• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوفون آئے کہ نئے سال پر آپ کا کالم کب آرہا ہے، میں نے کہا ذرا انتظار فرمایئے۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ مالی سال کو منتخب کیا جائے اس میں نصف13اور نصف14کاتقویمی سال آجائے گا عوام تو گزشتہ6مہینوں میں پریشانی میں رہے لیکن وزیر خزانہ نے سب سے پہلے یہ مژدہ سنایا کہ عوام اپنے ڈالروں سے چھٹکارا حاصل کرلیں عنقریب ان کی قدر گرنے والی ہے۔ کھلے بازار میں ایک امریکی ڈالر110روپے تک پہنچ گیا تھا اور اب ایک سوپانچ روپے کا ہے۔ دوسرے انہوں نے گزشتہ ششماہی کی معیشت کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔ حسب روایت بات وہیں سے شروع ہوئی کہ جب ہماری پارٹی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو ملک کی حالت دگرگوں تھی، اس وقت ملک کی شرح نمو 3 فی صد کے قریب تھی۔ مہنگائی کی۔ بارہ فی صد تک پہنچ گئی تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ رہے تھے (ایک زمانے میں وہ6ارب کے ہوگئے تھے اب آئی ایم ایف کی قرضے کی پہلی قسط آنے سے ان میں اضافہ ہوگیا) بجلی کی کمپنیوں کی واجب الوصول رقوم 503 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ ہم نے بجٹ کے خسارے کوکم کرنے کے لئے وزیر اعظم اور وزراء کے تمام صوابدیدی اخراجات کم کردیئے۔ وزیراعظم کے دفتر کے مصارف میں40فی صدی کمی کردی۔ آئرلینڈ اور چلی کے سفارت خانے بند کردیئے اور دوسرے سفارت خانوں میں بلا ضرورت اور بے ثمر تقرریاں ختم کردیں اور اس طرح حکومت کو54ارب روپے کی بچت ہوئی۔
حکومت کا ایک کارنامہ بجلی کے عام قمقوں کے بجائے 3کروڑ انرجی سیور مفت تقسیم کرنے کا پروگرام ہے۔ ان کے استعمال سے توانائی کی بچت ہوگی۔ لوڈشیڈنگ میں کمی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ انفرادی بلوں کی رقم بھی گھٹ سکتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی اطلاع ہے کہ رواں سال میں تجارتی اور صنعتی صارفین کی بجلی میں 50 فی صد اضافہ ہوجائے گا جس سے تمام صنعتی پیداواروں کی لاگت بڑھ جائے گی اور تجارت میں بھی نقصان ہو گا۔
سب سے اہم وہ اعلان ہے جس کے تحت 21 سے 45 عمر کے ان نوجوانوں اور خواتین کو ایک لاکھ سے20لاکھ تک کاروبار کے لئے قرضہ دیاجائے گا اسے یوتھ لون اسکیم کانام دیاگیا ہے۔ وزیر اعظم کی ایک صاحبزادی اس کی چیئرمین ہوں گی اس کے اہم خدوخال یہ ہیں۔
1۔ پاکستان کا ہر وہ شہری جس کی عمر 21 سے 45 سال کے درمیان ہوا اور جس کے پاس شناختی کارڈ ہو وہ اس اسکیم میں شامل ہونے کا اہل ہوگا۔
2۔ درخواست گزار کو منظوری کے بعد ایک لاکھ سے20لاکھ روپے تک قرضہ مل سکے گا۔3۔ پچاس فی صد قرضے خواتین اور دس فی صد قرضے شہداء کی بیواؤں کے لئے مخصوص ہوں گے۔4۔ قرضے آٹھ سال میں واپس کرنا ہوں گے ۔ اس میں ایک سال کی رعایت بھی دی جاسکتی ہے۔5۔ کل ایک لاکھ قرضے دیئے جائیں گے۔ جس میں ہر مہینے15000افراد کا بذریعہ قرعہ اندازی انتخاب ہوگا۔6۔ ایک فرد کو20لاکھ روپے تک قرضے دیئے جاسکتے ہیں۔7۔ قرضے اقساط میں دیئے جائیں گے۔8۔ اس قرض پر بنک کے مارک آپ کی شرح 8 فی صد ہوگی جبکہ 7فی صد سرچارج اور دیگر اخراجات حکومت ادا کرے گی۔
9۔ اس اسکیم میں کاروبار کے لئے پچاس شعبے مخصوص کئے گئے ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی کسی مفید اور پیداواری شعبے میں درخواست دی جا سکتی ہے۔
10۔ قرض کے حصول کے لئے ضمانت درکار ہوگی16یااس کے اوپر کا سرکاری افسر یاکوئی نجی شخص جس کے پاس قرضے کی رقم سے تین گنا رقم ہو ضامن بن سکتا ہے،کئی افراد بھی ضامن ہوسکتے ہیں۔
11 ۔ حکومت نے اس اسکیم کے لئے اس سال100ارب مختص کئے ہیں یہ رقم سرکاری خزانے سے نہیں لی جائے گی بلکہ نیشنل بنک سے حاصل کی جائے گی (درمیان میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ نیشنل بنک نے صرف 15ارب کی فراہمی کی حامی بھری تھی مگر بعد میں اس کی تردید ہوگئی اور وزیراعظم نے بنک کے سینئر افسران سے ملاقات کی)۔ 12۔ اس اسکیم میں کامیابی کا انحصار بزنس پلان پر ہے۔13۔ قرضے کے فارم بلا قیمت نیشنل بنک اور فرسٹ ویمن بنک کی تمام شاخوں سے مل سکیں گے اور انہی میں سوروپے فیس کے ساتھ جمع کرائے جائے گے۔
14۔ اس اسکیم میں سفارش کا دخل نہیں ہوگا حتیٰ کہ وزیراعظم کی سفارش بھی نہیں چلے گی۔
نوجواں طبقے میں یہ اسکیم بڑی مقبول ہوئی کراچی میں15ہزار فارم جمع ہوئے نیشنل بنک نے4ہزار فارموں کاجائزہ مکمل کرلیا ہے۔
حکومت کا سب سے کمزور مالی پہلو ٹیکسوں کی وصولی ہے جو کئی سال کی کوشش کے باوجود نہ صرف آگے نہ بڑھ سکا بلکہ منفی پہلو اختیار کرلیا۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ صرف230افراد؍اداروں نے اپنی آمدنی 100ملین سے زائد بتائی ہے جولوگ سب سے زیادہ آمدنی والے طبقے میں شامل ہیں ان کی تعداد گھٹ گئی ہے۔ 2012ء میں ان کی تعداد11ہزار افراد تھی ٹیکس ریڑن داخل کرنے والوں کی تعداد 2012 میں711,300تھی اور اس سال ان کی تعداد800,000ہے۔ اس تعداد میں 160 افراد ایسے ہیں جنہوں نے اپنی آمدنی50اور 100ملین کے درمیان بتائی ہے۔ 30ملین سے50ملین والے افراد کی تعداد275ہے اور915افراد نے اپنی آمدنی 30ملین کے درمیان بتائی ہے ۔74ہزار افراد نے اپنی آمدنی صفر بتائی ہے۔ قانون کے لحاظ سے جن کے پاس ہزار سی سی کی کار ،250مربع گز کا پلاٹ اور دوہزار مربع فٹ کا فلیٹ کسی میونسپل کارپوریشن میں ہو ان کے لئے ٹیکس گوشوارہ داخل کرنا ضروری ہے مگر یہاں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ 2014ء میں مہنگائی بڑھے گی اسی لئے صدر محترم نے کہا کہ حکومت کشکول توڑنے کی پوزیشن میں نہیں اور ابھی عوام کو صبر کرنا ہوگا اور یہی صحیح تجزیہ ہے۔
تازہ ترین