پاکستان کا نیا وزیراعظم کون ہوگا، اس وقت وفاقی دارالحکومت میں یہ بلین ڈالر کا سوال ہے۔ نئے وزیراعظم کو لیکر شہر اقتدار میں مختلف مفروضے گردش کر رہے ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ 12اگست سے پہلے نگران وزیراعظم کی تقرری ہو جائیگی اور نگران حکومت تین ماہ نہیں بلکہ ایک سال کیلئے آئیگی۔ جبکہ باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ موجودہ اسمبلی کی ہی معیاد میں اضافہ کردیا جائیگا اور مزید چھ سے آٹھ ماہ تک شہبازشریف ہی وزیراعظم رہیں گے اور اسکے بعد نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جو عام انتخابات کرائے گی۔ جبکہ عام انتخابات کے بعد وزیراعظم کون ہوگا؟ یہ سوال بھی وفاقی دارالحکومت میں ہونیوالی سیاسی بحث کا اہم حصہ ہے۔ لیکن اس وقت تک فیصلہ ساز کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پار ہے کہ متذکرہ تجاویز میں سے کس پلان کو حتمی شکل دی جائے۔ کیونکہ میاں نواز شریف صاحب کو قابل عمل پلان پر قائل کرنا اشد ضروری ہے۔ انکے کچھ تحفظات ہیں، جنہیں اب تک دور نہیں کیا جاسکا۔ میاں نوازشریف چاہتے ہیں کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں اور اقتدار نگران حکومت کے حوالے کرکے گھر جائیں۔ جبکہ ساتھ ہی انکی رائے ہے کہ نگران حکومت بھی آئین میں موجود اپنی مدت سے آگے نہ جائے اور عام انتخابات کا وقت پر انعقاد ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انکی جماعت مسلم لیگ ن ایک جمہوری پارٹی ہے اور انہیں جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے ہی دوبارہ مینڈیٹ لیکر اقتدار میں آنا چاہئے۔ تاہم میری معلومات کے مطابق مقتدر ادارے 2023ء میں کسی بھی قیمت پر انتخابات کرانے کا رسک نہیں لینا چاہتے۔ وہ سیاسی و معاشی معاملات کو سلجھانے کے بعد عام انتخابات کے حامی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ جب تک عمران خان کیخلاف تمام کرپشن کیسز منطقی انجام تک نہیں پہنچ جاتے اور پی ڈی ایم حکومت یا پی ڈی ایم کی نامزد کردہ نگران حکومت معاشی استحکام کے مثبت نتائج عام آدمی کو منتقل نہیں کردیتی، تب تک الیکشن میں جانا ایک سنگین غلطی ہوگی۔ ان کی رائے ہے کہ عام آدمی کو ریلیف دئیے بغیر اسے اس بات پر قائل کرنا بہت مشکل ہوگا کہ عمران پروجیکٹ کی وجہ سے یہ تمام معاشی مسائل درپیش ہیں اور اگر وہ عمران خان کیخلاف مسلم لیگ ن کو ووٹ دے کر پانچ سال کیلئے منتخب کرلیں تو آنیوالی حکومت انہیں ریلیف دیگی اور سمجھتی ہے کہ اس وقت تمام مسائل کی کنجی میاں نوازشریف اور مسلم لیگ ن کے پاس ہے مگر مسلم لیگ ن کو اقتدار میں لانے کیلئے پہلے پروجیکٹ عمران کو ریورس کرنا اشد ضروری ہے۔ اس کیلئے مسلم لیگ ن کی بھی ویسی ہی سپورٹ اور قبولیت پیدا کرنی ہے، جیسی 2018ء کے انتخابات سے پہلے عمران کیلئے کی گئی تھی۔ کیونکہ چار سال تک عمران خان کی غیر آئینی و غیر قانونی سپورٹ کرکے اسے اتنا مضبوط کردیا گیا کہ اب جب تک وہی سپورٹ اس کی مخالف سمت میں نہ کی گئی تو مسلم لیگ ن و دیگر جماعتوں کیلئے لیول پلئینگ فیلڈ تیار نہیں ہوسکے گا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک ون ڈے میچ میں پچاس اوور ہوتے ہیں۔ اگر چالیس اوور تک تینوں ایمپائرز ایک ٹیم کی طرف نہ صرف جھکاؤ رکھیں بلکہ دونوں فیلڈ ایمپائر بوقت ضرورت اپنی من پسند ٹیم کے بارہویں اور تیرہویں کھلاڑی کی حیثیت سے فیلڈنگ کرکے یقینی چوکے بھی روکتے رہیں اور چالیس اوورز کے بعد وہ کہیں کہ ہم نیوٹرل ہوگئے ہیں اور دونوں ٹیموں کیلئے اگلے دس اوورز میں لیول پلئینگ فیلڈ میسر ہوگا اور دوسری ٹیم اب اپنی محنت سے میچ میں واپس آئے اور میچ جیت کر دکھائے ،تو یہ ناممکن ہوگا۔جب تک بقایا دس اوورز میں تینوں ایمپائرز دوسری ٹیم کی اس سے زیادہ سپورٹ اور معاونت نہ کریں جتنی پہلی ٹیم کی چالیس اوورز کے دوران کی ہو۔ اس لئے لیول پلئینگ فیلڈ تب ہوگا ،جب مسلم لیگ ن کی بھی ویسی سپورٹ کرکے تحریک انصاف کو اس کی اصل جگہ پر واپس لایا جائے گا۔اس وقت تمام فیصلوں کا حتمی اختیار میاں نوازشریف کے پاس ہے۔اگر 12اگست کے بعد نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تو نگران وزیراعظم کون ہوگا ؟ اور نگران کابینہ میں کون کون شامل ہوگا؟ اس کا فیصلہ صرف میاں نوازشریف کریں گے۔نوازشریف جس نام کی منظوری دے دیں گے ،وہی نگران وزیراعظم ہوگا۔جبکہ اطلاعات کے مطابق نگران کابینہ کی بھی حتمی منظوری میاں نوازشریف ہی دیں گے۔اگر میاں نوازشریف نے چاہا تو موجودہ پارلیمنٹ کی مدت میں توسیع کے بھی امکانات ہیں۔ کیونکہ میاں نوازشریف نہیں چاہیںگے کہ نگران حکومت تین ماہ سے لمبی چلے اور عام انتخابات التواء کا شکا رہوں۔اگر عام انتخابات کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوپاتا تو میاں نوازشریف چاہیں گے کہ نگران حکومت کے ایک سال تک رہنے کے بجائے ان کے بھائی کی حکومت میں توسیع ہوجائے اور تین ، چار ماہ میں جب بھی حالات موافق ہو ںتو شہباز شریف اسمبلیاں تحلیل کردیں اور فوری نگران حکومت کا قیام عمل میں آجائے،جوکہ دو ماہ کے اندر اندر عام انتخابات کا انعقاد کرائے اور نئی آنے والی حکومت پانچ سال کی منصوبہ بندی کیساتھ اقتدار سنبھالے۔تمام پلان میز پر موجود ہیں مگر کس پلان پر عمل کرنا ہے ؟ اس کا فیصلہ میاں نوازشریف کوکرنا ہے اور انکا فیصلہ ہی آئندہ سیاسی منظر نامے کی سمت کا تعین کرے گا۔