السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
شعر و شاعری تک محدود کیوں؟
عید کی چُھٹیوں میں ’’سنڈے میگزین‘‘ بہت ساتھ دیتا ہے، جب دو دن ڈیلی اخبار کا ناغہ ہوتا ہے، تو سنڈے میگزین چاٹ کر ہی بیش تر وقت عُمدگی سے گزرتا ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منورمرزا اپنی بہترین تجزیاتی تحریر کے ساتھ موجود تھے۔ ’’عید شوٹ‘‘ بھی بہت ہی پسند آیا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سلسلہ نہایت شان دار انداز سے مرتب ہو رہا ہے۔ حمیدہ گل، حمیرا گل کے پیغامات پڑھ کر دل افسردہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اُن کے مرحومین کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ ’’متفرق‘‘ میں محمّد ریحان کا ’’اقبال منزل‘‘ ایک معلوماتی مضمون تھا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا نے پورے دہلی کی سیر بہت ہی شان دار اندازسےکروائی۔
ڈاکٹر صاحب سے گزارش ہےکہ علائو الدین خلجی اوراحمد شاہ ابدالی پر بھی کوئی مفصّل تحریرعنایت کریں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس کی نظم دیکھی، موصوف اچھے خاصے مضامین لکھتے لکھتے محض شعرو شاعری ہی تک کیوں محدود ہوگئے ہیں۔ اگلے شمارے کا آغاز ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے اعلیٰ سلسلے سے ہوا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کی موجودگی دل کو بہت تقویت دیتی ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ ابھی اِس مُلک سے سچّی محبّت کرنے والے کچھ لوگ موجود ہیں، جو ہر حال میں ملک کی فلاح و بہبود، تعمیر و ترقی کے خواہاں ہیں۔ سرِورق، اسٹائل کے صفحات اب یوں بھلے لگنے لگے ہیں کہ ساتھ آپ کی تحریر کا تحفہ جو ملتا ہے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں والدہ عمّارا حسن کی دردناک تحریر پڑھ کر آنسو ضبط کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنّت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اور ہاں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے ضیاء الحق قائم خانی کو تخت پر بٹھا دیا۔ بھئی، جھڈو کا نام تو خُوب خُوب روشن ہورہا ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیرکالونی، کراچی)
ج: ڈاکٹر قمر عباس شعر و شاعری تک محدود اس لیے ہوگئے ہیں کہ اب وہ جنگ گروپ کا حصّہ نہیں رہے۔ وہ ایک دوسرا ادارہ جوائن کرچُکے ہیں (جو اشاعتی ادارہ نہیں ہے) اوراب کبھی کبھار کوئی نظم، غزل بھیج دیتے ہیں، تو معیاری ہونے کے سبب شائع کردی جاتی ہے۔
غربت کے ماروں کی کتھا
اُمید ہے، آپ کے ساتھ کام کرنے والا اسٹاف خیریت سے ہوگا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سلسلے کی نئی قسط بے حد معلوماتی تھی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں بنتِ فردوسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اپنی چہیتی دُختر، خاتونِ جنّت، حضرت فاطمۃالزہرہؓ سے بے پناہ محبّت و شقت کا احوال بیان کیا۔ دردانہ صدیقی کا کہنا تھا کہ روزے اللہ کی مرضی کےمطابق رکھے جائیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں راؤ محمّد شاہد اقبال جھوٹ کے مرض سے نجات کا درس دے رہے تھے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں سیّد ثقلین علی نقوی نے غربت کے ماروں کی کتھا سُنائی اور بہت ہی دل سے سُنائی۔
منور مرزا ترکیہ کے صدارتی، پارلیمانی انتخابات پر خیال آرائی فرما رہےتھے۔ ڈاکٹراحمدحسن رانجھا کے ’’دہلی نامہ‘‘ نے ایک لمحے کو بور نہیں کیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر ایم عارف سکندری جگر کےسرطان سے متعلق معلومات فراہم کررہے تھے، تو پروفیسر ڈاکٹر پرویز اشرف نےآئی بی ایس سے متعلق اہم معلومات گوش گزارکیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے مضامین خوش رنگ تھے، ’’ڈائجسٹ‘‘ میں نظیر فاطمہ کی ’’افطار پارٹی‘‘ کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات اچھے لگے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ اس لیے بہت پسند آیا کہ اُس میں ہمارا خط بھی شامل تھا۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)
ج: اور آپ کا خط کب شامل نہیں ہوتا، مطلب ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی پسندیدگی تو پھر لازم ہی ٹھہری۔
دُوری ممکن نہیں
اُمید ہے کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے اسٹاف اور سبھی قارئین کے مزاجِ گرامی اچھے ہوں گے۔ بلاشبہ رسالہ ایک بہترین، معیاری اور بہت منفرد جریدہ ہے، جس کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ متعدّد سلسلے میرے مَن پسند ہیں اور اِسی باعث اس سے دُوری ممکن نہیں رہتی۔ ہر ہفتے بصد شوق مطالعہ کرتا ہوں۔ (شری مُرلی چند جی، گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
نام شامل نہیں تھا؟
اُمید ہے، اہلِ بزم خوش و خرّم ہوں گے۔ سالِ نو کے آغاز سے اب تک خط نہ لکھ سکا، سبب کچھ ناگزیر وجوہ تھیں۔ بہرکیف، اس دفعہ ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ پڑھنے کا ایک نیا انداز اپنایا اور وہ یہ کہ ماہِ جنوری کے تمام جریدے اکٹھے کرکے پڑھتے رہے اور خُوب خُوش ہوتے رہے، ساتھ خُود کو یقین دلاتے رہے کہ میگزین کافی دبیز، اچھی خاصی ضخامت پر مشتمل ہے۔ 75سالہ جشنِ آزادی (پلاٹینم جوبلی کی مناسبت سے) سرورق گویا اُسی دھات کے رنگ سے رنگا ہوا تھا، پھر ’’کلر آف دی ایئر‘‘ بھی یہی ٹھہرا۔
ہاں، ایک بات کا افسوس رہا کہ مستقل خطوط نگاروں میں ہمارا نام شامل نہیں تھا۔ ’’دہلی نامہ‘‘ اِمسال کی تحریروں میں سب پر نمبر لے گیا۔ رانجھا صاحب افسانے تو لکھتے ہی تھے، مگر سفرنامہ بھی کمال لکھا۔ اِسی طرح تاریخِ مکّہ و مدینہ سلسلے کا بھی جواب نہیں۔ دیگر سلسلے بھی حسبِ روایت شان دار ہیں۔ خصوصاً رمضان المبارک کے ایڈیشنز کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سلسلے میں ہماری تحریر شامل کرنے کا بے حد شکریہ۔ ایک تحریر اور بھی بھیج رکھی ہے، معیار پر پوری اُترے تو شامل کرلیجیے گا۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)
ج: آپ کا نام سہواً شامل ہونے سے رہ گیا ہوگا۔ بشرطِ زندگی اور بشرطِ اجرائے سال نامہ 2024ء، اِن شاء اللہ تعالیٰ آپ کا نام ضرور شامل کردیاجائے گا۔ ویسےاگراِس برس آپ کا پہلا خط جولائی کے مہینے میں شائع ہو رہا ہے، تو پھرآپ مستقل خطوط نگاروں میں شامل تو نہ ہوئے ناں۔ مستقل خطوط نگار تو کچھ شری مُرلی چند، زاہد حسین، رونق افروز برقی، شہزادہ نقش بندی اور ضیاالحق قائم خانی جیسے ہوتے ہیں۔
تحریروں کا کچھ اتاپتا نہیں
ماہِ جنوری میں آپ کے مرتّب کردہ سال نامے کے خطوط میں اپنا نام دیکھ کر خُوش گوار حیرت ہوئی اور آپ کی وضع داری پر پیار بھی آیا کہ سال میں چند ایک بار آنے والوں کو بھی یاد رکھتی ہیں۔ پہلے مجھے بھی ہر ہفتے حاضری کا شوق تھا۔ مہینے بھر کے لفافے لاکر رکھ لیتی تھی۔ آپ کی ہدایات کے مطابق صفحے کے ایک طرف حاشیہ، سطرچھوڑکر اور جریدہ سامنے رکھ کے مندرجات کو دیکھ کر تبصرہ کرتی تھی، مگر پھر مَیں نے محسوس کیا کہ ہر ہفتےحاضری پرآپ کچھ تیکھے جواب دیتی ہیں۔ شاید آپ اپنے’’ہائیڈ پارک‘‘ میں ہر ہفتے نئے نئے لوگوں کو جگہ دینا چاہتی ہیں یا بہت خُوب صُورت انداز تحریر کی خواہاں ہوتی ہیں تو بہرحال، آنا جانا کم کردیا۔
وہ کیا ہے کہ قدر کھو دیتا ہے، ہر روز کا آنا جانا۔ مگر پھر سال نامے میں اپنا نام دیکھ کر دل بے حد خوش ہوا۔ تب ہی سے خط لکھنا چاہ رہی تھی، مگر ہوتے ہوتے یہ وقت آگیا۔ پچھلے دنوں افشاں مُراد نے اپنا سفرِ عُمرہ قلم بند کیا تو دیکھ کر مجھے بھی تحریک ملی، کوشش کروں گی کہ جلد لکھ بھیجوں، کچھ تحاریر پہلے بھی بھیج رکھی ہیں، جن کا کچھ اتا پتا نہیں۔ ایک تو مَیں نے ایک ورک شاپ کا احوال بھیجا تھا، پھر اپنے پیارےشہر’’ماڑی انڈس‘‘ سے متعلق تفصیلی مضمون روانہ کیا۔ اپنے والدین سے متعلق ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ ارسال کی، پھر اپنی خالہ سے متعلق تحریر بھیجی۔ کسی سے متعلق کچھ علم نہ ہوسکا۔ مجھے آپ کے میرٹ پر اعتماد ہے، مگر شاید صفحہ انچارجز بدلتے رہتے ہیں تو تحریریں اِدھر اُدھر ہوجاتی ہیں۔ (مصباح طیب، نیو سیٹلائٹ ٹاؤن، سرگودھا)
ج: آپ غالباً ’’ناقابل اشاعت کی فہرست‘‘ مستقلاً اور بغور چیک نہیں کرپائیں۔ آپ کی ایک دو تحریروں کے عنوانات اور آپ کا نام تو ہم نے خُود فہرست میں شامل دیکھا ہے۔صفحہ انچارجز ضرور تبدیل ہوتے رہتے ہیں، لیکن پرانا صفحہ انچارج تمام تر تحریریں، نئے صفحہ انچارج کو لازماً ہینڈ اوور کرتا ہے۔ ایک آدھ مضمون سے متعلق تو یہ شکایت ہوسکتی ہے، لیکن کسی ایک لکھاری کی سب تحریریں غائب ہوجانا ممکن نہیں۔ بہرکیف، آپ والدین اور خالہ سے متعلق تحریریں دوبارہ ارسال کردیں، قابلِ اشاعت ہوئیں، تو ضرور شامل کرلی جائیں گی۔ ورک شاپس کی رپورٹس وغیرہ شائع نہیں کی جاسکتیں اوررہی بات، ہمارے تیکھے جوابات کی تو یہ بات درست ہے کہ جب لوگ تھوک کے بھائو خطوط بھیجتے ہیں، تو ہر دوسرے روزایک سی تحریر دیکھ کر لامحالہ غصّہ آہی جاتا ہے۔
گُڑ نہ دے، گُڑ وَرگی گل تے کر
اس بار عیدِ سعید کے موقعے پر تعطیل کی وجہ سے جریدہ نہیں ملا یا شاید مجھے نہیں ملا۔ مَیں نے اپنوں کے نام ’’عید مبارک‘‘ کاپیغام بھیجا تھا، مگر ناکامی ہوئی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سلسلے سے ایمان افروز معلومات حاصل ہورہی ہیں۔ ’’سادہ اور آسان نکاح، وقت کی ضرورت‘‘ بہت ہی عُمدہ مضمون تھا اور بلاشبہ دورِ حاضر کی اہم ضرورت بھی۔ ڈاکٹر امیر حسن صحت مند دانتوں سے متعلق شان دارمضمون لائے۔
سعودی عرب، ایران معاہدے پر منور مرزا نے سیرحاصل تجزیہ کیا۔ ’’دہلی نامہ‘‘ انتہائی دل چسپ مراحل طے کرتا آگے بڑھتا چلا گیا۔ ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کے وِنر اس بار جھڈو کے ضیاء الحق قائم خانی رہے اور ہاں اب اکثر آپ کے جوابات حوصلہ افزا ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں، گُڑ نہ دے، گُڑ ورگی گل تے کر، تو اب آپ کے جوابات خاصے لطیف و شیریں معلوم ہوتے ہیں۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل و ضلع کوٹ ادّو)
ج: اچھا… یہ تو گویا ایک انکشاف ہے۔ غالباً آپ سے ہی کی ہوگی، ہم نے کوئی گُڑ وَرگی بات، وگرنہ عمومی طور پرتو لوگ شکوہ کُناں ہی رہتے ہیں کہ اُنہیں کڑوے، تیکھے، تلخ جوابات سے نوازاجاتا ہے، جب کہ ہم عموماً جن باتوں کی نشان دہی کرکے کچھ سخت سُست کہتے ہیں، حرام ہے، جو کبھی اُن کےتدارک کاخیال بھی دل میں لاتے ہوں۔
فضول سوالات کی عادت
آپ سوچتی ہوں گی کہ مَیں اتنے اتنے لمبے وقفے کے بعد خط کیوں لکھتی ہوں؟ پتا نہیں، اِس کا جواب تو کبھی مجھے بھی سمجھ نہیں آیا۔ ہا ہا ہا… ویسے آپ کا اندازہ بالکل صحیح تھا، مَیں ٹین ایجر ہوں۔ ابھی پندرہ سال کی ہوں۔ دہم کے امتحانات سے فارغ ہوکر بیٹھی ہوں۔ تب ہی خط بھی لکھ رہی ہوں۔ خیر، میگزین کی بات کرتے ہیں۔ ’’عید ایڈیشن‘‘ تو بہت ہی خُوب صُورت لگا۔ ویسے عید کے دوسرے دن اخبار کا ناغہ ہو تو بالکل مزہ نہیں آتا، چھٹیوں ہی میں تو پورے انہماک اور ذوق و شوق سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اگلے ایڈیشن میں ناقابلِ فراموش اور ڈائجسٹ کے صفحات نہیں تھے۔
بھئی، یہ ظلم نہ کیا کریں۔ یہ دونوں صفحات تو میرے مَن پسند ہیں۔ ویسے مجھے ہمیشہ سے وہ لوگ پسند ہیں، جن سے کچھ حاصل ہو اور ایسے لوگوں میں میرے ایک استادِ محترم جناب محمّد احمد نصیر شامل ہیں۔ دراصل مجھے فضول سوالات کرنے کی بہت عادت ہے، مگر وہ میرے ہر سوال کا تسلّی بخش جواب دیتے ہیں۔ اسی طرح آپ کا ’’سنڈے میگزین‘‘ بھی مجھے بہت پسند ہے۔ میرے کئی سوالات کے جوابات جو اس میں پوشیدہ ہوتے ہیں اورپھرآپ کے براہِ راست جوابات کا تو کیا ہی کہنا۔ (منتہیٰ ریاض، حفیظ پارک، گوجرہ)
ج: تم نے اپنی ہوش یاری سے ایک ٹکٹ سے تین فائدے اُٹھالیے۔ خط بھی شائع ہوگیا، ایک پیغام بھی پہنچ گیا اور اِک رشتہ، اِک کہانی بھی پوری ہوئی۔ ہاں، البتہ جو تم سوچتی ہوکہ ’’ہم سوچتے ہوں گے‘‘ تو بیٹا، ہمیں نہ صرف یہ کہ فضول سوالات کرنے کی عادت نہیں، ہمارے پاس فضول سوچنے کا بھی بالکل وقت نہیں۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر افتخار برنی ’’رمضان المبارک اور طبّی مسائل‘‘ کے حوالے سے رقم طراز تھے۔ ’’مرحبا، ماہِ رمضان مرحبا‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کے مہکتے قلم سےخوش خبریاں ہی خوش خبریاں ملیں۔ ’’مدینہ منوّرہ: عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک‘‘ میں محمود میاں نجمی کا قلم عقیدت و محبّت کے پھول لیے نبی پاکؐ کے پروانوں کا حال بیان کرتا رہا۔ رائو محمّد شاہد اقبال سائنسی مضامین کے ساتھ دینی نگارشات کا حق بھی بخوبی ادا کررہے ہیں۔ ’’مُلکی تاریخ کا منہگا ترین رمضان‘‘ رئوف ظفرکاحقائق نامہ تھا۔’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں مہمان آمنہ ملک کےپہناوے خُوب تھے، تو نرجس ملک کا قلم بھی ہوا لکھنے پر مجبور کہ ؎ ’’سر پہ رکھا ہوا پیارا آنچل… رحمتِ رب کا اشارہ آنچل‘‘۔ ’’رپورٹ‘‘ میں شفق رفیع ’’بنو قابل، ویمن ایمپاورمنٹ اینڈ انٹرپرینیور شپ پروگرام‘‘ کے حوالے سے بہت ہی مفید خبریں لائیں۔
جب سعودی عرب اورایران کاتاریخی معاہدہ ہوسکتا ہے، تو پاکستان اوربھارت کےدرمیان کیوں نہیں؟ منور مرزا بالکل درست فرما رہے تھے۔ ریاض ندیم نیازی، بلوچستان کے تاریخی سبّی میلےکا احوال لیےآئے کہ ایسی تقریبات محبّتوں میں بڑھوتری کا ذریعہ بنتی ہیں۔’’آمنہ شمیمہ فائونڈیشن‘‘ کاتعارف آصفیہ عزیزنے بہت ہی شان دار انداز سے کروایا۔ ’’دہلی نامہ‘‘ کے لکھاری، ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کے قلم کی روانی کو سلام۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں واقعات بھی سیدھے دل میں اُترے اور محمّد جاوید اقبال ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کے بجا طور پرحق دار تھے، ویل ڈن۔ اگلے ایڈیشن کا آغاز روشن و منور سلسلے سے کیا گیا۔ پھرزندگی کا کون سا شعبہ ہے، جہاں فراڈیے موجود نہیں، مگر لوگ بھی آنکھیں بند کرکےاعتماد کر بیٹھتے ہیں، حالاں کہ ہاتھ سے کمائی روٹی کا اپنا ہی ذائقہ ہوتا ہے۔
راؤ محمّد شاہد اقبال ہر بار اچھوتے موضوعات ہی چُنتےہیں، بہت خوب بھئی۔ ہماری نرسز واقعی ہمارا مستقبل ہیں کہ برسوں کی عبادت سے، صدیوں کی ریاضت سے، بہتر ہے وہ اِک لمحہ، جو گزارا ہے تونے، خدمتِ انسانیت میں۔ ’’دہلی نامہ‘‘ کی آخری قسط کے ساتھ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا توبس چھا ہی گئے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں امِّ ایمان کی کاوش ’’دل کی عید‘‘، حرا بنت حمید کی ’’شام کی چائے‘‘ اور نورجہاں خالد کی نثری نظم ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ سب ہی ذہنی و قلبی آسودگی کا ذریعہ بنے۔ اخترسعیدی کورے کاغذ پر قلم چلاتے ہیں، تو لطف ہی آجاتا ہے۔ ویسے سنڈےمیگزین کا گل دستہ بھی کیسے کیسے پھول چُن کر ترتیب دیاجاتا ہے۔ شفق رفیع کےمرتب کردہ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کا جواب نہ تھا، تو’’آپ کا صفحہ‘‘ بھی شاہدہ ناصر کے نام سےجگ مگ جگ مگ کرتا بہت بھلا لگا۔ بہت بہت مبارکاں شاہدہ ناصر۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: چلیں، اب یہی ’’مبارکاں‘‘ آپ کے لیے شاہدہ ناصر پر واجب ہوئیں۔
گوشہ برقی خطوط
* مَیں اپنی کچھ اکیڈمک مصرفیات کے سبب ’’سنڈے میگزین‘‘ میں خط نہیں لکھ پا رہا ہوں، لیکن الحمد للہ، مَیں بالکل ٹھیک ہوں۔ میگزین کے کئی خطوط میں مجھ سے متعلق تشویش کا اظہار کیا گیا، پڑھ کر بڑی خوشی اور حیرت ہوئی۔ جن تمام اصحاب نے میری غیر موجودگی محسوس کی، سب کی بڑی مہربانی۔ آپ کو بھی فکرمند پایا، بے حد شکریہ۔ بندۂ عاجز ممنونِ احسان ہے۔ مَیں مسلسل جریدے کا مطالعہ کر رہا ہوں اوراِن شاء اللہ تعالیٰ اپنی مصروفیات سے فراغت کے فوری بعد تفصیلی خط لکھوں گا۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج: خیریت کی اطلاع دینے کا شکریہ۔ اُمید ہے، قارئین کی تشویش دُورہوگئی ہوگی۔ آپ کے خط کا انتظار رہے گا۔
* مَیں بہت عرصے سے جنگ اخبار کے لیے مراسلے لکھ رہی ہوں۔ خواتین کے صفحات کے لیے آرٹیکلز بھی لکھتی رہتی ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ تحریر کا ہنر، جنگ اخبار کے لیے لکھ کر ہی سیکھا ہے۔ آپ لوگوں سے ہمیشہ بہت رہنمائی ملی اور حوصلہ افزائی بھی۔ (سعدیہ اعظم)
* مَیں اگر سنڈے میگزین میں کوئی مضمون شائع کروانا چاہتا ہوں، تو اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا۔ (محمّد اسماعیل)
ج: سب سے پہلے تو مضمون لکھنا ہوگا اور پھر اگر ہاتھ سے لکھا ہے تو ہمارے پتے پر پوسٹ کرنا ہوگا۔ اور اگر کمپوز کیا گیا ہے، تو ہماری ای میل آئی ڈی پر بھیجنا ہوگا اور اُس کے بعد آپ کو کچھ نہیں کرنا ہوگا، پھر جو کرنا ہوگا، وہ ہمیں ہی کرنا ہوگا۔ کیا سمجھے…؟؟
* مَیں نے ’’چائے‘‘ کے نام سے ایک کہانی ای میل کی تھی۔ نہ تو شائع ہوئی ہے اور نہ ہی ناقابل اشاعت کی فہرست میں شامل ہے؟ (قراۃ العین فاروق، حیدرآباد)
ج: جریدے کا مطالعہ جاری رکھیں۔ بعض اوقات فہرست کی اشاعت میں کچھ تاخیر ہوجاتی ہے۔
* میگزین اچھا ہے، مگر کچھ صفحات کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ (ریاض الحق)
ج: ظاہر ہے، جب صفحات کی تعداد ہی اس قدرکم کردی گئی ہے، تو کچھ صفحات کی کمی تو محسوس ہوگی۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk