• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 2413سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ 399قبل مسیح یونان کے قدیم شہر ایتھنز کے ایک عقوبت خانے میں قید ایک 71 سالہ بوڑھے شخص کو یہ کہہ کر زہر کا پیالہ ہاتھ میں تھمایا جاتا ہے کہ عدالت کے فیصلے کے مطابق اس کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جارہا ہے ۔ وہ بوڑھا خود اپنے ہاتھوں سے نہ صرف زہر پی لیتا ہے بلکہ عدالت کے حکم کے مطابق زہر پینے کے بعد بھی وہ سوتا نہیں ہے اور کال کوٹھڑی میں اس وقت تک چلتا رہتا ہے ، جب تک اس کی ٹانگیں اس کا ساتھ نہیں چھوڑ دیتی ہیں ۔ بالآخر وہ زمین پر گرتا ہے ۔ جلاد اس کا جسم سیدھا کرتا ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں مضبوطی سے پکڑ کر اس پر بیٹھ جاتا ہے تاکہ وہ تڑپ نہ سکے ۔
اس کا ایک دولت مند دوست ’’ کرائٹو ‘‘ ساتھ کھڑا یہ منظر خاموشی سے دیکھ رہا ہوتا ہے کیونکہ اس بوڑھے شخص نے اسے پہلے ہی کسی قسم کی مداخلت سے روک دیا تھا ۔ مرتے وقت وہ بوڑھا شخص کرائٹو سے آخری بات کرتا ہے کہ ’’ ہم نے شفا دینے والے دیوتا پر ایک مرغے کی قربانی دی تھی ۔ اس کا قرضہ ادا کرنا نہیں بھولیے گا ۔ ‘‘ یہ بات کہہ کر وہ بوڑھا ابدی نیند سو جاتا ہے اور اسی لمحے وہ ریاست اور شہریوں کے درمیان ’’ سماجی معاہدے ‘‘ کے تحفظ کے لیے عظیم قربانی دینے والوں کا ایک تاریخی استعارہ بن جاتا ہے ۔ یہ بوڑھا شخص یونان کا عظیم فلسفی سقراط تھا ۔ ریاست کے قانون یعنی سماجی معاہدے کے تحت عدالتوں کے فیصلے پر سزائیں ہوتی ہیں اور لوگ قبول بھی کرتے ہیں لیکن سقراط اس لیے سقراط بنا کہ انہیں فرار کا پورا موقع موجود تھا لیکن اس نے انکار کردیا ۔ ان کے دولت مند دوست کرائٹو نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنی جان بچا کر چلے جائیں ۔ اس موقع پر سقراط اور کرائٹو کے درمیان جو مکالمہ ہوا ، وہ ریاست کے سماجی معاہدے کی تھیوری کا قدیم ترین بیان تصور کیا جاتا ہے ۔ سقراط کا کہنا یہ تھا کہ میرا ایک شہری کی حیثیت سے ایک سماجی معاہدہ ہے ، جو قوانین کا مجموعہ ہے ۔ یہ قوانین کہتے ہیں کہ شہریوں کو ریاست سے تعلق میں اس طرح ساتھ نبھانا چاہئے ، جس طرح بچے اپنے والدین کا اور غلام اپنے آقا کا ساتھ نبھاتا ہے ۔ یہ معاہدہ ایک میثاق ہے ، جس کے ذریعے میں اس شہر (ریاست ) میں رہا ، اس سے فائدہ اٹھایا ، یہیں اپنی زندگی گذاری اور اپنے بچوں کو جوان کیا ۔ اب میں یہ میثاق اس لیے نہیں توڑ سکتا کہ میرے ساتھ غیر منصفانہ فیصلہ ہوا ہے ۔ یہ فرار موت کے خوف کا اظہار ہو گا ، جو ایک سچے انسان میں نہیں ہونا چاہئے ۔ اگر میں ایتھنز سے فرار حاصل کر لیتا ہوں تو دوسرے ملک میں بیٹھ کر میری باتوں اور تعلیمات میں کوئی اثر نہیں رہے گا اور میں دوسروں پر تنقید بھی نہیں کر سکوں گا ۔ سقراط نے بھاگ جانے کی تجویز یہ کہہ کر مسترد کردی کہ وہ زندگی کا سب سے ناتواں اور باعث بوجھ حصہ ہی تیاگ رہا ہے ۔ آج کے کچھ مفکرین سقراط پر اعتراض کرتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ریاست تو طاقت ور لوگوں کا آلہ کار ہوتی ہے ، سقراط کو یہ فرمانبرداری نہیں کرنی چاہئے تھی ۔ سقراط اور کرائٹو کے مکالمے میں بھی یہ بات ہوئی تھی اور سقراط نے اپنے دلائل سے یہ ثابت کیا تھا کہ ریاست طاقت ور لوگوں کے جرائم کا تحفظ کرتی ہے لیکن ریاست کو مجبور کیا جانا چاہئے کہ وہ سب کو سماجی معاہدے یعنی آئین اور قانون کا پابند کرے ۔ شاید سقراط کی اس قربانی کی وجہ سے آئین اور قوانین کو مقدس تصور کیا جاتا ہے اور ان پر عمل نہ کرنے والی ریاستوں کی بقول شخصے ’’ روح بھی تاریک ہو جاتی ہے ۔ ‘‘ سقراط کا یہ واقعہ اس لیے یاد آیا ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایک 71 سالہ ’’ نوجوان ‘‘ جنرل (ر) پرویز مشرف کو بھی یہی صورت حال درپیش ہے ، جو 2413سال پہلے سقراط کو درپیش تھی ۔ سقراط نے ’’ سب سے پہلے ایتھنز ‘‘ کا نعرہ نہیں لگایا تھا لیکن اس ایتھنز کے آئین اور قانون کے تحفظ کے لیے جان قربان کردی ، جس آئین اور قانون کو وہاں کے حکمران مذاق سمجھتے تھے حالانکہ اسپارٹا نے 27 سال تک ایتھنز کے خلاف پیلو پونیشیائی جنگ میں ایتھنز کو تباہ و برباد کردیا تھا اور وہاں بھوک ، افلاس ، بیماریوں اور بدنظمی میں ایک پوری نسل پروان چڑھ چکی تھی ۔ لوٹ مار اور نا انصافی عروج پر تھی اور حالات موجودہ پاکستان جیسے تھے لیکن ہمارے پرویز مشرف تو اس سماجی معاہدے ( آئین ) کو توڑنے کے ملزم ہیں ، جس کی وجہ سے لوگ کسی ریاست یا ملک کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں ۔ ان کے دوست بھی انہیں بھاگ جانے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن وہ دوستوں پر اس لیے ناراض ہیں کہ وہ ابھی تک انہیں بھاگ جانے کا موقع فراہم کرنے میں ناکام ہیں ۔ پرویز مشرف نے عدالت میں پیش ہونے کے بجائے فوجی اسپتال میں جاکر پناہ لے لی ہے ۔ پرویز مشرف اس آئین کی پاسداری کیوں کریں گے ، جسے انہوں نے خود توڑا تھا ۔ عدالت آتے ہوئے پرویز مشرف کے سینے میں درد اٹھنے کی خبریں جب آ رہی تھیں تو میں فیس بک پر ایک تصویر دیکھ رہا تھا ، جس میں نواب نوروز خان بلوچ شہید پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کے گھیرے میں ایک عدالت میں پیشی پر آرہے ہیں ۔ پرویز مشرف کے رویہ کے تناظر میں نوروز خان مجھے اور زیادہ بہادر اور با وقار نظر آئے ۔ نوروز خان نے لیفٹننٹ کرنل ٹکا خان کی طرف سے قرآن اٹھا لینے کے بعد یقین کرلیا تھا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا اور انہوں نے پاکستان کی ریاست اور آئین سے وفاداری کی حامی بھر لی تھی ۔ ٹکا خان قرآن پر لیے گئے حلف سے مکر گئے لیکن نوروز خان نے دوبارہ پاکستانی ریاست سے بغاوت نہیں کی اور اپنے بچوں اور ساتھیوں کے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں دھوکے سے مارے جانے کے سخت صدمے کے باوجود کبھی کوہلو جیل سے باہر آنے کی درخواست نہیں کی اور جیل میں ہی شہید ہوگئے ۔ پرویز مشرف کے رویے کو دیکھ کر سابق صدر آصف علی زرداری پہلے سے زیادہ بلند قامت نظر آئے ، جب وہ خود احتساب عدالت میں پیش ہوگئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو تو اپنے عہد کے سقراط تھے ۔ دیگر لوگوں کی طرح مجھے بھی یقین ہے کہ پرویز مشرف پاکستان سے فرار ہو جائیں گے لیکن یہ بات ضرور مد نظر رہنی چاہئے کہ پاکستان کے لوگوں کو پہلے سے زیادہ اس بات کا احساس ہو گا کہ ریاست ان طاقت ور لوگوں کی محافظ ہے ، جو آئین اور قانون کو تسلیم نہیں کرتے ہیں ، جو ریاست اور شہریوں کے درمیان سماجی معاہدہ ہوتا ہے ۔ خاص طور پر پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے عوام کے اس خیال کو تقویت ملے گی ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کے طاقت ور لوگ کوئی اور نہیں ہیں بلکہ ایک یا دو نسلی اور لسانی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ چھوٹے صوبوں کے لوگوں میں یہ بھی احساس پیدا ہو رہا ہے کہ پاکستان خصوصاً تین چھوٹے صوبوں میں آئین اور قانون کی بجائے دہشت گردوں کی عمل داری کیوں قائم ہے ۔ یا تو پرویز مشرف پر مقدمہ قائم نہیں کیا جاتا یا پھر ریاست اور اس کے اداروں کی رہی سہی ساکھ کا خیال رکھا جائے ۔ ہر عہد میں سقراط موجود ہوتے ہیں اور سقراط کی روایت سے باغی نہ صرف ریاست کا باغی ہوتا ہے بلکہ وہ اور اسے رعایت دینے والے تاریخ میں مطعون بھی ہوتے ہیں ۔
تازہ ترین