پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سیاسی و اقتصادی استحکام ہے جس کیلئے مخلوط اتحادی حکومت برسر اقتدار آتے ہی سرگرم عمل ہو گئی تھی۔ سیاسی بے یقینی تو اب بھی ختم نہیں ہوئی لیکن معاشی ابتری سے نجات کیلئے کوششیں کافی حد تک برگ و بار لا رہی ہیں۔ ان کوششوں میں عسکری قیادت کا سیاسی حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہونا مثبت نتائج کے حصول میں نتیجہ خیز ثابت ہو رہا ہے۔ خاص طور پر آرمی چیف کے دوست ملکوں کے دورے اس لحاظ سے غیر معمولی ہیں جن کا وزیر اعظم شہباز شریف بھی بار بار ذکر کرتے ہیں، اس حوالے سے جنرل سید عاصر منیر کا دو روزہ دورہ نہایت اہم ہے جنہوں نے وہاں صدر ابراہیم رئیسی کے علاوہ ایرانی افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری اور پاسداران انقلاب کے کمان دارجنرل حسین سلامی سے ملاقاتیں کیں اور باہمی مفاد کے تمام معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ مذاکرات میں نہ صرف باہمی سلامتی بلکہ اقصادی معاملات پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ یہ بات نہایت اطمینان بخش ہے کہ دہشت گردی کو دونوں ممالک کیلئے مشترکہ خطرہ قرار دیتے ہوئے برادر ہمسایہ اسلامی ملکوں نے سرحدوں کے تحفظ اور جغرافیائی سالمیت کیلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے اعلامیہ کے مطابق جنرل عاصم منیر نے بات چیت میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور معاشی تعاون بڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے سرحدوں پر سلامتی کی صورتحال بھی بہتر ہو گی۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے کہ مسلمان ملکوں کے ساتھ تعلقات میں توسیع ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے۔ باہمی تعاون کے معاہدوں پر عملدرآمد کی رفتار میں تیزی سے پاکستان اور ایران کے درمیان معاشی و تجارتی خصوصاً توانائی کے شعبوں میں تعاون سے دونوں پڑوسی ملکوں میں سیاسی تعلقات بھی مضبوط ہوں گے۔ ایرانی رہنمائوں کا کہنا ہےکہ پاکستان کی سلامتی ایران کی سلامتی ہے اور اس مقصد کیلئے ایران مشترکہ سرحدوں کو معاشی سرحدوں میں تبدیل کرنے کو تیار ہے۔ پاسداران انقلاب کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہمارا خطہ بین الاقوامی سیاسی قوتوں کی مداخلت کا شکار ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے فوجی تعلقات میں توسیع اور ریاستی سکیورٹی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کی ضرورت اجاگر کی۔ ایرانی رہنمائوں نے مشترکہ سرحدی علاقوں میں بدامنی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے باہمی تعاون مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا تاکہ موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے اور مختلف شعبوں میں پیش رفت کا راستہ نکلے، اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ بلوچستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے جراثیم پرورش پا رہے ہیں اور صوبے میں تخریب کاری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے پاکستان اور ایران کا اس امر پر اتفاق کہ دونوں ملک مل کر اس عفریت کا مقابلہ کریں گے انتہائی خوش آئند ہے۔ اس ضرورت کا افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی ادراک کرنا چاہئے اور اپنے علاقوں میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ کرنا چاہئے جو خیبرپختونخوا میں بالخصوص آئے روز جانی و مالی نقصانات کا باعث بن رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف بین الاقوامی سازشوں ، دہشت گردی، اقتصادی استحصال اور دوسرے سنگین خطرات کے مقابلے کیلئے امت مسلمہ کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں چین کی سہولت کاری سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی بھی امت مسلمہ کیلئے بہت بڑی پیش رفت ہے۔ اسلامو فوبیا سمیت مشترکہ خطرات کے پس منظر میں او آئی سی کا کردار اور بڑھ گیا ہے اسے تمام اسلامی ملکوں میں اتحاد و اتفاق کیلئے اپنی کوششیں دو چند کرنی چاہئیں۔ اس ضمن میں پاکستان اور ایران میں اشتراک عمل پر اتفاق کا خیر مقدم کیا جائے گا۔