• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

مسائل سے کنارہ کشی کیوں؟

براہِ مہربانی میگزین کے صفحات میں اُتنا ہی اضافہ کردیں، جتنے اپریل میں تھے اور پلیز، یہ بتائیں کہ میرے مضامین کب شائع ہوں گے۔ میرے ’’عید پیغامات‘‘ بھی شائع نہیں کیے گئے اور کراچی کے مسائل پر مضامین کیوں شائع نہیں کرتی ہیں آپ۔ آخر اِن3 کروڑ عوام کے مسائل کون حل کرے گا۔ اتنا بڑا اخبار عوام کے مسائل سے کیوں کنارہ کش ہوتا جارہا ہے۔ (شہناز سلطانہ، رمشا طاہر، گلزارِ ہجری، کراچی)

ج:کراچی کے مسائل سے ہم نہیں، صاحبانِ اقتدار، شہر کے کرتا دھرتا کنارہ کش ہو چُکے ہیں۔ ہم تو بھینسوں کے آگے بھی مسلسل بین بجائے جارہے ہیں اور اب تو عالم یہ ہے کہ کوئی بے بسی سی بے بسی ہے۔ سمجھ ہی نہیں آتا کہ کس دیوار سے جا سرپھوڑیں۔ جابجا کچرے کے انبار، تباہ حال سیوریج لائنز، لوگوں کے گیس میٹرز تک میں سیوریج کا پانی بَھرجاتاہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے ہر دوسرے شہری کوکمردرد، ہڈی جوڑکا مریض بنادیا ہے۔ کے الیکٹرک کے نرخ آسمان پر پہنچ گئے ہیں اورحالت یہ ہے کہ مینٹی نینس کے نام پر پورے پورے دن کے لیے بجلی بند کردی جاتی ہے، پانی ہفتوں نہیں آتا۔ بھلا کوئی ایک مسئلہ ہے، بےچارے غریب عوام جائیں تو جائیں کہاں؟مگرآفرین ہے،اِن سیاست دانوں، مُلک کی قسمت کے والی وارثوں پر بھی کہ اِن کی آپس کی دھینگا مُشتی ہی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ رہے آپ کے مضامین، تو لائقِ اشاعت ہوں گے، توشامل ہوجائیں گے، جب کہ پیغامات دوسری یا تیسری اشاعت میں بھی شامل کرلیےجاتے ہیں۔ سو، تسلی رکھیں۔

کوئی بہت بڑی مجبوری…

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے تو بہترین معلومات مِل ہی رہی ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے سوڈان میں دو جرنیلوں کی جنگ کا لاجواب تجزیہ کیا۔ ’’دہلی نامہ‘‘ کا اختتام بھی آغاز کی طرح لاجواب تھا اور ہاں، ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں مقررہ تاریخ کے بعد آنے والے پیغامات شائع کرنے کا بے حد شکریہ۔ ’’گوشہ برقی خطوط‘‘ میں ڈاکٹر ایم عارف سکندری نے آپ کی ایڈیٹنگ کی تعریف کی، تو بلاشبہ آپ کی ایڈیٹنگ کا جواب نہیں، مَیں تو اپنے خطوط پڑھ کر سر دُھنتا رہ جاتاہوں۔ اگلا میگزین ہاتھ آتے ہی لگا کہ بہت کم زور سا ہوگیا ہے۔ یقیناً آپ کی کوئی بہت بڑی مجبوری ہوگی، جو صفحات اس قدر کم کر دیے ہیں۔’’مدرز ڈے‘‘ کی مناسبت سے زیادہ تر مضامین مائوں سے متعلق تھے۔ ویسے اس بارایک سے بڑھ کرایک تحریر پڑھنے کو ملی۔ ’’پیارا گھر‘‘ ماں کی عظمت سے بَھرا بَھرا تھا، تو ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’جمعے والی میڈم‘‘ پڑھ کر بھی بہت لُطف آیا۔ سید حبیب جعفر نے ماں پر نظم بھی بہت ہی عُمدہ انداز سے لکھی۔ 

ہمیں بھی اپنی ماں بہت یاد آتی ہیں۔ وہ چٹّی ان پڑھ خاتون تھیں مگراُن کے دو بیٹے18 گریڈ سے ریٹائر ہوئے۔ تیسرے شمارے کا ’’پیارا گھر‘‘ بھی لاجواب تھا۔ اتنی عمدہ مٹھائی کی تراکیب دی گئیں، مزہ آگیا۔ نئی کتابوں میں بہترین تبصرہ نگاری پڑھنے کو ملتی ہے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں شاہدہ ناصر کی دادی جان پر تحریر بہت پسند آئی۔ گرچہ آخری سطریں پڑھ کے دل غم زدہ ہوگیا، لیکن اِس بات کی خوشی بھی ہے کہ اُن کا تعلق ہمارے آبائی شہر شکارپور سے ہے۔ ہمارے والدین نے بھی ہندوستان سے آکر شکارپور میں ڈاکٹر بھگت ہی کے پاس رہائش اختیار کی تھی۔ یقینی طور پر ہمارے اور اُن کے والدین ایک دوسرے کو خُوب جانتے ہوں گے۔ اِسی کو تو کہتے ہیں ڈاک خانہ مل گیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:کوئی مجبوری سی مجبوری ہے۔ اِس وقت پرنٹ میڈیا سراسر خسارے کا سودا ہے۔ نیوز پرنٹ کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، تو جب اخبارات اپنی لاگت بھی پوری نہیں کرپائیں گے توبھلا کون اِس ہاتھی کو پالے گا۔ دیکھتے دیکھتے نہ جانے کتنے میڈیا ہاؤسز ڈھیر ہوگئے، یہاں تو پھر صرف صفحات کم کیے گئے ہیں، باقی اخبارات نے تو اپنے میگزینز سِرے سے بند کردیے ہیں۔ چلیں خیر، آپ کا تو ڈاک خانہ مل گیا۔

غم والم سے بَھرے دِل

مَیں آپ کا رسالہ ’’سنڈے میگزین‘‘ بے حد شوق سے مطالعہ کرتا ہوں۔ آپ کے ایک سلسلے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں، بہن رضیہ بانو کا ایک واقعہ اُن کی نانی اور خالہ سے متعلق پڑھا۔ یوں لگا، جیسے کل کی بات ہو۔ سچ ہے، جس کے گھر کو آگ لگتی ہے، اُسی کو اصل تپش کا اندازہ ہوتا ہے۔ جن پر یہ حالات گزرے ہیں، اُن کے دل کس قدرغم والم سے بَھرے ہوئے ہیں، وہی جانتے ہیں۔ بہرحال، ہم بحیثیت مسلمان اور محب وطن پاکستانی بہن رضیہ بانو کی نانی، خالہ اور تحریکِ آزادی میں ہندوئوں، سکھوں کے مظالم کا شکار ہونے والے ہر مسلمان کے لیے دل کی گہرائیوں سے دُعاگو ہیں۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔ آپ سے ایک گزارش بھی ہے کہ جریدے میں اولیائے کرامؒ سے متعلق بھی کچھ نہ کچھ شائع کرتی ر ہا کریں۔ (محمّد اقبال خان سلیمانی نقش بندی، خلیفہ چورا شریف، اٹک)

ج: اولیائے کرامؒ سے متعلق ہم وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ شایع کرتے ہی رہتے ہیں۔

عرفان کھوسٹ کو کھنگال ڈالا

ایڈیشن کے ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں راؤ محمّد شاہد اقبال نے مسلمانوں پر قرآنِ مجید کے حقوق گنوائے اور بے شک انہوں نے یہ مضمون بڑی محنت سے تیار کیا۔ سابق وزیرِ خزانہ،ماہرمعاشی امور،ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کی ’’گفتگو‘‘ بہترین تھی۔ ’’ہے نُورمیں ڈوبی ہوئی اللہ کی بستی…‘‘ایڈیٹر کی اُجلی تحریر کی سُرخی تھی، جو سیدھی دل میں اُتری۔ منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ بہترین انداز سے بیان کیے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے مشترکہ خاندانی نظام کے فوائد بیان کیے، تو ثناء اکرم شبِ قدر کی اہمیت اجاگر کر رہی تھیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں قانتہ رابعہ نے بہت عُمدگی سے ضمیر پر دستک دی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط شامل تھا، تو خوشی بھی دیدنی تھی۔

اگلا ایڈیشن ’’عیدالفطرایڈیشن‘‘ تھا۔ ’’میں دھ جماعت پاس ہوں، ڈائریکٹ حوالدار ہوں، کوئی مذاق نہیں‘‘، ’’کہی اَن کہی‘‘ میں رئوف ظفر نے فلم، ٹی وی اور تھیٹر کے مایہ ناز اداکار، فلم ساز عرفان کھوسٹ کو کنگھال ہی ڈالا۔ بڑی پرانی یادیں تازہ ہوئیں، بخدا مزہ آگیا۔ ’’اُڑتی ہے مسکان، عید مبارک ہو…‘‘ ایڈیٹر صاحب کا رائٹ اَپ عید کا لُطف دوبالا کرگیا۔ رئوف ظفر نے مُلک میں دوعیدوں کا ذکر کیا اور بڑی درد مندی سے کیا۔ ’’عید اسپیشل‘‘ میں حامد فیاض نے عید مناتے وقت احتیاط کا دامن تھامے رکھنے کی ہدایت کی۔ رائو محمّد شاہد اقبال نے مختلف تہواروں کا ذکر کیا۔ 

ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی دیگر مذاہب کی عید کا ذکر لائے اور ساتھ ہی اسلام میں عید کا اصل تصوّربھی اجاگر کیا۔’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے یمن میں جنگ بندی کو عید کا تحفہ قرار دیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ کا افسانہ لاجواب تھا۔ قمر عباس کی نظم کے کئی مصرعوں پر دل سے ’’آمین‘‘ کہا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں نادیہ ناز غوری کا مضمون بہترین تھا۔ تیسرے شمارے میں ’’سادہ اور آسان نکاح‘‘ ایک بہترین نگارش تھی۔ ڈاکٹر امیر حسن کا دانتوں کی صحت سے متعلق مضمون بھی کمال تھا۔ اور آپ کا صفحہ میں ایک بار پھر ہمارا خط شامل تھا، مگر خادم ملک پھر غائب ہیں، جب کہ اُن کا ہر خط ایک لطیفہ ہوتا ہے، جس سے بزم خُوب کِھلی کِھلی معلوم ہوتی ہے۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: جی، بلاشبہ رئوف ظفر نےعرفان کھوسٹ کا انٹرویو بہت ہی عُمدہ انداز سے لیا۔ صفحات فائنل کرتے ہوئے ہمارا بھی یہی خیال تھا کہ یہ انٹرویو بہت دل چسپی اور ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا۔

خون چوس لیں گے

اُمید ہے، خیریت سے ہوگی، واہ… واہ… کیا بات ہے تمہاری، ابھی تو دل و دماغ پر مدینہ منوّرہ کی معطّر فضائوں ہی کا سحر تھا کہ تم نےایک ایسامنفرد و اَن مول سلسلہ شروع کردیا کہ جس کی اس وقت اُمتِ مسلمہ کو واقعتاً اشد ضرورت تھی۔ یقین مانو،’’قصص القرآن‘‘ جیسا ایمان افروز، سبق آموز سلسلہ شروع کرکے تو تم نے گویا اپنے نامۂ اعمال میں بےشمارثوابوں کا ایک ڈھیرجمع کرلیا ہے۔ یہ ہماری کتنی بڑی بدقسمتی ہےکہ ہم قرآن کی تلاوت تو کرتے ہیں، لیکن معنی، مطالب سےآگاہ نہیں، ہمارے بچّے ناظرہ قرآن ختم کرتے ہیں، پورا قرآن حفظ بھی کرتے ہیں، پھرختمِ قرآن کی محافل ہوتی ہیں، پورا خاندان ہار، پھول، مٹھائیاں، تحائف دیتا ہے، پُرتکلف کھانوں کا اہتمام ہوتا ہے، لیکن اگرکسی لفظ کے معنی پوچھ لو، تو وہ تو مولوی صاحب کو معلوم ہوں گے، جب کہ مولوی صاحبان بھی کہتے ہیں کہ ترجمہ اکیلےنہ پڑھنا، ورنہ بھٹک جاؤ گے۔ 

