• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اکبر کے نورتن تھے پرویز مشرف کے نو مرض ہیں، پرویز مشرف دل کی دنیا کے آدمی ہیں، وہ زندگی میں متعدد مرتبہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوئے۔ اس مرتبہ وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر عدالت کے بجائے ملٹری اسپتال پہنچ گئے۔ ان کی گاڑی عدالت کا راستہ بھول کر کہیں اور پہنچ گئی۔ ایک میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی ہے جبکہ لندن میں چند ڈاکٹرز ان کو لاحق امراض کا جائزہ لے رہے ہیں۔ پرویز مشرف طویل عرصہ تک حکمران رہے، ان کے طولانی دور کی طویل باتیں ہیں۔ ان کی آمد، ضمانتوں اور بیماری کے پس پردہ کئی کہانیاں ہیں۔ پچھلے ایک ہفتے سے پرویز مشرف میڈیا کے موضوع بنے ہوئے ہیں۔ کوئی نیوز بلیٹن ان کے تذکرے کے بغیر مکمل ہوتا ہے نہ ہی کوئی ٹاک شو اس ذکر سے بچتا ہے۔ ملک کے اندر اور باہر بحث جاری ہے کہ پرویز مشرف کا کیا بنے گا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ویسے ویسے نت نئے پہلو سامنے آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے دلیری کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے خود کو شامل کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی، جنرل کیانی اور سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔ قومی اسمبلی کے رکن چوہدری پرویز الٰہی اس سلسلے میں بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ (ن) لیگ کے وزراء نے مشرف سے حلف کیوں اٹھایا تھا۔ اگر پرویز مشرف غدار ہیں تو پھر غدار سے حلف لینے والوں کا کیا مقام ہے۔ چوہدری شجاعت حسین نے سینیٹ کے اندر اور باہر برملا کہا ہے کہ پرویز مشرف کو غدار نہ کہا جائے کیونکہ اس نے بطور فوجی کے چالیس سال قوم کی خدمت کی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کے کہنے کے بعد یہ بحث چل نکلی ہے کہ جو لوگ پرویز مشرف کو غدار قرار دے رہے ہیں وہ مسلح افواج کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی مطالبہ کردیا ہے کہ پرویز مشرف کیخلاف کارروائی بارہ اکتوبر 99ء سے شروع کی جائے۔ شاہ صاحب پورا پنڈورا باکس کھولنا چاہتے ہیں بلکہ ان کی خواہش ہے کہ ضیاء الحق کے پیروکار بھی اس میں شامل ہوجائیں۔ اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پرویز مشرف کو تو فکر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ بارہ اکتوبر کو وہ تو فضا میں تھے۔ جنرل عثمانی، جنرل محمود اور جنرل عزیز کا کردار صورتحال کو تبدیل کرنے میں زیادہ تھا پھر آج جو لوگ میاں نواز شریف کے ساتھی ہیں ان میں سے بہت سے لوگ اس وقت پرویز مشرف کے ساتھ تھے۔ ایمرجنسی کے وقت تو آج کے وزراء مشرف ٹیم کا حصہ تھے اور اگر پرویز مشرف کے ساتھیوں کا معاملہ زیر بحث آیا تو پھر ضیاء الحق کے ساتھیوں کا معاملہ بھی زیر بحث آجائے گا۔
گزشتہ ہفتے میں نے ایک کالم میں پرویز مشرف کیلئے آصف علی زرداری کا عطا کردہ نام استعمال کیا تھا۔ اس پر بہت سے اعتراضات موصول ہوئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کے شعبہ خواتین کی صدر مسز فرخ خان نے میری فیس بک پر ایک لمبا چوڑا پیغام دیا ہے کہ آپ کو ایسا نہیں لکھنا چاہئے تھا۔ ان کی بات درست ہے کہ جس شخص نے چالیس سال دفاع پاکستان میں گزار دیئے ہوں اسے غلط ناموں سے یاد نہیں کرنا چاہئے اور اب جب وہ بیمار ہیں تو ویسے بھی انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
پچھلے کالم کے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے پھر سے عرض ہے کہ پرویز مشرف کو کچھ نہیں ہوگا۔ ان کی صحت بھی بہتر ہوجائے گی۔ مجھے ان کے بارے میں اس لئے خبر ہوجاتی ہے کہ ان کی رہائش گاہ میرے گھر کے راستے میں ہے، بہت سی سرگرمیوں کا اندازہ پڑوسیوں کو ہو ہی جاتا ہے جس دن ان کی پیشی تھی، وہ خوب تیار ہوئے، آنکھوں میں سرما شرما ڈالا، گاڑی میں بیٹھتے وقت ہی انہیں پتہ تھا کہ ان کی اگلی منزل عدالت نہیں اسپتال ہے کیونکہ تیاریاں عدالت کیلئے تھی ہی نہیں، صرف اسپتال کیلئے تھیں۔ اسی لئے وہ بغیر کسی رکاوٹ کے راولپنڈی کے فوجی اسپتال پہنچ گئے۔ اگلی منزل کا تعین بھی ’’فوجی ڈاکٹرز‘‘ ہی کریں گے۔ یہ دل کا فیصلہ ہے، پرویز مشرف کا دل چک شہزاد ہی سے کہہ رہا تھا، عدالت نہیں جانا، سیدھے آرمی علاقے کی طرف چلو، جہاں دل کو تسلی ہو، دل کو سکون ہو، دل کی دنیا کو آباد رکھنے کیلئے سکون ضروری ہو کہ:
دل دیاں لگیاں کون جاندا
آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے پچھلے کالم میں کہیں لکھ دیا تھا کہ پرویز مشرف کیلئے اندرونی اور بیرونی طاقتیں فکر مند ہیں،یہ فکرمندی ہنوز جاری و ساری ہے۔ اب اہل سیاست نے بھی اس میں حصہ ڈالنا شروع کردیا ہے، چوہدری شجاعت حسین تو دھیرے دھیرے لگے ہوئے تھے جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری دلائل کے ساتھ پرویز مشرف کے حق میں بات کررہے تھے کہ ایسے میں الطاف حسین نے کھڑاک کر ڈالا ہے۔ ان کے اس کھڑاک کی دور دور تک آواز آئی ہے۔ انہوں نے نہ صرف پرویز مشرف کو حوصلہ دیا ہے بلکہ خود کو بھی اسی صف میں شامل کرلیا ہے۔ الگ صوبے کا مطالبہ پورے زورشور سے کردیا ہے۔
الطاف حسین کا ایک کمال تو سب کو ماننا پڑے گا کہ وہ بندے فوراً اکٹھے کرلیتا ہے باقی پارٹیاں کئی کئی ’’دیہاڑیاں‘‘ لگاتی ہیں مگر الطاف حسین کے ایک اشارے پر گھنٹوں میں وہ کام ہوجاتا ہے جو لوگ دنوں میں کرتے ہیں۔ الطاف حسین نے الگ صوبے کا مطالبہ کیا کیا کہ پورے ملک کے سیاستدانوں کو بولنے پر مجبور کردیا سب سے پہلے ان کے بھتیجے بلاول بھٹو زرداری نے کام دکھایا پھر باقی پارٹیاں میدان میں اتر آئیں، اندرون سندھ اچھے خاصے مظاہرے ہوئے۔
سندھ کی جب بھی بات ہوتی ہے تو مجھے پلیجو خاندان بہت یاد آتا ہے، خواہ وہ ایاز لطیف پلیجو ہوں یا سسی پلیجو ہوں دونوں ہی سندھ کا فرنٹ فٹ پر جاکر دفاع کرتے ہیں۔ سندھ دھرتی کے تحفظ کیلئے سسی پلیجو نے بھی اسی شام اپنے مؤقف کا اعلان کردیا تھا وہ بلاول بھٹو زرداری کے مؤقف کے مطابق… مرسوں، مرسوں، سندھ نے ڈیسوں… کی قائل ہیں۔ سسی پلیجو نے الطاف حسین کے سندھ کی تقسیم کے مطالبے کو سرے سے رد کردیا وہ جب سندھ اسمبلی میں ہوتی تھیں اس وقت بھی وہ سندھ کے حقوق کیلئے آواز بلند کرتی رہتی تھیں۔ اس بار دھاندلی کے باعث انہیں اسمبلی سے باہر رکھا گیا ہے مگر سسی کی آواز کو نہیں دبایا جاسکا، سندھ سسی کے دل کی آواز ہے۔
فیس بک اور ٹوئٹر کے دور میں بھی دل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ایک معروف اداکارہ کے بھائی سات سال پہلے پنجاب پولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہوئے تھے، ان کی ترقی کو ایسے پر لگے کہ سات سال کے قلیل عرصے میں وہ ترقیاں پاکر ایس پی بن گئے۔ پنجاب پولیس کے ایک سربراہ ’’حاجی صاحب‘‘ ان پر بڑے مہربان تھے۔ ترقی کا راز دل میں ہے، دل سلامت تو جان سلامت۔ قمر رضا شہزاد کا شعر ہے کہ:
یہ شہر چھوڑ کے جانا بھی تھا کہاں آخر
یہیں چراغ، یہیں دل جلائے رکھتے ہم
تازہ ترین