کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز پروگرام ” جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین پرویز خٹک نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں سے پوچھتے تک نہیں تھے، ہمیں الیکشن کرانے کے4مواقع ملے، الیکشن کے چاروں مواقع ضائع کئے گئے چیئرمین پی ٹی آئی نہیں مان رہے تھے، شہزاد اکبر نے کابینہ کو بتایا کہ منی لانڈرنگ کے پیسے پکڑے گئےہیں.
چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی حکومت خود ختم کی، پی ٹی آئی کے پاس معیشت بہتر کرنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا، سائفر کے معاملے پر کئی میٹنگز ہوئیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے اعظم خان کو کہا تھا کہ انہیں میری بات نہیں ماننی، اعظم خان کے ساتھ ذاتی اختلاف نہیں تھا.
چیئرمین پی ٹی آئی نہیں چاہتےتھے کہ انکے علاوہ کوئی دوسرا شخص لیڈر بن جائے، فیصلے چیئرمین پی ٹی آئی خود کرتے تھے،9 مئی کو پی ٹی آئی کے لوگوں نے حملے کئے، پی ٹی آئی کے سینئر لوگ اس ڈرامے میں شامل نہیں تھے، چیئرمین پی ٹی آئی ٹیم بناتے تھے مگر اس ٹیم کو کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا، کئی مرتبہ کہا تھا کہ الیکشن کی طرف جانا چاہئے کیوں کہ آگے اندھیرا نظر آرہا ہے.
چیئرمین پی ٹی آئی اسلام آباد سے بیٹھ کر ملک چلانا چاہتے تھے،9 مئی واقعات کے بعد 20 دن چھپا رہا،9 مئی واقعات کے بعد عجیب ماحول بنایا گیا، پی ٹی آئی کے ایم این ایز ناراض تھے ان سے کوئی پوچھتا تک نہیں تھا، چیئرمین پی ٹی آئی کو کٹھ پتلی وزیراعلیٰ چاہیےتھاجو میں نہیں تھا،مجھے وزیراعلیٰ نہ بنانےکی 2وجوہات تھیں، میرے دل میں بہت ساری باتیں ہیں میں نہیں کرنا چاہتا.
الیکشن کرانے کے چار موقع ضائع کئے کیونکہ خان صاحب مانتے نہیں تھے، ہم اس سوچ سے پارٹی چلا رہے تھے کہ نیا پاکستان بنے گا ہم نے محنت کی لیکن اس کا صلہ دیا گیا نہ پوچھا گیا، کئی دفعہ پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے اورلوگوں کو سہولت دینے کی کوشش کی لیکن کسی کا ارادہ نہیں تھا، پروگرام کی تفصیل یوں ہے۔
سلیم صافی… پرویز خٹک کے آنے کے بعد پختونخوا میں پی ٹی آئی کو ایک نئی زندگی ملی لیکن اب معاملات اس نہج پر پہنچ گئے کہ ان کے اور پی ٹی آئی کے راستے جدا ہوگئے۔ انہوں نے ایک الگ جماعت تشکیل دے دی ہے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین۔ آپ نے کیوں اس مشکل وقت میں تحریک انصاف کو چھوڑ کر اپنا الگ دھڑا بنا لیا؟
پرویز خٹک…بہت سوچ کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے بارہ سال میں نے ایمانداری سے تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ کام کیا محنت کی پارٹی کو اٹھایا صوبائی صدر بھی رہا۔ جتنا مجھ سے ہوسکتا ہے میں نے کیا۔ ہم نے سارا وقت محنت اس لئے کی کہ اس میں جمہوریت ہو ملک میں انتشار نہ ہو پرامن ملک چلے اور ملک ترقی کرے۔ ہم اس سوچ سے پارٹی چلا رہے تھے کہ تحریک انصاف آئے گی اور تبدیلی آئے گی نیا پاکستان بنے گا لیکن جو پانچ سال ہم نے محنت کی اس کا صلہ دیا گیا نہ پوچھا گیا پھر وہ چیزیں جو ہم نے نافذ کیں وہ پنجاب میں نہیں کرسکے ارادے نہیں تھے کئی دفعہ میں نے کوشش کی پنجاب پولیس ٹھیک کریں ریفارمز کریں رشوت کو کنٹرول کریں عام لوگوں کو سہولت دیں لیکن کسی کا ارادہ نہیں تھا پھر جب نو مئی کے واقعات آئے تو عجیب سا ماحول بن گیا.
نو مئی کو جو ہوا اس کے بعد میں بیس دن چھپا رہا تو میں نے پوری ریل واپس چلائی کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا ہم تو اس لئے نہیں آئے تھے کہ ہم اس ملک میں انتشار پھیلائیں اپنے اداروں پر حملہ کریں فوج کے ساتھ دشمنی بنائیں یہ ہماری سوچ نہیں تھی۔
سلیم صافی… وہ یہ کہتے ہیں یہ ہم نے نہیں کیا بلکہ یہ ایک سازش تھی ہمیں بدنام کرنے کی، آپ کی معلومات کیا ہیں یہ پی ٹی آئی کا منصوبہ تھا یا کہ کسی اور کی سازش تھی۔
پرویز خٹک… میرے دل میں بہت ساری باتیں ہیں میں نہیں کرنا چاہتا حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جو لائن دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ ہم لوگوں کو بلاتے تھے ان کو یہ بھی ہم نے کہا پرامن احتجاج ہوگا کوئی توڑ پھوڑ نہیں کرنی لیکن ایک اور ٹیم بنی تھی جو ہماری نظر میں نہیں تھی ان کو کوئی اور ہدایات دی تھیں اس دن ہم نے احتجاج کی کال دی اور پرامن احتجاج کی کال تھی لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ کوئی کہے کہ ہمارے سینئر لیڈرز آئے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا کہ اس دن یہ جاکر یہاں ان تنصیبات پر حملہ کریں گے اس پر مجھے بہت دکھ ہے۔
سلیم صافی… آپ اس علاقے کے ہیں اگر دیر کے لوگوں نے احتجاج کرنا ہو تو وہ تمرگرہ میں جمع ہوتے ہیں نہ کہ تمرگرہ سے شروع ہو کر تو وہ چکدرہ کی طرف آئے چکدرہ میں آبادی تو اتنی نہیں ہے لیکن وہاں پر فوجی علاقہ ہے۔
پرویز خٹک… ساری باتیں یہی ہیں جو میں نے شروع میں پارٹی بنائی میں نے یہ سوال چھوڑا پاکستانی عوام پر کہ یہ کیوں ہوا ایسے ہمیں چار موقع ملے اس ملک میں الیکشن کرانے کے جمہوری پارٹی ہمیشہ چاہتی ہے الیکشن کرے۔
الیکشن ہوچکے ہوتے وزیراعظم بن چکا ہوتا ملک چل رہا ہوتا تھا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن وہ چار موقع ہم نے ضائع کئے کیوں کہ خان صاحب مانتے نہیں تھے۔ بڑی آسان آسان شرائط پر شرائط بھی کوئی نہیں تھیں کہ صرف ادھر سے ادھر کردو وہ انہوں نے نہیں مانے،
سلیم صافی… یہ حکومت کی تحلیل کے بعد آپ کی جو حکومتی ٹیم سے مذاکرات ہوئے،
پرویز خٹک… حکومتی ٹیم سے مذاکرات ہوئے باجوہ صاحب نے کئی دفعہ کمٹمنٹ کی، ایک دفعہ حکومت میں تھے ہمیں موقع ملا کہ علیم خان کو وزیراعلیٰ بنایا جائے تو حکومت نہیں جائے گی۔ جس طرح دو دفعہ آخری انہوں نے کہا کہ جولائی میں الیکشن کرانے کو تیار ہیں اور وہ سنجیدہ تھے لیکن خان صاحب نہیں مانے وہ اگر مان جاتے تو نو مئی والا واقعہ نہ ہوتا اس کا میں نے قوم پر چھوڑا ہے خود سوچیں کیوں۔ ہم جمہوری لوگ ہیں ہم الیکشن کریں الیکشن کے بعد جو قانون سازی کرنی ہے وہ کریں میں تو کئی دفعہ کہتا رہا یہ الیکشن پر چلیں الیکشن تک جائیں کیوں کہ آگے مجھے اندھیرا نظر آرہا ہے۔ لیکن مجھے سمجھ آئی بعد میں جب میں نے بیس دن اکیلے سوچا میں نے ریل ریورس کی یہ ہوا کیا ہے ہمیں تو پورا،
سلیم صافی… اگر الیکشن ان کی طرف سے دیا جارہا تھا تو آج کوئی کرائسس نہیں ہوتا۔ عمران خان آپ لوگوں کو بھیج بھی دیتے تھے پھر فیصلہ کیوں نہیں مانتے تھے پھر ان کو کون منع کرتا تھا؟۔
پرویز خٹک… یہی تو پرابلم ہے، ہمیں کئی دفعہ سمجھ نہیں آتی تھی فیصلہ ہوجاتا تھا ایگری ہوجاتے فیصلہ بدل جاتا تھا ہم خود پریشان تھے ہم نے کئی دفعہ کہا کہ ہماری حیثیت ختم کرا رہے ہیں پارٹی میں کیوں کہ وہ اعتماد ختم ہوجاتا ہے میں آپ سے بیٹھ کر فیصلہ کرتا ہوں جاتا ہوں انکاری ہوجاتے ہیں تو ہماری حیثیت بھی ختم کردی تھی تو یہ صورتحال، ہوسکتا ہے عمران خان کی ایک اپنی سوچ ہو کہ میں نے کیا کرنا ہے۔
کسی پارٹی کے سینئر عہدیدار کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ کسی نے خان صاحب کو تجویز دی ہے فیصلہ وہ خود کرتے ہیں سنتے ہیں ایگری کرتے ہیں لیکن فیصلہ اس کی مرضی کا پھر ہم صبح تڑپتے رہیں جو مرضی کریں فیصلہ انہوں نے خود کیا ہے جو کچھ کیا ہے خود کیا ہے۔