سو، مدارس کی اکثریت ترجمہ و تفسیر کی بات ہی نہیں کرتی۔ قرآن کو صرف ثواب کی کتاب بنا دیا گیا ہے۔ ایسے میں ’’قصص القرآن‘‘ جیسے سلسلے کی جس قدر تعریف کی جائے، کم ہے۔ ہمیں آج تک یہ معلوم نہ تھا کہ سورہ کہف کے نزول کی وجوہ کیا تھیں۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو اِس کاوش، خدمت کا بہترین انعام و اکرام عطا فرمائے۔ سلیم اللہ صدیقی نے آئین میں26 ترامیم کا ذکر کیا۔ صحیح بات ہے، ہرآنے والا حُکم ران آئین کی موم کی ناک اپنی مرضی و منشاء سےموڑتارہتا ہے۔ پروفیسر فتح محمّد ملک کے صاحب زادے، چیئرمین نادرا،طارق ملک کاانٹرویو لاجواب تھا اور یہ اپنے منورمرزا کہاں روبوٹس پر ریسرچ کرنے بیٹھ گئے، یہ کام تونواب شاہ والے راؤ محمّد شاہد اقبال کانہیں۔ 

بھئی، رائو میاں! آپ دینی مضامین لکھنے کے بجائے محیر العقول کرامات وایجادات ہی پر فوکس رکھو اور منور مرزا آپ سیاسست پر۔ آپ لوگوں نے سُنا نہیں کہ ادارے اپنی ڈومین ہی میں رہیں، تواچھا ہے۔ اور نرجس بی بی! تم یہ بتائو کہ تم یہ اتنے خُوب صُورت ’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ کیسے لکھ لیتی ہو؟ کیا رات بھر ریسرچ کرتی ہو یا شوہرِ نام دار کواِس کام پرلگارکھاہے۔ ہاں ایک بات اور، یہ تمھارے مبصّرین کو کیا کتابوں کی اتنی زیادہ قیمتیں نظر نہیں آتیں، انور سِن رائے تو بڑی باقاعدگی سے زیادہ قیمتوں پر تنقید کرتے تھے، لیکن یوں لگتا ہے کہ اِن تبصرہ نگاروں کو تعلقات بگڑنے کا ڈر رہتا تھا، تب ہی صرف تعریف و توصیف ہی پر فوکس رکھتے ہیں، قیمت کی بات ہی نہیں کی جاتی۔ صفحات تین سو اور قیمت بارہ، پندرہ سو۔ مطلب جن لکھاریوں کے پیٹ بَھرے ہوئے ہیں، وہ بھی بس رقم بٹورنے ہی میں لگے ہیں، پوری دنیا گھومنے پر لاکھوں روپے خرچ کردیں گے، لیکن کتاب کی قیمت مقرر کرتے ہوئے ایک غریب کا پوراخون ہی چوس لیں گے۔ (شاہدہ تبسم، ڈی ایچ اے، کراچی)

ج: پچھلے خط میں بھی آپ نے کافی تلخ و ترش باتیں کیں، لیکن بوجوہ تحمّل کا مظاہرہ کیا گیا۔ اب بھی مصنّفین سے متعلق آپ کا اندازِ گفتگو خاصا تضحیک آمیز ہے۔ محترمہ! آپ کو کچھ اندازہ بھی ہے کہ اس ہوش رُبا منہگائی میں کاغذ کی قیمت کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ اورعموماً لکھاری، کوئی درباری، کاروباری نہیں ہوتے کہ اُن کے پیٹ بَھرے ہوں، بیش ترمصنّفین تو اپنی عُمر بھر کی کمائی خرچ کر کے بھی ایک کتاب چھاپنے کے متحمّل نہیں ہو پاتے۔

بات دراصل یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ہی ’’ادب دوست‘‘ نہیں ہے۔ آپ ذرا 1500 میں کوئی برانڈڈ جوتا یا لباس توخرید کر دکھائیں۔ یہ جو برانڈز کے نام پرلُوٹ سیل لگی ہوتی ہے، وہاں تو آنکھیں بند کر کے پانچ، سات ہزار یوں دے دئیے جاتے ہیں، جیسے حرام کی کمائی ہو، تو پھر کتاب کی ذرا سی زیادہ قیمت کیوں اس قدر کَھلتی ہے، اِسی لیے ناں کہ کتاب ہماری ترجیحات ہی میں شامل نہیں۔ ’’ادب کی خدمت‘‘ صرف لکھاری کی ذمّے داری نہیں، قاری کو بھی کتاب خرید کر اپنا حصّہ ضرور ڈالنا چاہیے۔

