• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیّد امیر احمد

یہ ایک ابدی ہے کہ انسانی تاریخ واقعات اور سانحات سے بھری ہوئی ہے،جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یادوں سے محو ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تاہم یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ واقعۂ کربلا کو گزرے ہوئے چودہ صدیاں گزر گئیں، مگر آج بھی غم حسین زندہ ہے، پوری دنیا کے مسلما ن 10 محرم کے واقعے پر دل گرفتہ ہیں۔ امام عالی مقام ؓ کی عظیم قربانی قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی۔

آپ نے بچپن سے شہادت تک علم کے جوہر دکھائے، عالم انسانیت کے روشن چراغ، جرأت و شجاعت کے بے مثال کردار،نواسۂ رسولؐ حضرت امام حسین ؓ نے کربلا میں باطل نظریے پر کاری ضرب لگا کر دشمنوں کو ہمیشہ کےلیے نیست ونابود کر دیا۔ آپ کی قربانی نامساعد حالات کے باوجود حق کے لیے باطل قوتوں کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دیتی ہے۔ آپ نے کربلا کے میدان میں اپنے اصحاب کے ساتھ رہنما اصول پیش کر کے حق وباطل میں ایک لکیر کھینچ دی۔ آپ نے اپنے اہل بیت واصحاب کی قربانی پیش کر کے اسلام کو زندہ کر دیا۔

یزید احکام الٰہی اور نبی کریمﷺ کی سنت اور دین الٰہی کے اصولوں سے انحراف کر رہا تھا تو ایسے میں نواسۂ رسولﷺ نے دین کے فروغ کے لیے اپنی اور اہل خانہ کی قربانی دے کر دین اسلام کو سرخرو کیا۔ شہید کربلا حضرت امام حسینؓ اور سپاہ یزید کی جنگ تلواروں کی نہیں، بلکہ اصولوں کی جنگ تھی ،کیونکہ آپ جانتے تھے کہ یزید نے جو اسلام کے نام پر اقتدار کا ڈھانچہ کھڑا کیا ہے، وہ غیراسلامی اور غیرشرعی ہے، اس میں حرام وحلال کی حدود مٹا دی گئی ہیں، اس کا اصرار تھا کہ کسی طرح سے حسینؓ سے بیعت لے لی جائے۔ 

آپ کو یہ کیسے گوارا تھا کہ آپ یزید کی بیعت کریں، چناںچہ آپ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے اور وہاں سے عا زم کربلا ہوئے۔ ایک مقام آیا آپ نے دریافت کیا کہ اس جگہ کو کیا کہتے ہیں، بتایا گیا کہ اس جگہ کو ’’کربلا‘‘ کہتے ہیں۔ آپ نے آبدیدہ ہو کر کہاکہ یہی جگہ ہماری قتل گاہ ہے، چناںچہ وہیں خیمے نصب کر دیئے گئے،مگر جب یزید کو خیمے نصب کرنے کی اطلاع ملی تو اس نے حکم دیا کہ آپ کے خیمے وہاں سے ہٹا دیئے جائیں۔ اس پر انصار جوش میں آگئے اور حضرت عباس علمدار نے کہا کہ کس کی مجال ہے کہ میرے ہوتے ہوئے خیام حسینی کو یہاں سے ہٹایا جائے، لیکن امام عالی مقامؓ نے سب کو سمجھا بجھا کر وہاں سے خیمے ہٹالئے اور دریائے فرات سے تین میل کے فاصلے پر میدان میں خیمے نصب کئے ،جہاں پانی کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا،آپ کا طرز عمل یہ بتاتاہے کہ آپ کا مقصد جنگ وجدل نہیں تھا ،بلکہ اپنے نانا کے دین کی حفاظت کرنا تھا۔

ساتویںمحرم کو آپ اور آپ کے جاں نثاروں پر پانی بند کر دیا جاتا ہے۔ عمرابن حجاج کو پانچ سو سواروں سمیت نہر فرات پر مقرر کر دیاگیا کہ خیام حسینی تک پانی نہ پہنچنے پائے۔ معصوم بچے پیاس سے بلک رہے ہیں ،ایسے میں جناب عباس سے بچوں کی تشنہ لبی نہیں دیکھی جاتی۔ آپ امام حسینؓ سے پانی لانے کی اجازت مانگتے ہیں، آپ اجازت نہیں دیتے۔ جناب عباس بار بار اصرار کرتے ہیں، بالآخر آپ صرف پانی لانے کی اجازت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عباس، جنگ میں پہل مت کرنا صرف پانی لانے کی سبیل کرنا۔ 

عباس نہر فرات پر پہنچتے ہیں ۔ علیؓ کے شیر کی وہ ہیبت ہے کہ فوج اشقیاء دور دور بھاگ جاتی ہیں ۔ مشکیزے کو دریا میں ڈالا اور اور پانی کو چلو میں بھر کر پھینک کر ساری دنیا کو بتا دیا کہ پانی ہمارے قبضے میں ہے۔ آپ کمال وفاداری کی وجہ سے نہر فرات میں داخل ہو کر پیاسے لوٹے اور وفاداری کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہوئے۔ مشکیزہ بھر کر آپ واپس لوٹتے ہیں تو بکھری ہوئی فوجیں واپس آتی ہیں ،حکم ملتا ہے خبردار، خیام حسینی میں پانی نہ پہنچنے پائے،کہیں سے تیر آتا ہے اور کہیں سے پتھر آتا ہے، ایک تیر مشکیزے کو لگا اور سارا پانی بہہ گیا اور آپ شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔

شب عاشور امام عالی مقامؓ اور آپ کے انصار نے عبادت میں گزاری، دسویں کی صبح ہوتی ہے۔ آپ نے فوج اشقیا ءکو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ تم جانتے ہو کہ میں نبی کریمﷺ کا نواسہ ہوں۔ علیؓ کا بیٹا ہوں۔ ہمارے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن ؓوحسینؓ جوانان جنت کے سردار ہیں۔ تم لوگ کیوں میری جان لینے پر آمادہ ہو؟ افسوس کہ آپ کی اس تقریر کا بھی فوج اشقیاءپر کوئی اثر نہیں ہوا۔ 

بالآ خر جنگ کاآغاز ہوتا ہے، پہلے حسینؓ کے دوست حبیب ابن مظاہر، جناب زہیر، نافع ابن ہلال، مسلم ابن عوسجہ، عابس شاکری، بریر ہمدانی جاتے ہیں اور داد شجاعت دکھاتے ہوئے شہید ہوتے ہیں۔ اب اقربا کی باری آتی ہے، قاسم وعون محمد گئے ،اتنی بے جگر ی سے لڑے کہ دشمن کی فوج میں ہلچل مچ گئی۔ جعفر بن عقیل نے 15 دشمنوں کو واصل جہنم کیا اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ محمد بن عبداللہ جعفر میدان میں آئے اور شہید ہوئے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ جب آپ کے لخت جگر نور نظر حضرت علی اکبرؓنے اذن جہاد کی اجازت چاہی۔ علی اکبر آگے بڑھے اور نہایت دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ 

اس کے بعد آپ اپنے چھ ماہ کے شیرخوار علی اصغر کو میدان میں لے کر آئے اور کہاکہ اے فوج اشقیاء، اسے تھوڑا سا پانی پلا دو،جواب میں ایک تیر آیا اور بچے نے باپ کے ہاتھوں پر دم توڑدیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ تنہا رہ گئے اور فوج یزید نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا، آپ نے تلوار کھینچ کر دشمن پر حملہ کیا تین دن کے بھوکے پیاسے نے میدان کربلا میں جرأت اور جواں مردی کی ایسی مثال قائم کی جس پر تاریخ انسانیت آج بھی ناز کرتی نظر آتی ہے۔

تاریخ میں ہے درج شجاعت حسینؓ کی

پہچان لی ہے جس نے بھی عظمت حسینؓ کی

نکلے گی اُس کے دل سے نہ اُلفت حسینؓ کی

دل میں ہر اِک نفس رکھو اُلفت حسینؓ کی

انساں کو بخشتی ہے یہ جرأت حسینؓ کی

حق اب بھی سرفراز ہے باطل کے سامنے

یہ فیض ہے حسینؓ کا ، برکت حسینؓ کی

بعد از غمِ حسینؓ کوئی غم نہیں رہا

حاصل ہوئی ہے ایسے نسبت حسینؓ کی

برباد ہو کے رہ گئے باطل پرست سب

باطل پہ اِس طرح پڑی ضربت حسینؓ کی

دنیا میں سر اُٹھائے گی جب بھی یزیدیت

انسان کو پڑے گی ضرورت حسینؓ کی

رکھے گی سر بلند ، سفیرانِ حق تمہیں

حاصل ہوئی ہے تم کو قیادت حسینؓ کی

تاریخِ کربلا کا تسلسل ہے یہ ندیمؔ

تاریخ میں ہے درج شجاعت حسینؓ کی

(ریاض ندیم نیازی)