• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ، حضرت جابر ابنِ عبداللہ انصاریؓ، اُمّ المومنین حضرت اُمّ ِ سلمہ ؓ اور حضرت اُمّ ِ ایمنؓ …یہ اُن درجنوں عظیم ہستیوں میں سے معروف ترین اور معتبر ترین ہستیاں ہیں کہ جن کی زبانی واقعاتِ کربلا نقلِ حدیثِ رسولؐ کی صُورت عامتہ النّاس تک پہنچتے رہے، اُس وقت جب کہ ابھی واقعۂ کربلا رُونما بھی نہیں ہوا تھا۔ اِس ضمن میں اُمّ المومنین حضرت اُمّ ِ سلمہؓ سے یہ روایت بھی منقول ہے، جس میں آپؓ نے فرمایا کہ’’ آقائے دوجہاںؐ نے مجھ سے کربلا میں پیش آنے والے مصائب کا ذکر کیا، خود بھی گریہ فرمایا اور مَیں بھی گریہ کرتی رہی۔ اُس کے بعد آنحضرتؐ نے مجھے ایک بوتل عنایت فرمائی، جس میں کچھ خاک تھی اور فرمایا کہ’’ اے اُمّ ِ سلمہؓ جس روز یہ خاک سُرخ ہوجائے، تو سمجھ لینا کہ میرا حسینؓ شہید کردیا گیا۔اور ایسا ہی ہوا۔عاشورہ محرم، 61 ہجری میں اُمّ المومنینؓ حیات اور مدینے میں موجود تھیں۔

یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ جب مدینے کے اکثر صحابہ کرام ؓ اور تمام اُمہات المومنینؓ اور اہلِ بیتؓ ِ عظام سانحۂ کربلا سے واقف تھے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ثانیٔ زہراؓ، حضرت سیّدہ زینبؓ کے علم میں یہ بات نہ ہو۔ اگرچہ آپؓ کم سِن ہی سہی، لیکن گاہے گاہے واقعاتِ کربلا کی گونج سُنتی تھیں۔ اِس ضمن میں ہم اپنے قارئین کی توجّہ کچھ روایات کی طرف بھی دِلانا چاہتے ہیں۔ جب حضرت زینب کبریٰ ؓ کی ولادت باسعادت ہوئی، تو حضرت سلمان فارسی ؓ نے یہ خبر امیرالمومنین، حضرت علی ابنِ ابی طالبؓ کو پہنچائی، جو اُس وقت مسجدِ نبویؐ میں تشریف فرما تھے۔آپؓ نے جب یہ خبر سُنی، تو آب دیدہ ہوگئے۔ مسجد میں موجود افراد نے جب گریے کا سبب دریافت کیا، تو آپؓ نے فرمایا کہ’’مجھے وہ مصائب یاد آگئے، جو میری اِس بیٹی پر آئندہ زمانے میں پڑنے والے ہیں۔‘‘اور پھر چند مصائب بیان فرما کر رونے لگے اور مسجد میں موجود افراد بھی اس گریے میں شریک ہوگئے۔

جنابِ زینبؓ نے اُسی آغوش میں پرورش پائی، جس میں جوانانِ جنّت کے سردارؓ پروان چڑھ رہے تھے۔ آپؓ والدین اور نانا ؐ کے ساتھ ساتھ اپنے دونوں بھائیوں کی بھی چہیتی تھیں، لیکن روایات میں ملتا ہے کہ سیّد الشہداء، حضرت امام حسینؓ سے آپؓ کو خاص لگاؤ تھا، یہاں تک کہ جب آپؓ گہوارے میں تھیں، تو اُس زمانے میں بھی جب حضرت حسینؓ نزدیک آتے، تو آپؓ کے لبوں پر مُسکراہٹ نمودار ہوجاتی ۔ زبانِ وحی سے واقعاتِ کربلا کا علم ہونے کے سبب مدینے کے بچّے ، بڑے جانتے تھے کہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی اس بیٹی کا ایک خاص مقام ہے۔ یہ وہ بچّی ہے، جو شہادتِ حسینؓ کے بعد مقصدِ شہادتِ حسینؓ کو اپنے خطبات کے ذریعے قیامت تک زندہ رکھے گی۔ اور اِسی وجہ سے آپؓ کا ایک لقب’’ شریکۃ الحسینؓ ‘‘ قرار پایا۔

آپؓ نے جس آغوش میں پرورش پائی تھی، اُس کے مظاہرے کے طور پر ’’عقیلۂ بنی ہاشمؓ ‘‘ قرار پائیں۔ عصرِ عاشور کے بعد آپؓ کے شانوں پر دو بھاری ذمّے داریاں عاید ہوگئی تھیں۔ یعنی ایک حضرت امام زین العابدینؓ سمیت ( جو روزِ عاشورہ مرض کے غلبے کے سبب زیادہ وقت عالمِ غشی میں رہے) آلِ رسولؐ کی خواتین اور بچّوں کی حفاظت اور دوسرا مقصد ،قیامِ شبیریؓ کو اُجاگر کرنا۔ آپ تصوّر کریں کہ ایک ایسی خاتون، جس نے کبھی کسی نامحرم کی آواز تک نہ سُنی ہو۔ جس کے بغیر چادر سَر پر کبھی سورج کی کرنیں نہ پڑی ہوں۔ اُس بی بیؓ کو اچانک ایک ایسا معرکہ درپیش ہو، جس کا سامنا کرنے اور جوابی حملے کے لیے سوائے خدا کے کوئی مددگار نہ ہو، تو وہ بی بیؓ کیسے ان حالات کا مقابلہ کرے گی؟ لیکن حضرت علیؓ کی بیٹی نے یہ دونوں ذمّے داریاں ایسی نبھائیں کہ تاریخ میں کوئی دوسری خاتون اِس میدان میں دُور دُور تک حضرت زینبِ کبریٰ ؓ کی ہم سَر نظر نہیں آتی۔

جب لشکرِ عُمر سعد نے خیموں کو لُوٹ کر آگ لگا دی اور رسول زادیوںؓ کے سَروں سے چادریں تک چھین لیں، تو اس ہنگامے میں خواتین اور بچّے میدان میں بکھر گئے تھے اور حضرت سیّد سجّادؓ جلتے خیموں میں گِھرے ہوئے تھے۔ ثانیٔ زہراؓ نے سب سے پہلے بیمارِ کربلاؓ کی حفاظت کی اور اپنے بھتیجے کو، جو وقت کے امام بھی تھے، جَلتے خیموں سے اپنی پُشت پر لاد کر نکالا اور محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ پھر اپنی خواہر، حضرت اُمّ ِ کلثومؓ کے ہم راہ کھوئی ہوئی بیبیوں اور بچّوں کو تلاش کرکے اُن کے لیے ایک گوشے میں جگہ بنائی اور پھر حضرت علیؓ کی یہ شیر دِل بیٹی ،جَلے ہوئے خیموں سے ایک نیزہ تلاش کرکے لائی اور رات بھر بیبیوں اور بچّوں کی محافظ بن کر پہرا دیتی رہی۔ ہم چند سطور یا چند الفاظ میں مختصر طور پر یہ واقعہ لکھ اور بیان کرسکتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اِن مصائب کے لمحات کو، جن کا ایک ایک لمحہ صدیوں کے برابر تھا، کوئی رقم کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی میں بیان کی جرأت ہے۔

شامِ غریباں کسی طرح گزر گئی۔ اب ثانیٔ زہراؓ کے سامنے دوسرا اور کہیں بڑا محاذ تھا اور وہ تھا، کوفہ اور شام کے بازار، دربار اور زندان۔ مخالفین، خاص طور پر ابنِ زیاد اور یزید کے درباروں میں آپؓ کے خطبات، آپؓ کے علم و دانش، صبر و سکون اور وقار و متانت کے آئینہ دار ہیں۔ حضرت علیؓ کی بیٹی نے کسی بھی مرحلے پر بے صبری یا خوف کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہی سبب تھا کہ حضرت زینب کبریٰ ؓ کے خطبات کی گونج درباروں اور زندانوں سے نکل کر یزیدیت کے لیے اِتنا بڑا خطرہ بن گئی کہ اُسے مجبوری اور خوف کے عالم میں آلِ رسول ؐ کو رہا کرنا پڑا۔

رہائی کے بعد مدینہ واپس آئیں، تو وہاں کی خواتین کو جمع کرکے اُن کے سامنے واقعاتِ کربلا تفصیل سے بیان فرمایا کرتی تھیں۔ تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے کہ درحقیقت ذکرِ حسینؓ کی بانی، خود حضرت حسینؓ کی بہن، حضرت زینبؓ ہیں۔ سیّد الشہداء، حضرت امام حسینؓ ہوں یا آپؓ کے انصار، ثانیٔ زہراؓ ہوں یا اُن کے ساتھ شریک خواتین اور بچّے، ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اِن ہستیوں کی یہ تمام قربانیاں اسلام و احکامِ اسلام کی بقا اور دین کو تحریفات سے بچانے کے لیے تھیں۔ لہٰذا، ہمیں کربلا اور کربلا والوں کو فرقے اور مسلک سے بالاتر ہوکر اللہ کی راہ میں قربانیاں دینے والوں کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