                                       فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

شمارہ موصول ہوا، تو سرورق کی خُوشبو جیسی ماڈل پر ایک نظر ڈال کے آگے بڑھ گئے۔’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کےمعلوماتی سلسلے دینی و روحانی بالیدگی کا سبب بن رہے ہیں۔ مکّہ مکرمہ، مدینہ منوّرہ کے ماضی و حال سے متعلق جاننا بہت خوش کُن رہا کہ کئی مقامات کا تو دورانِ حج ہم نے خُود بھی مشاہدہ کر رکھا تھا، اب جزئیات سے آگہی نے لُطف و سرور دوچند کردیا۔’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ’’آن لائن فراڈیے‘‘ کے عنوان سےرائومحمّد شاہد اقبال فراڈیوں کے طریقۂ واردات اور بچائوکے طریقوں سے آگاہ کر رہے تھے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں نسیم حمید نے آئی جی پولیس، بلوچستان عبدالخالق شیخ سے پولیس کی کارکردگی سےمتعلق حاصل ہونے والی معلومات شیئر کیں، تو’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا سوڈان میں دو جرنیلوں کی اقتدار کے حصول کی جنگ کا رُوح فرسا المیہ بیان کررہے تھے۔ 

ہمیں تو یہ آخری مغلیہ دَور کے شہزادوں کی اقتدار کی جنگ جیسا ہی کوئی منظر لگتا ہے، جس میں لاکھوں بے گناہ انسان مارے گئے تھے۔ بُرا ہو، اِس ہوسِ اقتدار کا کہ جس میں انسانوں کو گاجر، مولی کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے۔ فرشتوں نےحضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کہا تھا کہ ’’یااللہ، یہ کیسی مخلوق پیدا کررہا ہے، یہ تو خون ریزی کرے گی‘‘ اوراللہ پاک نے تردید نہیں کی، بلکہ یہ کہا کہ ’’جو مَیں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔‘‘ سوڈان کا المیہ یہ ہے کہ تیل سے مالا مال وہ علاقہ، جہاں عیسائیوں کی اکثریت تھی، مغربی طاقتوں نے ریفرنڈم کروا کے اُنہیں دلوا دیا اور بقیہ افلاس زدہ حصّہ مسلمانوں کے حصّے آیا۔ 

ایسٹ تیمور ہویا سوڈان، جہاں عیسائیوں کا فائدہ ہو، فوراً ریفرنڈم ہوجاتا ہے، مگر کشمیر میں ریفرنڈم کامعاملہ پچھتّرسال سےلٹکا رکھا ہے، کیوں کہ مسلمانوں کو ریلیف دینا بڑی طاقتوں کے منشور ہی میں شامل نہیں۔ خیر، ’’سینٹر اسپریڈ‘‘میں مدیرہ صاحبہ عنوان کی مناسبت سے کامی شاہ کی خُوب صُورت غزل لائیں کہ ؎ یوں تو بشر زادی ہو لیکن …خوشبو جیسی کیوں لگتی ہو۔ اور سوفی صد بجا فرمایا کہ ظاہری حُسن و جمال ہی پر شعرا، ادباء اشعار،افسانےلکھتے ہیں، باطن کوکون دیکھتاہے۔’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ارشد حسین ’’نرسز کےعالمی یوم‘‘ پرمقدّس پیشے سے وابستہ خواتین کے مسائل کی نشان دہی کررہے تھے۔ بلاشبہ عوام النّاس میں اِن کی اہمیت کاشعوراجاگرکرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نرس کو ’’سسٹر‘‘ بھی کہتے ہیں اور اُنہیں ہراساں کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔’’جہانِ دیگر‘‘میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نےدہلی کی خُوب سیر کروائی اوراب خیر سے واپس اپنے پاک وطن لوٹ آئے ہیں۔ 

جہاں رہیں، خوش رہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں اُمِ ایمان ’’دل کی عید‘‘ کےعنوان سے میاں بیوی کے فراق و وصل کے موضوع پر اچھا افسانہ لائیں۔ نورجہاں خالد نے نظم’’یہ سب کیا ہے‘‘ میں اندر کی ٹوٹ پھوٹ کا المیہ بیان کیا۔ شفق رفیع منفرد موضوعات پرعُمدہ قلم آرائی کے ساتھ پیغامات کاصفحہ بھی بہترین انداز سے مرتّب کر رہی ہیں۔ اِس بار’’اس ہفتےکی چٹھی‘‘کا اعزاز شاہدہ ناصر کو ملا اور بجا ملا کہ انھوں نے فصاحت و بلاغت کے ساتھ شائستہ الفاظ کی مالا سی پروئی۔ ٹھیک ہے، روز کا آنا جانا اچھا نہیں ہوتا، مگر، وہ کیا ہے کہ چُھٹتی نہیں یہ کافر، قلم کو لگی ہوئی۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج:ارے ایسی بھی کون سی سیاہی، دوات کا انتخاب کرلیا آپ نے۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں ہر سنڈے میگزین کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتا ہوں کہ ہمارے گھر کا تو اِک اِک فرد یہ جریدہ بہت ہی ذوق و شوق سے پڑھتا ہے اور سچ بھی یہی ہے کہ اِس میگزین کے ذریعے معلومات و تفریح کے بہترین مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ مَیں آپ کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے میرا پیغام بہت ہی خُوب صُورتی و عُمدگی سے شائع کیا۔ (مستقیم نبی راجپوت، نواب شاہ)

ج: پیغامات کی عُمدہ اشاعت کا تو سارا کریڈٹ شفق رفیع کو جاتا ہے کہ وہ ہی ہر پیغام کو بڑی محنت و محبّت سے ری رائٹ کرتی ہیں۔

* میری تحریروں کو مستقلاً جریدے میں جگہ مل رہی ہے، اِس ضمن میں، مَیں آپ کی بےحد شُکرگزار ہوں۔ ایک رہنمائی بھی درکار تھی کہ کیا ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحے میں افسانچوں کو بھی جگہ مل سکتی ہے۔ اگر مَیں کچھ افسانچے لکھ کر بھیجنا چاہوں تو اشاعت ممکن ہوگی؟؟ (نظیر فاطمہ، لاہور)

ج: جی بالکل اشاعت ممکن ہوگی۔ آپ کی تحریر ماشاء اللہ بہت اچھی ہے۔ آپ مستقلاً میرٹ ہی پر جگہ بنا رہی ہیں۔ اور ہمیں یقین ہے کہ آپ کے افسانچے بھی ضرورلائقِ اشاعت ہوں گے۔

* ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید نے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحے پر ایک واقعہ تحریر کیا، جس میں ایک خاتون نے اُنہیں بیٹی کی شادی کے لیے ایک وظیفہ بتایا۔ کیا ممکن ہے کہ یا تو وہ وظیفہ یہاں شائع کردیا جائے یا پھر واقعہ نگار کا نمبر فراہم کیا جائے، کیوں کہ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے اوراس کی اشاعت سے اَن گنت لوگوں کا بھلا ہوگا۔ (اعظم رحمٰن)

ج: ایم شمیم نوید صاحب سے رابطہ کرکے وظیفہ معلوم کیا گیا، تو اُن کا کہنا تھا کہ خاتون نے میری اہلیہ اور بیٹی کو مسئلے کے حل تک کثرت سے (اُٹھتے بیٹھتے، وضو یا بغیر وضو کے) ’’یا رحمٰن، یا رحیم، یا کریم‘‘ کا ورد کرتے رہنے کی تاکید کی تھی، جب کہ اب جو لوگ واقعہ نگارسے براہِ راست بات کرنے کے خواہش مند ہیں، وہ جنگ، کراچی کے نمبرپر رابطہ کرکے ہم سے اُن کا نمبر لے سکتے ہیں، کیوں کہ بہرحال کسی بھی لکھاری کا فون نمبر اس طرح میگزین میں تو شایع نہیں کیا جا سکتا۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk