ قبول کرتا ہے، مگر کچھ وقت بعد نارمل ہوجاتا ہے۔
مگر بعض ذکی الحِس(حسّاس) اور شدید احساسِ کم تری کے شکار افراد شدید ذہنی، اعصابی تناؤ کا بھی شکار ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ اُنہیں سکون آور ادویہ کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ڈیپریشن یا ذہنی تناؤ کی علامات میں ہر وقت پریشان رہنا، طبیعت میں بے چینی، بےخوابی، تنہائی پسندی، نااُمیدی، مایوسی، کم زوری، سُستی اور تھکاوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ابتدائی درجے کے ذہنی دباؤ کو روز مرّہ معمولات میں کچھ مثبت تبدیلیوں کے ذریعے بھی کم کیا جا سکتا ہے، جیسے علی الصباح بیدار ہو کر نماز ِفجر کے بعد سیر کو معمول بنالیں۔ صبح و شام باقاعدہ تلاوتِ قرآن حکیم کریں ،نمازِ پنج گانہ ادا کریں۔مختلف تفریحی سرگرمیوں کا اہتمام کرنے کے ساتھ دوستوں کے لیے وقت نکالیں۔ گھر والوں کے ساتھ کچھ وقت لازماً گزاریں۔ کچھ وقت فلاحی و رفاہی کاموں کو دیں۔ اپنی صحت اور خوراک پر توجّہ مرکوز کریں۔
غم و غصّے اور تفکرات سے دُور رہیں(کسی بات پر شدید غصّہ آئے ،تو اس ماحول سے نکلنے کی کوشش کریں) ، خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ دوسروں سے زیادہ توقعات ہرگز نہ رکھیں۔تنہائی سے دُور رہیں، مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب ہوں۔ جو حاصل نہ ہو سکے، اس سے متعلق سوچنے سے گریز کریں۔ مسکنات (خواب آور) ادویہ کاسہارا نہ لیں کہ ان سے عارضی طور پر تو سکون حاصل ہوجاتا ہے، مگر مابعد اثرات شدید ہوتے ہیں۔
ہر کام خود اعتمادی سے کریں، احساسِ کم تری کا شکار نہ ہوں، غیر ضروری سوچوں سے دُور رہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا زیادہ اثر نہ لیں، خوش و خرم رہنے کی کوشش کریں اور سب سے اہم یہ کہ اپنا ہر کام، ہر پریشانی صرف اللہ کے بھروسے چھوڑنے کی عادت اپنائیں کہ اللہ ربّ العزّت نہایت مہربان اور کارساز ہے اور جب ہم اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دیتے ہیں، تو پھر وہ اُس کے فیصلے کے مطابق بحسن و خوبی انجام پاتے ہیں اور ہمیں بہت حد تک ذہنی دباؤ، اعصابی تناؤ سے نجات مل جاتی ہے۔