ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے اعزاز میں ’’سلسلۂ تکلّم‘‘ کا انعقاد انجمن کی جانب سے 7دسمبر 2013ء کو انجمن کے دفتر واقع گلشنِ اقبال کراچی میں کیا گیا۔
اس اہم تقریب میں اپنی علالت کی وجہ سے شریک نہ ہوسکا۔ ڈاکٹر جاوید منظر نگراں انتظامی و ادبی امور ، مشیرمالیات کے ذریعے اپنا پیغام پہنچایا کہ’’ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی شاعری آپ اپنا تعارف ہے۔ وہ توانا اور انفرادی لہجے میں نظم کہتے ہیں انہیں کراچی آکر اندازہ ہو گیا ہوگا کہ پورے ملک میں اردو ادب پڑھنے والوں کی تعداد کراچی میں سب سے زیادہ موجود ہے۔‘‘ ان کی پاکستان آمد ہمارے لیے ایک تحفہ ہے ہم ان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تقریب سے مہمان اعزازی ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے کہا کہ یہاں آکر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ برسوں سے بچھڑا ہوا ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں آگیا ہو، میرے جسم میں یہاں کی مٹی، ہوا اور خوشبو ہے، یہاں کی بھٹی میں ہی تپ کر میں کندن بنا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں اردو میں زیادہ لکھتا ہوں، انگریزی میں اس لیے لکھتا ہوں کہ اس کی رائلٹی زیادہ ملتی ہے۔ میں نے اب تک ساڑھے چھ سو سے زائد اردو میں نظمیں کہی ہیں جو کسی بھی شاعر سے بہت زیادہ ہیں، زندگی کی صعوبتیں جھیل کر قلم کی مزدوری کررہا ہوں اور اس عمر میں بھی فعال ہوں۔ انہوں نے انجمنِ ترقّی اردو پاکستان اور ناچیز کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے ناچیز کی فرمائش پر اپنی نظمیں اور نعتیں سنائیں اور صاحبانِ ذوق نے بآواز بلند داد دی، ان کا کلام بے حد پسند کیا گیا۔ پروفیسر رئیس فاطمہ نے تقریب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی نظم اور نثر میں گویا دریا کو کوزے میں بند کردیتے ہیں، تمام سچائیوں کو بیان کرتے ہیں، ان لوگوں میں شامل ہیں جو صرف محبت کرتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں جو نفرتوں کی نرسریاں لگا رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنی محسوساتی نظموں اور تحریروں کے ذریعے محبت پھیلارہے ہیں اور امن کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صدف مرزا صاحبہ نے کہا کہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی شخصیت ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غزل کے دشمن ہیں، ایسا بالکل نہیں، وہ ایک ہمہ گیر شاعر، نثرنگار اور نقاد ہیں اور انہوں نے حساس تنقید کی بنیاد رکھی ہے۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کو اردو دنیا میں نظم کے ایک اہم شاعر کی حیثیت سے ان کی مختلف جہات کے ساتھ سمیٹا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر صاحب ایک خوش فکر شاعر ہیں، اردو ادب کا اہم نام ہیں نیز یہ کہ ان کے فن اور زندگی کے تجربات میں ایک توازن قائم ہے۔ انجمن کی جانب سے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کو انجمن کی کتابوں کا تحفہ اور گلدستہ پیش کیا۔
11؍دسمبر 2013ء کو انجمن میں ڈاکٹر نزہت عباسی کے تحقیقی مقالے ’’اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ‘‘ کی تقریبِ رونمائی انجام پائی جس کی صدارت ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے کی۔
’’ڈاکٹر نزہت عباسی کی کتاب تحقیق و تنقید کے حوالے سے آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔‘‘ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے انجمنِ ترقّی اردو پاکستان کے زیراہتمام ڈاکٹر نزہت عباسی کی کتاب ’’اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ‘‘ (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ) کی رسم اجرا کے موقع پر کیا۔ انہوں نے کہا کہ کل کی بات تھی جب کہ خواتین کو پردے کے پیچھے رکھا جاتا تھا۔ آج کی خواتین بڑے حوصلے سے ہر میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس کتاب کو ہر مدرسے اور لائبریری میں موجود ہونا چاہیے۔ انجمنِ ترقّی اردو پاکستان نے اسے شائع کیا ہے جس پر میں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں امریکا سے یہاں آرہا تھا تو میرے حلقہ احباب نے کہا کہ وہاں کتاب کلچر نہیں، کباب کلچر ہے لیکن یہاں آکر مجھے بے شمار کتابوں کی تقریبات میں جانا ہوا اور ڈیڑھ سو سے زیادہ کتابیں پیش کی گئیں۔ ڈاکٹر نزہت عباسی کے تحقیقی مقالے کے نگراں ڈاکٹر یونس حسنی نے کہا کہ آج مردوں کی یلغار میں خواتین کام کرنے والی آگے آ رہی ہیں۔ ڈاکٹر نزہت عباسی کے مقالے میں خوبیاں خود اُن کی ہیں میں صرف نگراں تھا، بہرحال میرے تفاخر میں اضافہ ہوا ہے۔ پروفیسر سحرانصاری نے کہا کہ ڈاکٹر نزہت عباسی کی کتاب پڑھ کر اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ وہ ادبی گھرانے کی فرد ہیں، محسوسات کی دنیا میں رہتی ہیں، انہوں نے بڑی سنجیدگی اور متانت سے اپنا تدریسی اور تنقیدی کام جاری رکھا ہے۔ صحافت، تدریس، شاعری، افسانے، ناول اور تحقیق کی دنیا میں خواتین آگے آ رہی ہیں، اپنے حلقہ اثر میں جب یہ تربیت دیں گی تو ہمارا آئندہ بہتر ہوگا۔ کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ اس مقالے کے لیے مجھے بڑے صبرآزما مراحل سے گزرنا پڑا لیکن قدم قدم پر اساتذہ کی رہنمائی نے حوصلہ افزائی کی اور آج جن تاثرات کا اظہار کیا گیا ہے میرے لیے وقعت کا باعث ہے۔ پروفیسر علی حیدر ملک نے کہا کہ نزہت نے مشکل موضوع کا انتخاب کیا ہے ایسے مقالے کم لکھے گئے ہیں۔ یہ کتاب کئی کتابوں کو جنم دے گی انہوں نے مزید کہا کہ اردو ادب میں خواتین کا کردار بہت اہم رہا ہے ان کے کام کی قدر کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ نزہت نے ایک وقیع کام بڑے احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ عموماً تحقیقی مقالے میں اصطلاحات کی بھرمار ہوتی ہے لیکن نزہت نے سادہ اور آسان زبان لکھی ہے، تاریخ ادب سے جو عورت غائب تھی انہوں نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ کفیل نے کہا کہ نسائی لب و لہجہ کی تلاش بڑی اہمیت رکھتی ہے انہوں نے بڑی مشاہداتی نظر سے تحقیقی مقالہ لکھا ہے جو کہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ تقریب سے ڈاکٹر جاوید منظر، ڈاکٹر اکرام الحق شوق اور سلطان مسعود شیخ نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر نزہت عباسی نے صدر محفل اور مقررین کو کتاب اور گلدستے پیش کیے ۔ تقریب کے آخر میں عشائیے کا بھی اہتمام کیا گیا۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے اس پروگرام کی نظامت کے فرائض ادا کیے۔
13؍دسمبر 2013ء کو ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے اعزاز میں انجمن ترقی اردو کا آخری پروگرام نظمیہ مشاعرہ تھا۔
’’مشاعرے صحت مند فکری رجحان کو فروغ دیتے ہیں۔ سرسید اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے ہمیشہ علم، ادب و ثقافت کے فروغ کو اولیت دی ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار سرسید یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے چانسلر انجینئرمحمد عادل عثمان نے انجمنِ ترقّی اردو پاکستان کے زیراہتمام اور سرسید یونی ورسٹی کے تعاون سے امریکا سے تشریف لائے اردو نظم کے بین الاقوامی شاعر ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی صدارت میںہونے والے نظمیہ مشاعرے میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ شعرا کے خیالات سے ادبی ذوق کو جِلا ملتی ہے، مشاعرے ہمارے ادبی روایات کا حصہ ہیں۔اس اہم ادبی مشاعرے میں ناچیز شریک نہ ہوسکا ڈاکٹروں نے اجازت نہ دی بہرحال اپنا پیغام پہنچا دیا تھا کہ انجمن اپنی دیرینہ روایات کی پاسداری کے ساتھ بیرون ملک سے تشریف لانے والے مہمانوں کے اعزاز میں تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔انہوں نے سرسید یونیورسٹی کے چانسلر انجینئر محمدعادل عثمان اور رجسٹرار سید علی ابرار کے تعاون کا بھی دلی شکریہ ادا کیا۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کی استاد شمع افروز نے اپنی نظم کے ذریعے مشاعرے کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر جاوید منظرنے تمام شعرا کو خوش آمدید کہا اور نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے دو قومی نظریے کے بانی سرسید احمد خان پر اپنی نظم پیش کی۔ محترمہ نسیم نازش ، راشد نور، آصف رضا، ساجد رضوی، ڈاکٹر اکرام الحق شوق، احمدعمرشریف، ڈاکٹر فاطمہ حسن، پروفیسر جاذب قریشی، پروفیسر سحرانصاری اور آخر میں صدرمحفل ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے اپنی منتخب نظمیں پیش کیں۔ صاحب ذوق سامعین کی کثیر تعداد نے اس مشاعرے میں شرکت کی۔ ناظم مشاعرہ نے انجمن ترقی اردو پاکستان کی جانب سے سرسید یونیورسٹی کے چانسلر انجینئر محمد عادل عثمان، صدرِ محفل ڈاکٹر ستیہ پال آنند، رجسٹرار سرسید یونیورسٹی علی ابرار صاحب اور تمام شعرائے کرام کو گلدستے پیش کیے گئے۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند بروز اتوار 15؍دسمبر 2013ء کو EK-601(ایمریٹس ائیرلائن) سے دوپہر 12 بج کر 5 منٹ پر کراچی سے واپس امریکہ روانہ ہوگئے۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے ائیرپورٹ پر یہ پیغام دیا کہ 82 برس کی اس طویل عمر میں مجھے اتنا پیار، اتنی عزت کبھی نہیں ملی جو کراچی میں جناب جمیل الدین عالی صاحب کی دعوت پر آنے سے ملی ہے۔ آنند صاحب نے فرمایا کہ کراچی میں میرے اعزاز میں جتنے پروگرام ہوئے وہ سب عالی صاحب کی مہربانیوں کے سبب ہوئے۔ میں ان کی مکمل صحت اور تندرستی کی دعا کرتا ہوں اور یہ بتانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ آپ نے مجھے جو پیار اور عزت دی میں اس کو ساری زندگی نہیں بھلا سکوں گا۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے ڈاکٹر جاوید منظر سے آخر میں یہ بھی کہا کہ میری جانب سے عالی صاحب کا بہت بہت شکریہ ادا کردیجیے گا ۔
میرے معاون محمد زبیر جمیل صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی عنایت کی انہیں بہت بہت مبارک ہو۔