• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ شہباز شریف اور فضل الرحمان کی ملاقات خاصی مفید رہی‘‘

اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی جائزہ) وزیراعظم شہباز شریف سے مولانا فضل الرحمان کی ملاقات کے بعد دبئی مذاکرات کے تناظر میں جن خواہشات اور خدشات کو امکانات اور قیاس آرائیوں کی شکل میں پیش کیا جارہا تھا وہ معدوم پڑ گئے کیونکہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے پشاور میں مولانا فضل الرحمان کی میڈیا سے کی جانے والی گفتگو اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا بلاتاخیر نوٹس لیا تھا اور اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کو مولانا کے تحفظات دور کرنے کے بارے میں کہا تھا۔

ملاقات کے حوالے سے جو سرکاری اعلامیہ جاری کیا گیا وہ اپنی جگہ پر لیکن ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کیلئے جن کے ہمراہ ان کے وفاقی وزیر صاحبزادے اسعد الرحمان بھی تھے یہ ملاقات خاصی مفید رہی اور باقی آئندہ پر بات ختم ہوئی لیکن مولانا کی ناراضی کی وجہ کیا ہے اور وہ درحقیقت کس سے شاکی اور کس سے ناراض ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر اور غیر فعال پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی گزشتہ روز پشاور میں میڈیا کے نمائندوں سے ایک غیررسمی نشست میں ہونے والی گفتگو جو زیر بحث ہے اس کے بعض حصوں کو مختلف مفہوم کی توجیہات کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے، بالخصوص ’’دبئی مذاکرات‘‘ کے تناظر میں جہاں نہ تو مولانا کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور نہ ہی اس سلسلے میں انہیں اعتماد میں لیا گیا۔

کہا جارہا ہے کہ چونکہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری معینہ مدت پر اسمبلیاں تحلیل کرکے نگران حکومتوں کے قیام اور قومی انتخابات کے حامی ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان اس کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں۔

 اس لئے انہیں دبئی مذاکرات اور ملاقاتوں کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا اس لئے وہ ناراض ہوگئے۔

یہ بات تو خاصی حد تک درست ہے کہ مولانا صاحب اس صورتحال پر ناراض تو ہیں لیکن ان کی اصل ناراضی درحقیقت آصف علی زرداری سے ہے تاہم وہ میاں نواز شریف سے شاکی ضرور ہیں۔

 امر واقعہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف سیاسی، پارلیمانی اور سڑکوں پر جدوجہد کرنے کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کی خدمات کو فراموش تو کجا نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا اور جدوجہد کے اس مرحلے پر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے حکومت بنانے کے بعد انہیں ’’اعلیٰ مناصب‘‘ سمیت کئی وعدے کئے تھے اور ان دونوں شخصیات پر ہی کیا موقوف اکتوبر 2019 میں جب مولانا فضل الرحمان کراچی سے آزادی مارچ کا قافلہ لیکر اسلام آباد آئے تھے اور 13 دن کا دھرنا دیا تھا تو اس وقت چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے انہیں بعض ’’یقین دھانیاں‘‘ دلا کر دھرنا ختم کرایا تھا.

 لیکن وہ یقین دھانیاں کبھی پوری نہیں ہوسکیں، پھر فاٹا کے انضمام پر جب مولانا فضل الرحمان نے مخالفانہ طرزعمل اختیار کیا تو قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ ان سے ملاقات کیلئے پارلیمنٹ ہاؤس میں آگئے اور انہیں کافی دیر تک ایک چیمبر میں مولانا کا انتظار کرنا پڑا اس مرحلے پر بھی جو کچھ طے ہوا تھا وہاں کے حالات بتاتے ہیں کہ وہ پورا نہیں کیا گیا

اس طرح کے متعدد واقعات ہیں، اس تناظر میں اگر مولانا اب یہ انکشاف کرتے ہیں کہ جنرل (ر) فیض حمید جب ڈی جی آئی ایس آئی کے منصب پر فائز تھے تو انہوں نے مجھے چیئرمین سینٹ بنانے کی پیشکش کی گئی تو ایسی غلط بات بھی نہیں۔

 موجودہ صورتحال میں مولانا کی میاں نواز شریف سے شاکی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ پی ڈی ایم میں ان کے اتحادی ہیں اس لئے انہیں مشاورت یا اعتماد میں ضرور لینا چاہئے تھا، لیکن آصف علی زرداری سے ناراضی اس لئے ہے اور انہوں نے آئندہ انتخابات میں انہیں وفاق میں جو ’’ذمہ داریاں‘‘ دینے کا وعدہ کیا تھا.

 اس وعدے کے ایفا ہونے کی امید دور دور تک دکھائی نہیں دیتی اور خود ان کی جماعت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے ’’ملتجیانہ نظروں‘‘ سے دیکھ رہی ہے کیونکہ انتخابات کے حوالے سے نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ کی شکل میں آصف علی زرداری کے پاس مولانا فضل الرحمان کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے جبکہ میاں نواز شریف اس حوالے سے مولانا سے دیرینہ تعلق اور اپنی روایتی وضعداری نبھا سکتے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید