• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ کی لاپروائی سے…

شمارے میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ موجود تھا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے آن لائن فراڈیوں سے ہوش یار کیا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں نسیم حمید یوسف زئی نے انسپکٹر جنرل پولیس، بلوچستان عبدالخالق شیخ سے مِلوایا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا سوڈان کے واقعات کے پس منظر میں پاکستان کے حالات کا تجزیہ کر رہے تھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ارشد حسین نے نرسز کو ہمارا مستقبل قرار دیا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا تو دہلی سے خُوب گھوم پھر کر آگئے، مگر ہمیں دہلی ہی میں چھوڑآئے ہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں اُمِ ایمان نے ’’دل کی عید‘‘ کے عنوان سے خُوب صُورت افسانہ لکھا، توحرا بنتِ حمیدہ نے ’’شام کی چائے‘‘ کے ساتھ خُوب انصاف کیا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط شامل نہیں تھا، تو کچھ خاص اچھا محسوس نہیں ہوا۔ اگلے شمارے میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے نئےسلسلے’’قصص القرآن‘‘ کا آغاز ’’اصحابِ کہف‘‘ سے ہوا۔ 

پہلی ہی قسط بہت دل چسپ اورمعلوماتی تھی، تو دوسری قسط کا انتظار بہت شدّت سے کیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ سے متعلق تجزیہ لاجواب تھا۔ ’’مدرز ڈے‘‘ کے موقعے پر شفق رفیع نے زبردست مضمون تحریر کیا، جس میں کچھ مائوں کے حالاتِ زندگی بھی بیان کیے، اِسی طرح مائوں کے عالمی یوم ہی کے حوالے سے ’’پیارا گھر‘‘ میں عندلیب زہرا، اقصٰی منوّر ملک، نورالعین وقاص اور ثروت اقبال کی تحریریں شامل تھیں۔ ایڈیٹر صاحبہ نے دردانہ رحمٰن اوراُن کی بیٹی ماہم سے ایک بہت شان دار، دل چُھولینےوالاانٹرویو بھی لیا۔’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے اسٹیفن ہاکنگ کا تفصیلی تعارف کروایا، واقعی وہ بڑے حیرت انگیز انسان تھے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر علائو الدین کاکڑنے موٹاپے سے خُوب ڈرایا، توڈاکٹر ایم صابر سکندری نے پیٹ درد کومعمولی نہ سمجھنے کا مشورہ دیا۔ 

