• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

دیگر جرائد سے اصل فرق

سنڈے میگزین ایک بہت معیاری اور منفرد رسالہ ہے، مَیں بحیثیت قاری رسالے کو اپنے دل و دماغ سے بہت قریب پاتا ہوں۔ نیز، ’’آپ کا صفحہ‘‘ ایک ایسا سلسلہ ہے، جو ایک عرصے سے ہم سب کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے اور غالباً یہی سلسلہ دیگر جرائد اور اس جریدے کا اصل فرق ہے۔ (شری مُرلی چند جی، گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

ج:اب دیکھیں، یہ اصل فرق کب تک برقرار رہتا ہے۔

اچھے لکھنے والے نہیں ملتے

کافی عرصےبعد ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں انٹری دے رہا ہوں کہ صبح و شام کلینک کی مصروفیات کے سبب وقت ہی نہیں ملتا۔ پھر دراصل اِس دفعہ کےسنڈے میگزین میں میرے شاگرد، ڈاکٹر امیر حسن کا ایک خط چَھپا، جس میں جواباً تم نے شکوہ کیا کہ ڈینٹیسٹری سے متعلق اچھے لکھنے والے ملتےہی کہاں ہیں،حالاں کہ تمھارے جریدے میں میرے مختلف موضوعات پر پچیس کے قریب آرٹیکلز شائع ہوچُکے ہیں اور گزشتہ چھےماہ سے تین تحاریر دفترمیں موجود ہیں بلکہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے لیے اپنی والدہ کی کہانی بھی ارسال کر رکھی ہے، جس کی موصولی کی تصدیق بھی کردی گئی تھی، مگرنہ تو یہ تحریریں شائع ہوئیں، نہ ناقابلِ اشاعت میں جگہ بنی۔ پھر تم کہتی ہو کہ لکھنے والے نہیں ملتے۔ تین تحاریر تو چھے ماہ سے ارسال کر رکھی ہیں، جب کہ چار تحریریں بالکل تیار ہیں،بس حوالۂ ڈاک کرنارہ گیا ہے۔ کم از کم اُن کی اشاعت یا عدم اشاعت کا علم تو ہو، تاکہ کچھ اور موضوعات پر خامہ فرسائی کرسکوں۔ باقی مندرجات پر اگلے خطوط میں روشنی ڈالوں گا۔ (ڈاکٹر اطہر رانا، فیصل آباد)

ج: ڈاکٹر صاحب! آپ کے ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ سے متعلقہ دو مضامین ہمارے پاس موجود تھے، ایک ڈینٹل ہسٹری پر، جو صفحے کے فارمیٹ کے مطابق نہیں تھا، لیکن پھر بھی شایع کردیا گیا اور دوسرا osteomyelitis کے موضوع پرہے، لیکن اتنا مختصرکہ بمشکل آدھے کالم کا ہوگا۔ نیز، آپ کے ہر مضمون میں انگریزی کی بھرمار ہوتی ہے، آپ اُردو سے زیادہ انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہیں، توپھر خود بتائیے کہ ایسے مضامین شایع کیے جائیں، تو کیسے کیے جائیں۔ خدارا! آپ مضامین ذرا تفصیلاً اور مکمل طور پر اُردو میں لکھ کے بھیجیں۔ رہی بات، ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے لیے بھیجی گئی تحریر کی، تو بقول صفحہ انچارج، اُس سے متعلق بھی آپ سے فون پررابطہ کیا گیا تھا، لیکن آپ نےکوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔

خواب و خیال کی باتیں

غالباً مَیں چوتھی کلاس میں پڑھتا تھا، جب میرے والد صاحب کوہستان، اِمروز، مشرق اورپاکستان ٹائمزجیسے اخبارات پڑھنے کے لیےلایا کرتے تھے۔ بعدازاں، مشرق اخبار میں ہمارے کالج کےایک دوست ناصر نقوی کام کرنے لگے، تو مَیں اکثراُن سے ملنے بھی چلا جاتا تھا۔ اُن دنوں مشرق کا دفتر غالباً ایبٹ روڈ پر ہوتا تھا۔ بہرحال، یہ سب اخبارات میرے پسندیدہ تھے اور مَیں چھوٹی سی عُمر ہی میں سب بڑے ذوق و شوق سے پڑھتا تھا۔ اُن ہی دنوں مشرق اخبارمیں ایک صحافی ریاض بٹالوی بھی ہوتے تھے۔ 

اُف! وہ اپنے فیچرز، رپورٹس وغیرہ کی تیاری کے لیے کیا کیا جوکھم نہ اُٹھاتے تھے۔ کئی کئی سوانگ رَچاتے، بھیس بدلتے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ دَور، صحافت کےعروج کا دَور تھا۔ صحافی اپنے کام سے اس قدر مخلص تھے کہ نہ دن کی پروا کرتے تھے، نہ رات کی، بس اپنے قاری کو بروقت درست خبر فراہم کرنا،عوام النّاس کی اصلاح ورہنمائی ہی اُن کا نصب العین تھا۔ اب تو یہ بس خواب و خیال ہی کی باتیں ہیں۔ (تجمّل حسین مرزا، مسلم کالونی، باغ بان پورہ، لاہور)

ج: جی، صرف یہی خواب وخیال کی باتیں نہیں ہیں، اور بھی بہت سی باتیں اب صرف خواب وخیال ہی کی ہیں۔ مثلاً وہ قدردان قارئین، وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والےلوگ،وہ اخبارات و جرائد کے مطالعے سے صبح کا آغاز کرنے، کچھ سیکھنے سکھانے والے افراد… کچھ بھی تو باقی نہیں رہ گیا، تو پھر صرف اِک صحافی ہی کیوں بھیس بدلتا، سوانگ رچاتا رہے، جب کہ اِس وقت سب سے بدترسلوک پرنٹ میڈیا سے وابستہ اصل اور جینوئن صحافیوں ہی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

اُتنی میٹھی ہے ماں…

خدا کرے کہ میرے وطن کا بندہ بندہ شاد رہے،آبادرہے۔ ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں ’’اصحابِ کہف‘‘ کا واقعہ ہم سب کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں آئینِ پاکستان کی تدوین و ترامیم سے متعلق سلیم اللہ صدیقی کی تحقیقی کاوش کا نچوڑ یہ تھا کہ ’’پاکستان کا آئین، مُلک کے ہرشہری کی جان و مال، عزّت و آبرو کا ضامن اور ہر شہری کے بنیادی حقوق کا پاس دار ہے۔‘‘ دنیا کے 100 بہترین آئی ٹی ماہرین میں سے ایک، چیئرمین نادرا، طارق ملک سے طاہر خلیل اورعاطف شیرازی کی بات چیت بہت زبردست رہی۔ 

منورمرزا کے زیرِ قلم جب بھی الفاظ آتے ہیں، تو اوراق کے سینے پر اہم حقائق ہی سجتے ہیں۔ ’’روبوٹس‘‘ سے متعلق بڑی اہم اطلاع دے گئےکہ مصنوعی ذہانت سے درپیش خطرات کے سدباب اور قانون سازی کےلیے دنیا کو بہرحال ایک صفحے پرآنا ہوگا، وگرنہ نظامِ دنیا تباہ بھی ہوسکتا ہے۔ ماڈل نوشی آغا کے ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آنے سے صبح بھی نکھری، دوپہر بھی اور شام بھی۔ تو نرجس ملک کا قلم بھی گنگنانے لگا۔ فرانسیسی فلمی ہدایت کار، گوداغ کی زندگی کو کھنگالا، ڈاکٹر ناظر محمود نے، تو نیلم حمید کو سلام کہ دینا کے سب سے عظیم رشتے پر قلم آرائی کی۔ دنیا کی اچھی ترین مائوں میں سے ایک میری ماں بھی تھی، جنہیں پیار سے مَیں ’’امڑی‘‘ کہتا تھا۔ 

اُنہیں ہم سے جدا ہوئے آج اُنیس برس بیت گئے۔ بے شک ؎ جتنا کڑوا ہے جہاں، اُتنی میٹھی ہے ماں۔ اپنے منور راجپوت بھی قلم کے بہترین کھلاڑی ہیں، جس موضوع پر قلم اُٹھایا، کمال ہی کیا۔ نئی کتابوں پر بھی بحیثیت ناقد کیا خُوب صُورت تبصرہ نگاری کرتے ہیں۔ ’’عیدالفطر ایڈیشن‘‘ ہاکر دے کر نہیں گیا تھا، اُس میں غالباً ’’مدرز ڈے‘‘ کے لیے پیغامات بھیجنے کاسندیسہ دیا گیا ہوگا۔ بہرحال، شفق رفیع کے مرتب کردہ پیغامات دل سےنکلےاوردل میں اُترگئے۔ میرپور خاص کے شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی اس بارسب لکھاریوں پر بازی لے گئے کہ ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ اُن ہی کی تھی۔ دُعا ہے کہ سوہنا رب ہمیشہ سب پر بہت مہربان رہے، آمین۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج:ثمّ آمین۔

تحریر کو جِلا بخش دی

سنڈے میگزین میں چَھپی اپنی تحریر ’’جمعے والی میڈم‘‘ دیکھ کر دل خوشی سے بَھرگیا۔ یوں تو ہر طباعت دل خوش کُن ہوتی ہے، لیکن ’’جنگ‘‘ میں چَھپنے کی وجہ سے یہ آسانی ہوگئی کہ دُور دیس بیٹھے عزیزوں کو بتا دیا کہ فلاں تاریخ کا ’’آن لائن جنگ، سنڈے میگزین‘‘ پڑھ لیں اور گھر بیٹھے مبارک بادیں وصول کرلیں۔ یعنی ہینگ لگی، نہ پھٹکری اوررنگ چوکھا آگیا۔ ’’جمعے والی میڈم‘‘ وہ خطاب ہے، جو برسوں پہلے پرائمری اسکول کے بچّوں نے مجھےدیا تھا۔ یہ کہانی سچّی تھی، بس زیبِ داستاں کے لیے کچھ مسالا شامل کیا۔ 

اُس وقت کے بچّے اب جوان ہیں،لیکن اب بھی ملیں،اُسی نام سے مخاطب کرتے ہیں۔ گزشتہ دِنوں نزدیکی بازار میں ایک نوجوان کالی عینک، کالا ماسک لگائے گاڑیاں صاف کررہا تھا، ہمیں دیکھ کر فوراً ہماری طرف بڑھا اوربولا۔ ’’آپ جمعے والی میڈم ہیں ناں؟ مجھے آپ کی بات یاد ہےکہ محنت کرنے والا ہر شخص قابلِ عزت ہے، غلط تو وہ ہے، جو چور ہو، خواہ وہ کام چور ہی کیوں نہ ہو۔ سو، مَیں ویک اینڈ پر گاڑیاں صاف کرتا ہوں اوراتنی محنت سےکرتا ہوں کہ لوگ خوش ہوکر 500روپے بھی دے جاتے ہیں،تومَیں اپنی یونی ورسٹی کی فیس خُود ادا کرتا ہوں۔‘‘ خوشی کے مارے میرے منہ سے نکلا۔’’شاباش بیٹا! آپ نےاپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ آپ پاکستان کے قابلِ فخرشہری ہیں۔ اپنی اس روش کوہمیشہ ساتھ لے کر چلنا۔‘‘ 

بہرحال، محترمہ! آپ کی ٹیم نے جس طرح ہماری داستان کی نوک پلک سنواری، وہ یقیناً لائقِ تحسین ہے مثلاً عقل مند کی جگہ ’’عقل بند‘‘ کا استعمال۔ یہ لفظ مَیں گفتگو یا تحریر میں استعمال کرتی ہوں، تو لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے۔ خیر، اب تو سند مل گئی ہے۔ سیانے کہتے ہیں۔ ''All's well that end's well'' یعنی انت بھلا، تو سب بھلا، تو آپ کے اختتامی جملے نے تو تحریر کو جِلا ہی بخش دی، دلی شکریہ۔ آخرمیں ایک گزارش کہ سنڈے میگزین کی ایڈیٹر اور ٹیم کے انٹرویوز بھی شائع کریں، تو کیا ہی اچھا ہو، تاکہ ہم بھی جان سکیں کہ یہ جو اِس قدر تحقیق و جستجو کے بعد ایک مرقّع ترتیب پاتا ہے، تو اِس کے بنائو سنوار میں کون کون شامل ہے۔ (انوارِ جہاں، اسٹریٹ55، سیکٹر11/4 -F، اسلام آباد)

ج: بلاشبہ کچھ اعلیٰ ظرف لوگ ہی منکسر المزاج، عاجز اور شُکر گزار ہوتے ہیں، وگرنہ تو عمومی روایت یہی ہے کہ جس پر احسان کرو، پھر اُس کے شَر سے بچو۔ اس ادارے نے تو نہ جانے کتنوں کو زمین سے اُٹھا کر آسمان پر بٹھا دیا۔ کیسے کیسے بے نامیوں کو نام عطا کیا، مگر بیش ترکو کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہی دیکھا۔ آپ کی تحریر اتنی خُوب صُورت تھی کہ ہمیں کچھ خاص رنگ آمیزی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی، اس کے باوجود آپ کی یہ عاجزی وانکساری، شُکر گزاری قابلِ تحسین ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمارے جریدے کے لیے وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ لکھتی رہیں اور جہاں تک بات ہے، ٹیم ممبرز کے انٹرویوز کی، تو ادارے کی پالیسی اِس کی اجازت نہیں دیتی۔

4 قصے اچھے لگے

کئی سالوں سے روزنامہ جنگ اور سنڈے میگزین کا قاری اور فین ہوں۔ ایک ماہ پہلے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سلسلے کے لیے تحریر ’’موت کا افسانہ‘‘ رجسٹرڈ ارسال کی تھی۔ تاحال شائع نہیں ہوئی۔ مَیں زمانۂ طالب علمی سے روزنامہ جنگ کا باقاعدہ خریدار ہوں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں مجھے ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید کے چار قصّے بہت ہی اچھے لگے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام ٹیم کو تا دیر سلامت رکھے۔ (آمین) (خواجہ محمّد ارشد ہجیرہ، خواجہ محلّہ، تحصیل ہجیرہ، ضلع پونچھ، آزاد کشمیر)

ج: آپ نے جو واقعہ بھیجا، اوّل تو وہ واقعہ ہی نہیں تھا۔ دوم، قابلِ اشاعت بھی نہیں تھا، اور سوم یہ کہ ہمارے2جولائی کے ایڈیشن میں جوناقابلِ اشاعت کی فہرست شایع ہوئی، اُس میں آپ کا نام شامل تھا۔

مراسلات کا سلسلہ…؟؟

صفحات میں فوراً اضافہ کریں۔ میگزین کا معیاربلندکریں۔ سفارش کاسہارا مت لیا کریں۔ میرے مضامین کب شائع ہوں گے، جواب جلدی دیں اور مراسلات کا سلسلہ کب شروع کررہی ہیں۔ (شہناز سلطانہ، گلزارِ ہجری، کراچی)

ج: صفحات شوقیہ یا تفریحاً کم نہیں کیے گئے، یہ قدم انتہائی مجبوری میں اُٹھایا گیا ہے۔ میگزین کا معیار تو آج آپ کے خط کی اشاعت سے کافی بلند ہوگیا ہوگااورآپ کےاِس خط کی اشاعت کے بعدگمان کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے یہاں سفارش کا سہارا بھی لیاجاتاہے۔ آپ کے مضامین قابلِ اشاعت ہوں گے تو باری آنے پرشایع ہوجائیں گے۔ اور مراسلات کا کون سا سلسلہ…بی بی! اِن خطوط ہی کومراسلات کہا جاتا ہے۔

                                فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پرملکۂ عالم سی حسین ماڈل کو دیکھتے آگے بڑھ گئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصص القرآن‘‘ کے عنوان سے ’’اصحابِ کہف‘‘ سے متعلق سلسلے کی پہلی قسط پیش کی گئی۔’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں سلیم اللہ صدیقی آئینِ پاکستان کی تاریخ بیان کررہے تھے۔ یہ بھی ایک عجیب ہی المیہ ہے کہ پہلا آئین بنانے میں تو دس سال لگے، لیکن توڑنے میں بمشکل ایک سال لگا۔ بعد ازاں 1973ء میں قوم کوایک متفّقہ آئین میسّرآیا بھی، تواُس کے ساتھ بھی آج تک کھلواڑ ہی ہو رہا ہے۔ ضیاء الحق اور مشرف کے دَور میں یہ آئین تقریباً20سال معطّل رہا اورصد افسوس کہ ہماری اعلیٰ عدالتیں آمروں کے ان اقدامات کو تحفّظ دیتی رہیں اور اب جو کچھ 9مئی کوہوا ہے، وہ بھی تاریخِ پاکستان کا سیاہ ترین باب ہے۔ 

سول اور فوجی تنصیبات کے نقصان سےدشمن خوش اور دوست غم زدہ ہیں اوراصل مجرم، امریکا، یورپ کومدد کے لیے پکا رہا ہے۔ کل تک جو جلسوں میں ایک پرچی دِکھا کرامریکا پر دشنام طرازی کررہا تھا، اب مدد کے لیے اُس کے پائوں پکڑرہاہے۔کیا یہی اِس کی حُب الوطنی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بلکہ زرداری کا بھی عُشرِعشیر بھی نہیں کہ زرداری نےآٹھ سال قید بُھگتی، مگرغیرمُلکیوں کو مدد کے لیے نہیں پکارا۔ درحقیقت مذکورہ بالا سیاست دان، اور یہ ’’لاڈلا‘‘ محض ایک پلے بوائے ہے، جس نے پورے مُلک کو ہی کھیل کا میدان بلکہ ’’اکھاڑہ‘‘ بنا کے رکھ دیا ہے۔ ’’گفتگو‘‘میں طاہرخلیل اورعاطف شیرازی،چیئرمین نادرا سے ادارے کے حُسنِ کارکردگی سے متعلق تفصیلات معلوم کر رہے تھے۔ بےشک، ہمارےقومی اداروں میں نادرا کی کارکردگی تسلی بخش ہے، گرچہ بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہے۔

’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور مرزا بتا رہے تھے کہ انسانوں سے زیادہ ذہین روبوٹس کی تیاری (آرٹی فیشل انقلاب) سے خوف زدہ سائنس دان، اب اِن سے متعلق سخت قوانین بنانے پرغور کر رہے ہیں۔ ارے بھئی، پہلے ہی دوچار پرزے کم لگالیتے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ سے ماڈل کو دیکھتے اور فیض کی خُوب صُورت غزل پڑھتے آگے بڑھ گئے۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود فرانسیسی فلمی ہدایت کار، گوداغ کی جدّت پسندانہ ہدایت کاری کی تفصیلات بتا رہے تھے۔ نیلم حمید ’’پیارا گھر‘‘ میں ماں کے خلوص و وفا کو خراجِ تحسین پیش کررہی تھیں، تو ثناء توفیق، شاہانہ عمران اورامِ کلثوم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی امیوں کے لیے میٹھے میٹھے پکوان تیار کیے۔ 

نئی کتابوں پرمنورراجپوت ماہرانہ رائے پیش کررہے تھے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ شفق رفیع نے مرتّب کیا، اور بہت ہی عُمدہ انداز سے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں شاہدہ ناصر،دادی جان کی تعریف میں رطب اللسان تھیں۔ اور اب آ پہنچےہیں، اپنے باغ و بہارصفحے پر۔ چوکھٹےمیں ہماری چٹھی سجانے کا بےحد شکریہ۔ اور ہاں، وہ جو دلہنوں کے عالمی یوم پر ہم نے حیرت ظاہر کی تھی ناں، تواِس لیے کہ ہم شادیاں بھی کرواتےہیں۔سیکڑوں جوڑوں کونکاح جیسے مقدّس بندھن میں بندھواچُکے ہیں۔ سلیم راجہ سے متعلق تبصرے پر یاد آیا کہ ہم بھی اپنا نمبر دے ہی دیں، ممکن ہے، اُن کی طرح کبھی ہماری تلاش میں بھی دشواری ہو۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج:جی بہت شکریہ۔اُن کا نمبر بھی وصول پا گیا ہے اور آپ کا بھی۔ اوردونوں نمبرز ادارے کے ریکارڈ میں محفوظ کروا دیئے گئے ہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں کئی سالوں سے ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کا مستقل قاری ہوں۔ دراصل مَیں ایک طویل عرصے سے جریدے میں پروف کی ایک غلطی نوٹ کرتا ہوں اور ہر بار سوچتا ہوں کہ شاید اگلی باریہ غلطی درست کردی جائے، لیکن حیرت انگیز طور پر یہ غلطی متعدّد بار دہرانے کے باوجود ہنوز دہرائی جارہی ہے۔ رواں تحریر میں تو پھر بھی اتنا بُرا معلوم نہیں ہوتا، لیکن جب بڑی بڑی سُرخیوں میں ’’منہگائی‘‘ لکھا جاتا ہے تو دیکھ کر بے حد افسوس ہوتا ہے کہ اتنے بڑے اُردو کے اخبار میں کوئی اِس لفظ کی املا درست کرنےوالا نہیں۔ براہِ مہربانی اب کم از کم میری نشان دہی کے بعد ہی اِسے درست کرلیا جائے۔ (عمران کنور)

ج: آپ اگر طویل عرصے سے ’’سنڈے میگزین‘‘کامطالعہ کررہے ہیں توہمیں حیرت اس بات پرہے کہ کیا کبھی آپ کی نظر سے اِس لفظ سے متعلق ہونے والی بحث و تکرارنہیں گزری کہ ہم متعدد بارگوش گزار کرچُکے ہیں کہ درست لفظ ’’منہگائی‘‘ ہی ہے، جوغلط طور پر’’مہنگائی‘‘مستعمل ہوگیا ہے۔ سالوں پہلے ہمارے استاد اور سابق میگزین ایڈیٹر، احفاظ الرحمٰن صاحب نے متعدّد الفاظ کی درست املا کا بیڑا اٹھایا اور کم از کم میگزین کی حد تک اِن الفاظ کے استعمال کو رواج دیا۔ مثلاً جیسے ازدحام، خورونوش، توتا، منہگائی، منہدی اور طراوت وغیرہ کا تلفّظ درست کروایا گیا۔ تو ہم بھی آج تک اُن ہی کے نقشِ قدم پر رواں دواں ہیں اور ہمارے خیال میں تو ہم ’’صراطِ مستقیم‘‘ ہی پر ہیں۔

* 9 جون2023 ء کی اشاعت میں ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید کا ایک واقعہ ’’وہ بزرگ خاتون کون تھیں؟‘‘ شائع ہوا، جس میں ایک وظیفے کا تذکرہ تھا، براہِ مہربانی وہ وظیفہ بھی شاملِ اشاعت کیا جائے کہ اِس طرح اَن گنت پریشان حال والدین کا بھلا ہوگا اور یہ عمل آپ کے لیے بھی صدقۂ جاریہ کا باعث بنے گا۔ (ماہِ امم علوی، راول پنڈی)

ج: ماہِ امم! ڈاکٹر ایم شمیم نوید کے مطابق مذکورہ خاتون نے، مسئلے کے حل تک خود بچّی اور اُس کی والدہ کو کثرت سے (اُٹھتے بیٹھتے، وضو یا بغیر وضو کے) ’’یا رحمٰن، یا رحیم، یا کریم‘‘ کا ورد کرتے رہنے کی تاکید کی تھی۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk