ڈاکٹر فلزہ آفاق، ڈاکٹر نوید بٹ
دنیا بَھر میں ہر سال یکم سے7 اگست تک’’ بریسٹ فیڈنگ ویک‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد بچّے کےلیے ماں کے دودھ کی اہمیت و افادیت سے متعلق شعور اجاگر کرنا ہے۔ نیز، اِس ضمن میں طبّی اور سماجی سطح پر حائل مشکلات کے حل پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ اِسی تناظر میں رواں برس کا تھیم’’ Enabling breastfeeding: making a difference for working parents.‘‘ (بریسٹ فیڈنگ کا اختیار، فعالیت: ملازمت پیشہ ماؤں(والدین) کو موافق ماحول دیں) مقرّر کیا گیا ہے کہ عام طور پر ملازمتوں کے مقامات پر خواتین کے لیے بریسٹ فیڈنگ ممکن نہیں ہوپاتی۔ اور اِسی سبب، خاص طور پر اِس امر پر زور دیا جا رہا ہے کہ ایسی ماؤں کو کم از کم تین ماہ کی چھٹیاں دی جائیں، جب کہ ملازمت کے مقامات پر اُنھیں بریسٹ فیڈنگ کی محفوظ سہولتیں بھی فراہم کی جائیں کہ بدقسمتی سے دنیا بَھر کے صرف 42 ممالک ہی میں ملازمت پیشہ ماؤں کو یہ سہولت میسّر ہے۔
ربِّ کائنات نے بچّے کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی اُس کی خوراک کا جو انتظام کر رکھا ہے، وہ طبّی اور غذائی اعتبار سے قدرت کا ایک شاہ کار نظام ہے۔ ماں کا دودھ اللہ تعالیٰ کا انعام اور بچّے کے لیے ایک متوازن اور چھے ماہ تک کے لیے ایک مکمل غذا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت 233 میں ماؤں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ’’اور مائیں اپنے بچّوں کو پورے دوسال تک دودھ پلائیں۔‘‘
ہمارے پیارے نبی، حضرت محمّدﷺ نے بھی دودھ پلانے والی ماں کے لیے بہت زیادہ اجر کی بشارت دی ہے۔ ’’مجمع الزوائد‘‘ اور ’’کنزالعمال‘‘ کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’بچّے کی پیدائش کے بعد (ماں کی چھاتی سے) دودھ کا جو قطرہ نکلتا ہے اور جب بچّہ اُس دودھ کو پیتا ہے، تو ہر گھونٹ اور ہر قطرے پر عورت کو نیکی ملتی رہتی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ماں کے دودھ میں ایسے قدرتی اجزا رکھے ہیں، جن سے بچّے کی قوّتِ مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے، جب کہ اِس کے ذریعے بچّے کا نظامِ ہضم بھی درست کام کرتا ہے۔ ماں کے دودھ میں موجود اینٹی باڈیز مختلف جراثیم سے بچّے کو تحفّظ فراہم کرتی ہی، خاص طور پر ابتدائی دِنوں کا دودھ،یعنی’’colostrum ‘‘جراثیم کے خلاف مدافعت کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، اِس لیے وہ بچّے کو ضرور پلانا چاہیے۔
نیز، ماں کا دودھ پینے والا بچّہ عموماً موٹاپے اور ذیابطیس سے محفوظ رہتا ہے۔ ماں کے دودھ میں مختلف غذائی اجزا مثلاً چکنائی، نشاستہ، لحمیات، نمکیات اور وٹامنز متناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں، جو بچّے کے لیے بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں، اسی لیے یہ دودھ پینے والے بچّے، دیگر بچّوں کی نسبت زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ نیز، ماں کا دودھ پینے سے ماں اور بچّے میں مضبوط تعلق استوار ہوتا ہے، تب ہی طبّی ماہرین کی جانب سے خصوصی ہدایت دی جاتی ہے کہ پیدائش کے فوراً بعد بچّے کو ماں کے ساتھ لگا دیا جائے۔پھر چوں کہ ماں کا دودھ بہت خالص، جراثیم سے پاک اور مناسب درجۂ حرارت پر بچّے کو ملتا ہے، تو بلاشبہ یہ بچّے کے لیے دنیا میں آنے کے بعد پہلا اور اَن مول تحفہ ہے،جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماں کے ذریعے ودیعت کیا جاتا ہے اور یہ بچّے کا حق بھی ہے۔
یہ بچّے کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی نشوونما کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔نیز، اپنے بچّے کو دودھ پلانے سے ماں کو بھی بے شمار طبّی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔مثلاً بچّہ جب دودھ پیتا ہے، تو ماں کے جسم میں ایک ہارمون’’ oxytocin ‘‘بنتا ہے، جس سے ماں کے مختلف اعضا اور جِلد جَلد اصل حالت میں آجاتے ہیں، خون کا بہاؤ جلد رُک جاتا ہے اور پیدائش کے بعد بہت زیادہ خون بہنے سے ہونے والےPostpartum hemorrhage کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔نیز، یہ بچّوں میں وقفے کا ایک قدرتی طریقہ بھی ہے۔اسی طرح جو مائیں بچّوں کو دودھ پلاتی ہیں، اُن میں چھاتی اور اندورنی اعضا کے سرطان(کینسر) کے امکانات کم ہوجاتے ہیں، پھر یہ کہ بچّوں کو اپنا دودھ پلانے والی مائیں بار بار بوتل اُبالنے کے تردّد سے بھی بچ جاتی ہیں۔
دودھ پلانے کا صحیح طریقہ
پہلی دفعہ ماں بننے والی خواتین کو دودھ پلانے میں جن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اکثراوقات اُس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ناتجربہ کاری کے سبب دودھ پلانے کے صحیح طریقے سے واقف نہیں ہوتیں۔ اردگرد کے لوگ بھی جَلد بازی میں فوراً ڈبّے کا دودھ شروع کرنے کا مشورہ دے دیتے ہیں، جس سے ماں مزید پریشان ہوجاتی ہے۔بچّے کو دودھ پلاتے ہوئے یہ باتیں ذہن میں رکھیں: ٭آرام دہ اور پُرسکون جگہ بیٹھ کر بچّے کو دودھ پلائیں۔ گھر کے باقی افراد کی بھی ذمّے داری ہے کہ وہ ماں کو یہ موقع فراہم کریں کہ وہ کسی الگ جگہ پر سُکون سے بچّے کو وقت دے سکے۔ اِس طرح دودھ کی فراہمی بہتر ہوتی ہے۔
٭ماں کو دودھ پلانے سے پہلے خود کم ازکم ایک گلاس پانی یا کوئی اور مشروب ضرور پی لینا چاہیے تاکہ دودھ میں کمی نہ ہو۔٭گھر والوں کو اِس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ اجنبی لوگوں کی موجودگی اور ماں کی ذہنی پریشانی دودھ کے بہاؤکو متاثر کرتی ہے۔٭دودھ پلاتے ہوئے بچّے کا سر اور بدن اگر داہنی طرف ہو، تو دائیں بازو پر یوں رکھا جائے کہ سر کُہنی کے قریب بازو پر ہو اور بچّے کا بدن اور داہنا بازو ماں کی طرف پلٹا ہوا ہو۔ ماں انگلی سے بچّے کے نتھنوں کو کُھلا رکھے تاکہ اُسے سانس لینے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔٭ نپل کے گرد کا سیّاہ حصّہ بھی بچّے کے منہ میں جانا چاہیے، کیوں کہ دودھ سے بَھری نالیاں اُسی حصّے میں ہوتی ہیں۔ اگر بچّہ صرف نپل منہ میں لے گا، تو اُسے دودھ نہیں ملے گا اور نپل بھی زخمی ہوجائے گا اور پھر یہ سمجھا جائے گا کہ دودھ کی کمی ہے، حالاں کہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ دودھ پلانے کا طریقہ درست نہیں ہوتا۔
عموماً اگر طریقہ درست ہو، تو ماں کے دودھ میں کمی نہیں ہوتی۔٭ پیدائش کے وقت بچّے کا وزن کم ہو، تو اُسے کم وقفے سے دودھ پلانا ضروری ہوتا ہے تاکہ اُس کا وزن نارمل ہوسکے۔ ایسے بچّے کو ہر دو گھنٹے بعد تقریباً15سے 20 منٹ تک درست طریقے سے ساتھ لگائیں۔ اگر کم زوری سے بچّہ جلد تھک جائے، تو دودھ نکال کر، نکلا ہوا دودھ چمچ یا ڈراپر کے ذریعے بھی پلایا جاسکتا ہے، جب کہ بریسٹ پمپ سے بھی دودھ نکالا جاسکتا ہے،(جب تک کہ بچّہ مکمل طور پر خود دودھ پینے کے قابل نہ ہوجائے)۔٭دودھ دونوں طرف سے باری باری پلایا جائے، جب تک ایک طرف سے دودھ خالی نہ ہوجائے، سائیڈ نہ بدلی جائے۔
کم زور بچّے کے لیے اپنی ماں کا دودھ اور بھی ضروری ہے، اِس لیے ماؤں کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ یہ دودھ ضائع نہ ہو۔ ماں اپنے بچّے کے لیے جو محنت کرے گی، اِن شاء اللہ اُس کا اجر اللہ کے ہاں ضرور پائے گی۔یاد رہے، جڑواں بچّوں کے لیے بھی ماں کا دودھ کافی ہوتا ہے کہ اللہ سب کو روزی دینے والا ہے۔ وہ خالق ومالک پتّھر میں کیڑے کو بھی رزق دیتا ہے، تو ہر بچّے کی خوراک بھی اِسی طرح اُس کے ساتھ اترتی ہے۔
ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ بچّے کی تربیت و پرورش ماں کے پیٹ سے شروع ہوجاتی ہے اور جب ماں بچّے کو دودھ پلاتی ہے، تو اُس کے جذبات، مزاج، خیالات بھی بچّے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اِسی لیے صحابیاتِ کرامؓ اپنے بچّوں کو باوضو ہوکر دودھ پلاتیں اور اِس دوران مسلسل ذکر و تلاوت کرتی رہتیں اور تب ہی اُن کی تربیت، اور اُن کی گودوں میں پلنے والے بچّے انسانیت کے روشن ستارے بنے۔
آج کے والدین کو بھی اِن باتوں کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ گھر کے ماحول کو مِل جُل کر پُرسکون رکھیں، پھر گھرانے کے باقی افراد کا بھی فرض ہے کہ وہ ماؤں کو سہولت اور وقت دیں تاکہ وہ نومولود کو پوری توجّہ دے سکیں۔ علاوہ ازیں، ماں خود بھی اور دیگر افراد بھی ماں کی خوراک کا خاص خیال رکھیں۔ آج پوری دنیا میں ماں کے دودھ کی افادیت کے پیشِ نظر ماؤں کو سہولتیں دی جا رہی ہیں، جب کہ ہمیں تو ساڑھے 14 سوسال پہلے ہی یہ اہمیت قرآنِ پاک اور نبی کریمﷺ نے سمجھا دی تھی۔
دودھ پلانے والی ماں کی خوراک
دودھ پلانے والی ماں کو اضافی حراروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ماں اور بچّے، دونوں کو بھرپور توانائی مل سکے، خصوصاً پہلے چھے ماہ میں جب کہ بچّہ صرف ماں کے دودھ پر ہوتا ہے، ماں کو خصوصی توجّہ دینی چاہیے۔اِس دوران ماں کو تقریباً500حرارے خوراک سے ملنے چاہئیں، جو اضافی لحمیات، چکنائی، دودھ سے پورے کیے جائیں۔ اس کے ساتھ اضافی کیلشیم، آئرن، فولک ایسڈ اور وٹامنز کی ضرورت بھی بڑھ جاتی ہے۔
بہتر تو یہی ہے کہ مائیں حمل کے دَوران ہی متوازن خوراک کا استعمال شروع کردیں، جس میں تازہ سبزیاں، پھل، گوشت/قیمہ، مچھلی(موسم کے مطابق)، دالیں، دودھ اور دودھ سے بنی اشیا شامل ہوں۔ کھانوں کے درمیان وقفہ کم ہو اور دن میں7/8مرتبہ کھانا، کھانا چاہیے۔ ایک دن کی خوراک کا شیڈول درج ذیل ہوسکتا ہے۔
* صبح 7 بجے ناشتا: انڈا، پراٹھا/ روٹی، دودھ۔
* 10:30بجے: شربت یا چائے، ساتھ میں بسکٹ، پنجیری، سینڈوچ وغیرہ۔
* ایک بجے دوپہر: دوپہر کا کھانا، گھر میں بنا ہوا کھانا پیٹ بَھر کر کھائیں (روٹی، سالن، چاول، دہی، سلاد)۔
* 4 بجے شام: دودھ یا چائے کے ساتھ حلوہ/بسکٹ یا ہلکی غذا، پھل یا شربت بھی لے سکتی ہیں۔
* 7 بجے، رات کا کھانا :گھر میں بنی ہوئی غذا دوپہر کی طرح پیٹ بَھر کرلیں۔
* 10بجے رات: دودھ کا گلاس۔
نیز، بستر کے قریب خشک بسکٹ، پھل، کھجور یا خشک میوہ جات ضرور رکھیں کہ چھوٹا بچّہ رات کو بھی دودھ پیتا ہے اور ماں کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔اچھی خوراک کے ساتھ ہلکی پُھلکی ورزش بھی کریں تاکہ صحت مند اور چاق چوبند رہیں۔ نیز، اپنی ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کریں اور تجویز کردہ ادویہ باقاعدگی سے لیں۔
جو بچّے ماں کے دودھ سے محروم رہیں، وہ بیماریوں اور غذائی قلّت کا جلد شکار ہوتے ہیں، اِس لیے حتی الامکان ڈبّے کے دودھ سے بچنا ضروری ہے۔ ماں کا دودھ اللہ کا انعام اور نوزائیدہ بچّے کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے، جس میں ماں، بچّے اور نتیجتاً پوری قوم کے لیے خیر ہی خیر ہے، لہٰذا گھروں اور اداروں میں ایسے انتظامات ہونے چاہئیں کہ مائیں اپنے بچّوں کو سہولت سے دودھ پلا سکیں، جب کہ قومی سطح پر ایسے قوانین وضع کرنے ضروری ہیں کہ جہاں بھی خواتین ملازمت کریں، وہاں چھوٹے بچّوں کے لیے ڈے کیئر سینٹرز ہوں اور خواتین کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے بچّوں کو آرام و سکون سے دودھ پلاسکیں، کیوں کہ جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر صحت مند بچّے ہی بعدازاں ایک صحت مند قوم کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
(ڈاکٹر فلزہ آفاق، فاطمہ جناح میڈیکل یونی ورسٹی، لاہور کے شعبہ کمیونٹی میڈیسن میں تدریسی خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کی سابق مرکزی صدر اور حالیہ رُکن سینٹرل ایگزیکٹیو کاؤنسل ہیں، جب کہ ڈاکٹر نوید بٹ، معروف ماہرِ امراضِ اطفال ہیں اور رازی اسپتال راول پنڈی میں سربراہ، شعبۂ امراضِ اطفال کے طور پر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ قبل ازیں، پولی کلینک اسپتال، اسلام آباد سے بھی وابستہ رہیں، جب کہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) خواتین وِنگ کی سابق مرکزی صدر ہیں)