(گزشتہ سے پیوستہ)
ایران سے اپنے مشاہدات اور تاثرات سپرد قلم کرتے ہوئے یہ موضوع سب سے پہلے زیر بحث لانا چاہتا ہوں کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین چین کی ثالثی میں جو سفارتی تعلقات کی بحالی کا اقدام کیا گیا ہے وہ ایرانیوں کی نظر میں ایک مثبت قدم ہے ان کی نظر مستقبل کے واقعات پر ٹکی ہوئی ہے جب ان سے اس سوچ کی وجہ دریافت کرو تو کم و بیش سبھی یہ کہتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات تو اس سے قبل بھی موجود تھے مگر ان کے ہونے کے باوجود جو تلخی تھی وہ ساری دنیا جانتی ہے اور اصل مسئلہ صرف سفارتی روابط کے از سر نو بحال ہونے سے حل نہیں ہوگا بلکہ دونوں ممالک کو ہر موضوع پر، چاہے اس سے کتنی ہی تلخ یادیں کیوں نہ جُڑی ہوں، گفتگو کرنی چاہئے اور کرتے رہنا چاہئے ۔ ویسے بھی ایران میں کچھ عرصہ قبل حجاب کے حوالے سے تحریک کے بھی ایرانی حکومتی زعما پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس تحریک میں برستے ڈالروں کی وجہ سے ایران میں جو بے چینی پھیلی اس سے ابھی تو مقابلہ کر لیا گیا ہے لیکن اگر مغربی دنیا سے بھی ایران کی مخالفت رہی اور عالم اسلام میں بھی اس کیلئے مشکلات رہیں تو اس کیلئے پریشانی بہت بڑھ جائے گی اس لئے عالم اسلام کے تمام ممالک سے اس کے تعلقات معمول کے مطابق ہونے چاہئیں ۔
ایران میں اس وقت زبردست طور پر یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ او آئی سی کو حقیقی معنوں میں فعال کیا جائے اور ان کے نزدیک حقیقی معنوں میں فعالیت سے یہ مراد نہیں کہ او آئی سی بار بار صرف قراردادیں ہی پاس کرتی رہے بلکہ وہ اس سے بڑھ کر او آئی سی کے کردار کے خواہش مند ہیں کہ یہ ادارہ اتنی طاقت بھی رکھتا ہو کہ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کر سکے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے اس کو مکمل طور پر از سر نو تشکیل دینا چاہئے، ایران میں یہ خیال بہت مضبوط ہے کہ پاکستان وہ ملک ہے جو اپنے جغرافیے ، آبادی، وسائل اور عرب غیر عرب مسلمان ممالک سے اپنے تعلقات کی وجہ سے اس صلاحیت کا حامل ہے کہ او آئی سی کی حقیقی فعالیت کیلئے کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے،اگر پاکستان اپنے داخلی سیاسی انتشار پر قابو پالے تو اس سے نہ صرف پاکستان کو غیر معمولی فوائد حاصل ہونگے بلکہ اس کے بہترین نتائج سے عالم اسلام بھی مستفید ہوسکے گا ۔پاکستان عالم اسلام میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے متحرک بھی ہوتا ہے، اُدھر خصوصی طور پر اس حوالے سے نواز شریف کا نام لیا جاتا ہے کہ وہ سعودی عرب ایران تعلقات کی تلخی کو زائل کرنے کی غرض سے بہت متحرک تھے اور سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے کے سبب ان کی کاوشیں رنگ بھی لا رہی تھیں ۔ تہران اور ریاض ان کی بات کو سن اور سمجھ رہے تھے مگر پھر وہ خود بد ترین حالات کا شکار ہو گئے اور ان کی کوششیں مکمل نہ ہو سکیں۔ ایک صاحب نے تو مزید فرمایا کہ اگر پاکستان میں نواز شریف ان حالات کا شکار نہ ہوتے تو بہت ممکن تھاکہ ایران ،سعودی عرب تعلقات کے حوالے سے کسی بریک تھرو میں چین کی جگہ پاکستان کھڑا ہوتا اور یہ سہرا پاکستان کے سر پر سجتا مگر اب تو نظریں مستقبل پر گڑی ہوئی ہیں اور اب بھی اُدھر یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات کے بعد نواز شریف وزیر اعظم ہونگے اور وہ یہ کام جہاں پر چھوڑ کر گئے تھے دوبارہ وہیں سے اس کا آغاز کریں گے ۔
پاکستان میں ایک اور بھی تاثر بہت مضبوطی سے قائم ہے کہ کچھ مذہبی عناصر کو جو سیاست میں بھی شامل ہیں ایران کی حمایت حاصل ہے بلکہ پاکستان میں وہ لوگ ایران کے ترجمان ہیں مگر وہاں پر اس حوالے سے ایک اور ہی سوچ سامنے آئی کہ ہماری دوستی پاکستانی عوام سے ہے اور ایران پاکستان میں موجود ہر طبقہ کا دوست ہے آپ جن عناصر کی بات کر رہے ہیں یہ ہمارے وہاں پر خود ساختہ ترجمان بنے بیٹھے ہیں اور ان مذہبی منافرت پھیلانے والوں سے ایران کا کوئی تعلق نہیں ۔ ہمارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارا ایک مذہبی کلچر ہے، دنیا بھر سے طالب علم اس دینی تعلیم کو حاصل کرنے کی غرض سے ایران کا رخ کرتے ہیں اور جب ان میں سے کچھ لوگ اپنے وطن واپس پہنچتے ہیں تو وہ اپنے مذہبی بنیادوں پر قائم روابط کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ جیسے ان کے یہ روابط حکومت ایران کے ساتھ ہیں ،ایسا هہرگز نہیں ہے،ایک ایساواقعہ بھی پیش آیا کہ پاکستان کے ایک سینیٹر ایران تشریف لائے جو اب سینیٹ سے ریٹائر ہو چکے ہیں ان کو پاکستان کے ایک پارلیمنٹیرین ہونے کے ناتے ایران میں پروٹوکول دیا گیا مگر جب وہ واپس پاکستان گئے تو انہوں نے اپنی ڈوبتی سیاست کو مذہبی رنگ میں رنگنا شروع کردیا اور دورہ ایران اور اس میں ملنے والے پروٹوکول کو ایسے پیش کرنا شروع کردیا کہ جیسے اب ایران کے ترجمان وہ ہیں اور ہم سر پیٹتے رہ گئے کہ ہم نےتو صرف بطور پارلیمنٹیرین پروٹوکول دیا تھا ۔
وہاں یہ تصور بہت مضبوط ہے کہ یہ سرے سے ایران کے مفاد میں نہیں کہ پاکستان میں اس کی شناخت کسی مخصوص مذہبی گروہ کے ساتھ کی جائے کیوں کہ اس سے ایران کیلئے ایک تعصب پیدا ہوگا جو کسی طور بھی پاکستان میں ایرانی مفادات کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا ہے اور یہ بات درست بھی ہے ۔ ایران میں پاکستانی بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور مختلف شعبوں میں بہت متحرک ہیں ۔ مشہد میں اردو بولنے والے زائرین کیلئے علیحدہ سے ایک سنٹر قائم ہے اس سنٹر کے انچارج علی بھائی اور شہزاد بخاری ہر لمحہ خدمت کیلئے مستعد رہتے ہیں ۔ میں نے شہزاد بخاری سے ایران میں مذہبی آزادی کے حوالے سے کچھ تشویش ناک خبروں کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ مشہد میں جس محلے میں قیام پذیر ہیں وہاں پر اہل سنت کی جامع مسجد ہے اور مشہد کے مضافات میں ہی ادارہ تعلیم القرآن کے نام سے ہی اہل سنت کا مدرسہ قائم ہے اور ان تمام کو ایرانی حکومت کی ویسی ہی سرپرستی حاصل ہے جیسی کہ دیگر کو ہے ۔ شہزاد بخاری میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور ان کی ہر زائر سے گفتگو کا آغاز ہی پاکستان سے محبت کا درس دینے سے ہوتا ہے اور اس کیلئے وہ مذہبی حوالوں کا بھی بر محل استعمال کرتے ہیں ۔