’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’جمعے والی میڈم‘‘ افسانہ کچھ خاص سمجھ نہیں آیا، البتہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں رضوان الحق اور رضیہ بانو کے واقعات درد انگیز تھے۔ اگلے جریدے کے ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور مرزا پٹری تبدیل کرتےنظرآئے۔’’متفرق‘‘میں ڈاکٹر ناظر محمودنے فرانسیسی فلمی ہدایت کار، گوداغ کاتعارف کروایا۔ اوراب بات،’’آپ کا صفحہ‘‘ کی۔ آپ نے خطوط کے حوالے سے جو بات کی ہے، تو وہ آپ کی غلطی سے جمع ہو کر گڈمڈ ہو جاتے ہیں، مطلب یہ آپ کی لاپروائی ہے۔ جو خط پہلے آئے، وہی پہلے شائع بھی ہونا چاہیے۔ یہ جو کئی خطوط آگے پیچھے یا مکس کرکےشایع کیے جاتے ہیں، تواس طرح درحقیقت آپ ہمارے ساتھ زیادتی کی مرتکب ہوتی ہیں۔ پلیز، آپ اپنا طریقۂ کار بہترکریں، خادم ملک کا ذکر کرکے تو آپ نے خوش گوارحیرت میں ڈال دیا۔اب ایک فرمائش بھی نوٹ کرلیں۔ اکبرالہ آبادی پرایک تفصیلی مضمون شایع کریں اورعافیہ صدیقی پر بھی ایک رپورٹ تیار کرنے کا وعدہ کیا تھا، اُس کا کیا ہوا؟ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج:ایکسکیوزمی… یہ جو آپ نے خادم ملک سے متاثر ہوتے ہوتے، اُن ہی کا لٹھ ماراندازِ گفتگو اپنانے کی کوشش کی، یہ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھایا۔ اِس ایک ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی تیاری، ترتیب و تزئین و آرایش میں ہماری جتنی توانائی خرچ ہوتی ہےناں، اُتنی پورا جریدہ تیار کرنے میں نہیں ہوتی۔ آپ نے کیسے اتنے وثوق سے کہہ دیا کہ خطوط کےترتیب وارشایع نہ ہونےمیں ہماری کوئی لاپروائی شامل ہے۔ ارے بھئی، اگرکوئی شخص کسی شمارے پرچار ہفتے بعد تبصرہ لکھ کربھیج رہا ہے یا کوئی تبصرہ لکھ کر اپنے پاس سنبھالے بیٹھا ہے، اور چھے ماہ بعد یاد آنے پرپوسٹ کر رہا ہے، تواس میں بھلا ہماراکیادوش۔ ہم نامہ نگارپرکیس کردیں یا اُس کے گھرپہ دھاوا بول دیں۔ اورآپ کے ایک سے انداز کے طول طویل خطوط ایڈٹ اور مِکس کرکے نہ شایع کیے جائیں، تو یہ پوراصفحہ توصرف آپ ہی کے لیے مختص ہو جائے۔سو،آپ اپنےقیمتی مشورے سنبھالے رکھیں۔ ہم اس صفحے کو جس قدر بہتراور متوازن کرکے شایع کر سکتے ہیں، کررہے ہیں۔

گنگا نہائے ہوئے ہیں؟؟

’’پسند اپنی اپنی‘‘ کے مصداق ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میرا پسندیدہ ترین صفحہ ہے۔ بھارت میں پاکستانی ینگ مین کی کشمیر پر دُہائی نے بہت لُطف دیا۔ شفق رفیع نے گھریلو اور ملازم پیشہ مائوں کے خیالات و تاثرات پر مبنی ایک بہترین رپورٹ تیار کی۔ اسٹیفن ہاکنگ، پلکوں سے بولنے والے دنیا کے واحد شخص سے متعلق تحریر بھی لاجواب تھی۔ اخترسعیدی کے کُتب پر تبصرے بے مثال ہوتے ہے۔ اوریہ شہزادہ بشیرنقش بندی صفحےکا ایک تہائی حصّہ کیوں لے گئے، یہ کیا گنگا نہائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ جریدے میں ایک لکھاری نے ضرب الامثال، کہاوتوں سے دل چسپی ظاہر کی تھی۔ سو، پیشِ خدمت ہیں۔ سوسُنار کی، ایک لوہار کی۔ اوکھلی میں سردیا، توموسلوں کا کیا ڈر۔ تیل دیکھو اور تیل کی دھاردیکھو۔ یہ منہ اور مسور کی دال۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل و ضلع کوٹ ادّو)

ج:’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کے لیے نسبتاً طویل خطوط کی اشاعت کی رعایت دی جاتی ہے اور یہ طرزِ عمل آج سے نہیں، شروع ہی سے ہے، لیکن اب سوچ رہے ہیں، کیوں نہ گنگا نہانے ہی کی شرط عائد کردیں۔ شیطان کی آنت سی چٹھیوں کی تعداد کچھ تو کم ہوگی۔

فون نمبرز کی اشاعت

آندھیوں کے دشت میں دارالاماں ہے میری ماں… تازہ پُھولوں کا مہکتا گلستاں ہے میری ماں‘‘۔ اُمید ہے، خیریت سے ہوگی، مائوں کے عالمی دن پر دردانہ رحمٰن کا انٹرویو، آنسوئوں کی جھڑی کے دوران دل پرہاتھ رکھ کرپڑھا اوراُن کےصبرو استقلال کوسلام پیش کیا۔ اکلوتےاورجان سے پیارے صاحب زادے کا اِس طرح قتل ہوجانا امن وامان کی صُورتِ حال پرتو سوالیہ نشان ہے، لیکن اِس غم کا کوئی مداوا بھی نہیں ہے،اورپھر تم نے اپنے مخصوص انداز میں جس خُوب صُورتی سے اُس دُکھ کو بیاں اور دُکھوں، غموں کی ماری ماں کے عزم و حوصلے کو عیاں کیا، اُس نے گویا ہزاروں دُکھی مائوں کے دِلوں پر صبر کا پھایا رکھ دیا۔ شفق رفیع نے ملازمت پیشہ مائوں سےسروے کرکے اور اُن کے مسائل اجاگرکرکےبڑا اہم کام کیا۔ 

اس مرتبہ ’’پیارا گھر‘‘ میں چاروں تحریروں کے پُراثر ہونے کے ساتھ ساتھ اہم بات اُن کا مختصر ہونا بھی تھا۔ رائومحمّد شاہد اقبال نے اسٹیفن ہاکنگ سے متعلق بڑی اہم معلومات شیئر کیں، تو ’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا نے بھی ایک حقیقت پسندانہ جائزہ پیش کیا۔ محمود میاں کی عرق ریزی کا عظیم شاہ کار، تاریخِ مدینہ منوّرہ پر مشتمل23 قسطوں پرمحیط بیش قیمت اور اَن مول دستاویز کا سفراختتام پذیر ہوا۔ اللہ تعالیٰ اِس کاوش پر آپ لوگوں کو بہترین صلے سے نوازے۔ کئی مرتبہ عُمرے پر جانا نصیب ہوا، لیکن مکّہ ومدینہ کی تاریخ نے میری طرح نہ جانے کتنے عاشقان کی خواہش کو مزید شدّت سے اُبھارا ہوگا۔ آخری بات، تم نے کتابوں کے تعارف کے ساتھ فون نمبرز شایع کرکے بڑا اہم کام کیا ہے، تمہارا بے حد شکریہ۔ (شاہدہ تبسم، ڈی ایچ اے، کراچی)

ج: جی ہاں ! قارئین کے بے حد اصرار پر، ادارے کی عمومی پالیسی کے برخلاف فون نمبرز کی اشاعت کا اہتمام کیا جارہا ہے۔

توّہم پرستی کے ریکارڈ

ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دوہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت کے صفحات موجود تھے۔ اور یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔ ’’آئینِ پاکستان کی تدوین وترامیم‘‘ بھی بے حد معلوماتی تحریر تھی۔ ’’گفتگو‘‘ میں اِس بار بہت ہی شان دار شخصیت، چیئرمین نادرا، طارق ملک سے ملاقات کروائی گئی۔ بلاشبہ، اُن کے دَور میں نادرا نے بے حد ترقی کی۔ یہ پڑھ کر بےحد حیرت ہوئی کہ رُوبوٹس تخلیقی صلاحیتوں کے حامل انسانوں سے زیادہ ذہن ہیں۔ تُرکیہ، تھائی لینڈ کے انتخابات کاتجزیہ بہترین تھا۔

مضمون ’’عالمی رہنمائوں کی توّہم پرستی، ضعیف الاعتقادی‘‘ بھی بہت ہی شان دار تھا۔ خیر سے ہمارے سابق حُکم ران نے تو توہّم پرستی کے اگلے، پچھلے سب ریکارڈہی توڑدئیے۔بین الاقوامی شہرت یافتہ خطّاط، نعت خواں نور محمّد جرال کا انٹرویو بھی لاجواب تھا۔ بلوچستان کے تاریخی شہر سبّی سے متعلق پڑھا، اُس کی گرمی کا تو پتا تھا، مگر ثقافتی وَرثہ ہونے کا نہیں۔ ایک شمارے میں ناچیز کا پیغام اور دوسرے میں ناچیز کا خط شامل تھا، بے حد شکریہ۔ کافی دِنوں سے اعتراض ملک کا کوئی خط شامل نہیں ہورہا،کہیں خدانخواستہ برسرِروزگار تو نہیں ہوگئے؟ ویسے اگرآپ کے یہاں کوئی جگہ خالی ہو، توآپ ہی اُن کی بے روزگاری ختم کردیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادرشاہ بازار، بہاول نگر)

ج: پرنس آپ ہیں اور ملازمت پرہم رکھ لیں۔ اور رکھ بھی کہاں لیں، جہاں سب کو خُود اپنی نوکریوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اوریوں بھی اُن کو اپنے ہاں ملازمت پررکھنے کا تو سیدھا سیدھا مطلب ’’آبیل مجھے مار‘‘ ہی ہوگا۔

شمارہ نہ مل سکا

شمارہ پڑھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا سلسلہ انتہائی قابلِ قدر ہے۔ ’’حالات وواقعات‘‘ بھی سیر حاصل مضمون تھا۔ ’’مدرزڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع نے ملازمت پیشہ مائوں سے بڑے دردمندانہ انداز میں بات کی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ اور ’’پیارا گھر‘‘ لاجواب تحریروں سے مزیّن تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر دردانہ رحمٰن کے انٹرویو نے تو رُلا ہی دیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے دونوں مضامین معلوماتی تھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ اور’’ ناقابلِ فراموش‘‘ تو ہمیشہ سے پسندیدہ سلسلے ہیں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں کُتب کا تعارف بہت خُوب ہوتا ہے۔ مَیں نے تبصرہ پڑھ کر ہی کتاب ’’اقبال اور اصحابِ رسولﷺ‘‘ آرڈر کر کے لاہور سے منگوائی اور اب مطالعہ جاری ہے۔ پچھلا شمارہ یہاں اتوار کے اخبارات کے جلد ختم ہونے کی وجہ سے نہیں خرید سکاتھا۔ بعد ازاں، ’’نیٹ ایڈیشن‘‘ سے استفادہ کیا، تو میرا خط بمع جواب موجود تھا، بے حد و بےحساب شکریہ۔ (محمّد عثمان، شاہ پور چاکر)

ج: ارے واہ! شاہ پور چاکر میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کی اتنی مقبولیت…؟؟ آپ کو جریدہ نہ ملنے کا افسوس ہے، مگر ہمیں جریدے کی پاپولیریٹی کا پڑھ کے بےحد خُوشی ہوئی۔

ماڈلنگ کا مقصد؟

سنڈے میگزین میں ماڈلنگ شائع نہ کیا کریں۔ آخر یہ ماڈلنگ شائع کرنے کا مقصد کیا ہے۔ میگزین خواتین کی ماڈلنگ کے بغیر بھی تو چل سکتا ہے۔ جس طرح مڈویک میگزین ماڈلنگ کے بغیر انتہائی کام یابی کے ساتھ ایک طویل عرصے تک چلتا رہا۔ آپ خُود ہی کہتی ہیں کہ ہماری رائے آپ کے لیے مقدّم ہے، تو اب رائے دے دی ہے، سواِسے مقدّم جانیں اور سنڈے میگزین سے خواتین کی ماڈلنگ فوراً ختم کریں۔ (نواب زادہ بے کارملک، سعید آباد، کراچی)

ج: ہا ہا ہا…دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، روبوٹس، پریس کانفرنسز کرنے لگے، مگر آپ آج بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں ’’یہ کیوں ہوگیا، وہ کیوں ہوگیا، اِسے بند کردیں، اُسے بند کر دیں‘‘ ماڈلنگ سے متعلق کوئی ہزار بار تو بتا چُکے کہ اِس کی اشاعت نہ ہمارا فیصلہ ہے، اور نہ عدم اشاعت ہمارا اختیار۔ مڈویک میگزین کو ماڈلنگ کے بغیر شایع کرنے کا فیصلہ بھی انتظامیہ کا تھا، اور سنڈے میگزین کو ماڈلنگ کے ساتھ شایع کرنے کا فیصلہ بھی انتظامیہ کا۔ مگر آپ نے کبھی کہیں ملازمت کی ہوتی، تو آپ کو اِن تمام مجبوریوں، پابندیوں کا کچھ اندازہ ہوتا ناں۔

                                    فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اُمید ہے، خیریت سے ہوں گی اور اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہی ہوں گی۔ سب سے پہلے تو آپ کا بے حد شکریہ کہ میرے خط اور تحریر کو میگزین میں جگہ دی، مزید یہ کہ آئندہ لکھنے کے لیے حوصلہ افزائی بھی کی۔ خط پہلےبھی لکھےتھے، مگربروقت پوسٹ نہ کرسکی اور اس دوران نئے میگزین شائع ہوگئے۔ بہرحال، اب4 جون کا شمارہ سامنے ہے۔ ’’اصحاب کہف‘‘ کے بعد ’’یاجوج ماجوج‘‘ بھی بہت عُمدگی سے لکھا گیا۔ ’’قصص القرآن‘‘، نیا سلسلہ واقعی سب کے لیے بہت ہی سُود مند اور معلوماتی ہے۔ پھر نجمی صاحب کا اندازِ تحریر بھی خاصا رواں دواں ہے۔

نیز، مورخین، مفسّرین کے اختلافات کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے، تو تحریر کچھ اور بھی مستند ٹھہرتی ہے۔ اسرار ایوبی نے محنت کشوں سے متعلق شان دار تحریر رقم کی۔ افسوس ناک امر ہے کہ سخت محنت کے بعد بھی مزدوروں کو طے کردہ اجرت بھی نہیں دی جاتی۔ سانحہ9مئی کے حوالے سے تحریر ’’اپنے ہی دل پروار‘‘ نے12 مئی کے واقعات کی یاد تازہ کردی، لیکن بلاشبہ یہ اُس سے بھی زیادہ شرم ناک سازش تھی، جوایک قومی ادارے بلکہ مُلک کے دفاع وسالمیت کے ذمّے داران کی پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کے مترادف تھی۔ 

ساری سیاسی وابستگیاں ایک طرف رکھ کرہم سب کو سوچنا چاہیے کہ ہم آخر کس سمت جا رہے ہیں؟ پوری دنیا نے جو واقعات اور مناظر اپنی اسکرینز پردیکھے، اُن سے ہمارا کیا امیج قائم ہوا ہوگا، کیا ہمارا مُلک اِن سب باتوں کا متحمّل ہوسکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ دلی آرزو ہے کہ آئندہ الیکشن میں کوئی بدعُنوان قیادت سامنے نہ آئےاور اِس سلسلے میں میڈیا، الیکشن کمیشن، فوج اور سول اسٹیبلشمنٹ کو اپنا درست کردار ادا کرنا چاہیے۔ ایلون مسک سے متعلق رائو محمّد شاہد اقبال کی تحریر بہت ہی دل چسپ تھی۔ حقیقت ہے کہ کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کے بچپن سے آگہی بڑی دل فریب معلوم ہوتی ہے۔

منورراجپوت کے مضمون ’’پلاسٹک بلاسٹک‘‘ میں ایک بار پھر تمام قارئین کی اِس طرف خصوصی توجّہ مبذول کروائی گئی کہ پلاسٹک خصوصاً پلاسٹک بیگز کا استعمال حد درجہ نقصان دہ ہے۔ اور آپ لوگوں کی ذمّے داری تو آگہی فراہم کرنے ہی کی ہے، اب ہدایات پر عمل کرنا، نہ کرنا تو عوام کاکام ہے۔ یقین کریں، ہمارے یہاں توآج بھی سودا سلف لانے کے لیےکپڑے کےتھیلے ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ ’’عورت اور ماں‘‘ افسانے میں سلمیٰ اعوان نے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت بیان کی۔ نیز، دینِ اسلام بھی معاشرے کے توازن کے لیے، کفو اورغیرکفو کو مدِنظر رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اب پہلے سے بہت بہتر خطوط شائع ہورہے ہیں اور یقیناً اِس میں آپ کی محنت کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ دُعا ہے کہ میگزین ہمیشہ اِسی طرح اپنا وقار اور معیار برقرار رکھے۔(آمین) (شیما فاطمہ، کورنگی، کراچی)

ج: جی، وقار ومعیار کی برقراری ہی ہمارا بھی نصب العین ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* میری ادبی تحریریں، جن میں مضامین، انشائیے اور نظمیں وغیرہ شامل ہیں،باقاعدگی سے مُلک کے موقر ادبی جریدوں میں شایع ہوتی ہیں۔ مَیں آپ کے ’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے بھی کچھ مضامین، انشائیے وغیرہ بھیجنا چاہتا ہوں، رہنمائی فرمادیں کہ کس فارمیٹ میں اورکس ایڈریس یا ای میل آئی ڈی پر بھیجنے چاہیئں۔ ( سیّد ظہیر احمد گیلانی، اسلام آباد)

ج: آپ نے ای میل سے لمبا تو اپنا تعارف لکھ بھیجا ہے۔ لیکن خیر، آپ اپنی تحریر اگر ای میل کرنا چاہتے ہیں، تو اُردو اِن پیج فارمیٹ میں کمپوزڈ فائل اِسی آئی ڈی پر بھیج دیں۔ ہاتھ سے لکھ کر پوسٹ کرنے کا ارادہ ہے،توپوسٹل ایڈریس بھی اِسی صفحے پر موجود ہے۔ ہاں، مگر ایک بات گرہ سے باندھ لیں کہ جو تحریر بھی ہمیں بھیجیں، وہ نہ کسی اورجریدے کو بھیجی ہو، اور نہ ہی پہلےکہیں شایع ہوئی ہو۔ مطلب جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے لکھی جانے والی تحریر خاص اِسی جریدے کے لیے لکھی جائے اور بالکل نئی نکور ہو۔

* آپ کے جریدے میں ڈاکٹر صادق میمن کا ’’ہیپاٹائٹس فِری پروگرام2030ء‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ مضمون نہایت ہی جامع اور بےحد معلوماتی تھا۔ اور مَیں یہ بات خُود ایک معالج ہوتے ہوئے کہہ رہا ہوں، تو اندازہ لگائیے، عام افراد کے لیے یہ تحریر کس قدر اہم اور معلومات سے بھرپور ہوگی۔ اور آپ ہی کے پلیٹ فارم سے عوام النّاس کی رہنمائی کے لیے ایک اطلاع بھی دینا چاہتا ہوں کہ سِول اسپتال، حیدرآباد کی او پی ڈی 26 سے ہیپاٹائٹس مرض کی مکمل اسکریننگ، ویکسی نیشن اور ادویہ کی سہولت بالکل مفت فراہم کی جارہی ہے۔ (ڈاکٹر ایم عارف سکندری، کھوکھر محلّہ، حیدرآباد)

ج: بے حد شکریہ ڈاکٹر صاحب! مفادِ عامّہ کی غرض سے کی گئی آپ کی ای میل بعینہ شایع کردی گئی ہے۔

* میرے برقی خط کو جریدے میں جگہ دینے کا بے حد شکریہ۔ (سعدیہ اعظم)

ج: ایک آدھ جملہ جریدے سے متعلق بھی لکھ ڈالتی۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk