• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

فقیرانہ سا نام ہے

ایک عرصے بعد دوسرا مراسلہ حاضرِ خدمت ہے۔ پہلا18 دسمبر 2022ء کے شمارے میں جگہ پاسکا تھا۔ پہلے نامے کی روانگی سے اشاعت تک کیا، کیا خیالات نہ ذہن میں آئے کہ ہمیں درخورِاعتنا کیوں نہ سمجھا گیا، لیکن پھرالحمدُللہ، ہم آپ کے ہاں معتبر ٹھہرے۔ رہی ہمارے نام کی بات، تو ’’کشکول‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے، پشتو میں یہ کچکول ہوجاتا ہے۔ بڑا فقیرانہ سا نام ہے، جووالدہ نےرکھا۔ دراصل مجھ سے پہلے ہونے والے بہن بھائی فوت ہوجاتے تھے، تو کسی درویش نے تجویز کیا تھا۔ اُمید ہے، میرے جواب سے تشفّی ہوگئی ہوگی۔ خیر، 21 مئی کا شمارہ پڑھ کر مزہ آگیا۔ آپ کے جوابات کا تو کیا ہی کہنا۔ سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ہم آپ کے دل سےعقیدت مند ہیں ناں۔ 

اُف، نیراگون کو تو آپ نے کیا ہی جواب دیا۔ وہ بے چارہ آپ کو آئینہ دِکھا رہا تھا، لگتا ہے، اب خُود ساری عُمرآئینہ دیکھےگا۔ ویسے ہم نے سُنا ہے کہ’’جواونٹ پالتےہیں، دروازے اونچے رکھتے ہیں۔‘‘ آپ نے ہاتھی لکھا، تو شاید ٹھیک ہی لکھا ہوگا۔ حیرت ہے، شاہدہ تبسم کو صفحے کے آغاز میں آج تک ’’السّلامُ علیکم‘‘ لکھا ہی نظر نہیں آیا۔ ارےہاں، ماڈلز کی تعریف و توصیف میں آپ جس مبالغہ آرائی سے کام لیتی ہیں، اُس کا تو کوئی ثانی ہی نہیں۔ کبھی خیال آتا ہے، اِس امر کے لیے جن شعراء کا کلام استعمال کیا جاتا ہے، وہ تو سر پکڑ کے روتے ہوں گے۔ ہی… ہی… ہی… مانا کہ ’’تبدیلی سرکار‘‘ کا بھانڈا پُھوٹ چُکا ہے، مگر یہ بھان متی کا کنبہ بھی عوام کا کچھ خاص سگا نہیں۔ سب مل کر عوام کو اُلّو بنا رہے ہیں۔21 مئی کے شمارے میں چیئرمین نادرا سے ’’ گفتگو‘‘ اچھی رہی۔ آئینِ پاکستان کی ترمیم وتدوین کےضمن میں بہترین معلومات فراہم کی گئیں۔ 

منور مرزا کا تجزیہ تو اِس بار ہر تحریر پر نمبر لے گیا کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم اپنے شہیدوں کی یادگاریں مسمار کرنے میں لگے ہیں۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں صرف ماں ہی ماں کی گردان تھی، باپ کی بھی کچھ قدر ہونی چاہیے کہ وہ بھی چکّی کا ایک پاٹ ہے۔ ساری عُمر، صبح سے شام تک اپنی ایڑیاں گِھستا ہے۔ جھوٹ، چوری، فراڈ، کیا، کیا نہیں کرتا، اپنی اولاد کے پیٹ کا دوزخ بَھرنے کے لیے، مگر اُس کا ذکر سرسری ہی ہوتا ہے، یہ زیادتی ہے۔ ’’نئی کتابیں‘‘ اچھاسلسلہ ہے، تبصرہ پڑھ کر کتاب خریدنے یا نہ خریدنے کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصص القرآن‘‘ کا آغاز لاجواب ہے۔ رانجھا صاحب کا سفر نامہ مکمل ہوا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں بعض کہانیاں متاثر کُن تھیں اور مَیں نے ’’ناقابلِ فراموش‘‘سلسلےکے لیے ایک واقعہ ارسال کیا تھا، اُس کا بھی آج تک کچھ پتا نہیں چلا۔ (محمّد اقبال کشکول، مدینہ کالونی، والٹن کینٹ، لاہور)

ج: آپ کی تحریر ناقابلِ اشاعت تھی اور 23اپریل کے شمارے میں شائع ہونے والی ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کی فہرست میں آپ کا نام شائع ہوچُکاہے، جب کہ آپ نے’’ایک پیغام‘‘ کے سلسلے میں جو شکایت درج کروائی، وہ اِس لیے درست نہیں کہ مائوں کے عالمی یوم پرشائع ہونے والے پیغامات میں اگر مائوں کے نام کی گردان نہیں ہوگی، تو کس کی ہوگی۔ جیسا کہ ’’عالمی یومِ والد‘‘ کے موقعے پر جو پیغامات شائع کیے گئے، اُن تمام کے تمام میں والد ہی کا تذکرہ، تکرار تھی، تواِس میں بھلا کیا اچنبھے کی بات ہے۔

عید پیغامات کا اعلان؟

ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات شامل تھے۔ بلوچستان کے آئی جی، عبدالخالق شیخ کا انٹرویو شان دار تھا۔ انہوں نے بلوچستان میں خواتین پولیس اسٹیشن قائم کر کے بہت اچھا قدم اُٹھایا ہے۔ ’’سوڈان، دو جرنیلوں میں اقتدار کی جنگ‘‘ منور مرزا کا بہترین تجزیہ تھا۔ ’’ہماری نرسز ہمارا مستقبل‘‘ بھی ایک بے مثال کاوش تھی۔ نرسز کی خدمات کو ہمیشہ سراہنا چاہیے۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کی تخلیق ’’دہلی نامہ‘‘ بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔ اُن کے اس سفر نامے سے ہمیں دہلی سے متعلق بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ 

اب ہماری اُن سے گزارش ہے کہ وہ چین سے متعلق بھی ایسا سفرنامہ لکھیں، خصوصاً ’’دیوارِ چین‘‘ کا احوال ضرورقلم بند کریں۔ ’’عید ایڈیشن‘‘ میں ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سلسلہ پڑھ کرتو حیرت میں ڈوب گئے، کیوں کہ اس بار ’’سنڈے میگزین‘‘ میں عید پیغامات کے لیے آپ کی طرف سے کوئی اعلان ہی شائع نہیں ہوا تھا۔’’آن لائن فراڈیے‘‘ بہت ہی معلوماتی نگارش تھی، پتا نہیں کیوں لوگ ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ ’’مدرز ڈے‘‘ کے حوالے سے ’’مَیں کیوں اچھی ماں نہیں‘‘ اور آپ کا اسٹائل صفحات کا انٹرویو بہت ہی زبردست تھے۔ اسٹیفن ہاکنگ واقعی کائنات کا سیاح تھا۔ ایسے اَن مول لوگ کم ہی رہ گئے ہیں۔ دونوں شماروں میں میرے خطوط بھی شامل تھے، تو مجھے دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول لنگر)

ج: جی، اس بار ’’عید پیغامات‘‘ کے لیے ہماری طرف سے کوئی سندیسہ اِس لیے نہیں بھیجا گیا کہ لوگوں نے بغیر کسی اعلان ہی کے خاصی تعداد میں پیغامات بھیج دیئے تھے اور ہم صفحات کی تنگی کے سبب ایک صفحے سے زیادہ شائع نہیں کرسکتے تھے۔’’چین کا سفرنامہ‘‘ پڑھنے کا اس قدرشوق چرا رہا ہے، تو رانجھا صاحب کے سفری اخراجات کا انتظام آپ فرما دیں۔ سفرنامہ لکھنا تو پھراُن کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔

مَیں نے محسوس کیا ہے

مَیں کافی عرصے سے ’’سنڈے میگزین’’ کا قاری ہوں اور خاص طور پر محمود میاں نجمی کے آرٹیکلز ضرور پڑھتا ہوں۔ ایک بات، جو مَیں نے خاص طور پر اُن کی ہر تحریر میں نوٹ کی ہے کہ جب بھی حضورِ پاکؐ کا نامِ نامی آتا ہے، تو وہ نام کے ساتھ صرف ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ لکھتے ہیں، جب کہ حضورِ پاکؐ کے نام کے ساتھ ہمیشہ ’’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھنا چاہیے۔ مَیں نے محسوس کیا ہے کہ بعض لوگوں یا مخصوص طبقۂ فکر کو نبی کریمؐ کی آل کا ذکر پسند نہیں۔ بہرحال، میری آپ سے درخواست ہے کہ آئندہ جب بھی نبی پاکؐ کا نامِ نامی آئے، تو ہمیشہ ’’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہی لکھیں۔ (لیاقت علی، گلشنِ نور، سپارکو روڈ، کراچی)

ج: ہمارے پاس نجمی صاحب کا مضمون ہاتھ سے لکھا ہوا آتا ہے، جسے ہم خُود اپنے کمپوزنگ سیکشن سے کمپوزکرواتے ہیں اوراُس میں نبی کریمؐ کے نام کے ساتھ ہمیشہ ’’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہی لکھا ہوتا ہے۔ اور ہمارا نہیں خیال کہ کوئی بھی مسلمان ارادتاً نبی کریمؐ کے نام کے ساتھ ’’وآلہ‘‘ لکھتے ہوئے، کوئی تکلیف یا تردّد محسوس کرسکتا ہے۔ ہمیں تو یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی کہ ایسے متعصّبانہ، متنفرانہ اور معاندانہ خیالات آپ لوگوں کےذہنوں میں آبھی کیسے جاتے ہیں۔ 

بات یہ ہے کہ اُردو ان پیج کے سافٹ ویئر میں حضور اکرمؐ کے نام کے ساتھ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ الگ سے کمپوز کیا ہی نہیں جاتا بلکہ خُودکار طریقے سے محض ایک Key دبانے پر خُود کمپوز ہوجاتا ہے اور اِس میں کسی کے بھی ارادےاورعمل کا کوئی دخل نہیں، یہ ادارے کے اُردو اِن پیج سافٹ وئیر میں built-in ہے۔ بخدا، ہماری تمام تر کوشش و جستجو، توجّہ اور احتیاط کے باوجود بھی اگر کسی بھی تحریر میں کوئی خامی، کمی رہ جاتی ہے، تووہ قطعاً غیرارادی یا کسی ٹیکنیکل فالٹ کے سبب ہوتی ہے۔ سو، خدارا! آئندہ کم از کم اس فورم سے تو ایسی شر انگیز باتوں سے مکمل گریز کریں۔

کوئی اور سفرنامہ

منور مرزا ’’حالات و واقعات‘‘ میں تُرکیہ اور تھائی لینڈ کے انتخابات پر بات کررہے تھے اور تُرکیہ میں نتائج عین اُن کی پیش گوئی کے مطابق رجب طیّب اردوان کے حق میں رہے۔ شاباش تُرکیہ کے عوام۔ اس بار سرِورق کی ماڈل کی فوٹو گرافی ایک ہی رنگ میں کئی گئی اور وہ ہر نفیس شخص کا پسندیدہ رنگ، سفید رنگ تھا۔ پھر اُس رنگ پر آپ کی شاہ کار تحریر بھی پڑھی۔ ’’ہمارا وَرثہ‘‘ میں عبدالقادر رند نے بلوچستان کے تاریخی شہر پر بہت عُمدہ مضمون تحریر کیا کہ پورے سبّی کی تاریخ بیان کرکے رکھ دی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں بھی بہت کچھ موجود تھا، مگر ’’دستر خوان‘‘ نہیں تھا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید کے تفصیلی خط کو ایک کالم کا بنایا، یہ بھی آپ ہی کا کمال ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ ’’دہلی نامہ‘‘ ختم ہوئے کافی عرصہ ہوگیا۔ اب کوئی اور سفرنامہ شروع کریں۔ویسےبھی میگزین کے صفحات خاصے کم ہوگئے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:انفرادی تحریروں کی صُورت تو سفر نامے وقتاً فوقتاً شایع ہوتے ہی رہتے ہیں۔ جوں ہی کوئی اچھا تفصیلی سفرنامہ وصول پایا، توقسط وار بھی شروع کردیں گے۔ رہے صفحات، تووہ تو کم ہو ہی گئے ہیں اور اِس ضمن میں ہم بالکل بےبس ہیں۔

شدّت سے انتظار

مَیں آپ کے صفحے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے واقعات بہت ہی ذوق و شوق سے پڑھتی ہوں اوراِن ہی کےلیےمجھے ہر ہفتے سنڈے میگزین کا بہت شدت سے انتظار رہتا ہے۔ مَیں نے اب تک جریدے میں شائع ہونے والے تمام واقعات سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ بس، آپ سے درخواست ہے کہ یہ صفحہ ہر ہفتے باقاعدگی سے شائع کیا کریں۔ (رخسانہ پروین)

ج: بڑی بات ہے، آپ نے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحات سنبھال رکھے ہیں۔ چلیں، اب اگرکسی کوریفرنس کی ضرورت ہوئی، توآپ سے رابطہ کرلیا جائےگا۔ ویسے صفحے کی مستقل اشاعت میں ایک بڑی رکاوٹ اچھی تحریروں کی عدم وصولی بھی ہے۔

ذکر طلب باتیں…؟؟

محمودمیاں نجمی کی تحریر’’اصحابِ کہف‘‘ پڑھی۔معلومات میں خاصا اضافہ ہوا، مگر کچھ مزید باتیں بھی ذکرطلب تھیں، جن کا تحریرمیں کہیں ذکرنہیں ملا۔ مثلاً: یہ سورت مکّی ہے۔ اِس میں کُل 111آیات، 12 رکوع ہیں اوریہ قرآنِ مجید کے پندرہویں پارے میں ہے۔ اصحابِ کہف کے کتّے کا نام ’’قطمیر‘‘ تھا، جس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ چار جنّتی حیوانوں میں سے ایک ہے۔ بیدروس بادشاہ کا اقتدار 68 برس پر محیط تھا اور بیان کیا جاتا ہے کہ بادشاہ نے دُعا مانگی تھی کہ’’اے اللہ! میری قوم پر کوئی ایسی کُھلی نشانی بھیج دے، جسے دیکھ کر یہ گُم راہ قوم بعدالموت کی حقیقت تسلیم کرلے‘‘ تو اُسی دوران ایک چرواہے نے غار کے نزدیک ڈیرہ ڈالا اور غار کے منہ پر بنی دیوار گرادی۔ 

مگر غار کا اندرونی منظر دیکھا توخوف سے بھاگ کھڑا ہوا۔ دیوار گرنے کے بعد اللہ کے حُکم سے وہ تمام نوجوان جاگ گئے۔ سب نے ایک دوسرے کو سلام کیا۔ وہ خوش و خرّم اور تازہ دَم تھے۔ یوں لگتا تھا، جیسےایک شب کی نیند کے بعد بیدارہوئےہیں۔ اور یہ کہ اصحابِ کہف کے اسماء مبارک حضرت ابنِ عباسؓ کی ایک مستند روایت میں موجود ہیں، جن کو لکھ کر رکھنے کی متعدّد برکات بھی ثابت ہیں۔ (بابر سلیم خان، لاہور)

ج :بات یہ ہے کہ دیگر تمام تحریروں کی طرح نجمی صاحب کی تحریر بھی ایڈیٹنگ کے مرحلے سے گزرتی ہے۔ جیسے تمام تر شعر و شاعری اختر سعیدی صاحب کو چیک کروانے کے بعد ہی مستند ٹھہرتی ہے، تواِسی طرح نجمی صاحب کی بھی تمام ترتحریریں حافظ محمّد ثانی صاحب کے اپروول کے بعد ہی شایع کی جاتی ہیں۔ سو، بعض اوقات خاصامواد ایڈٹ بھی ہوجاتا ہے۔ بہرکیف، آپ چوں کہ خُود ایم اے اسلامیات ہیں، توآپ کی فراہم کردہ معلومات میں سے بھی کچھ چُنیدہ باتیں شایع کی جا رہی ہیں۔

                             فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

کیا حال ہے آپ کا، اُمید کرتا ہوں، بمع ٹیم خیریت سے ہوں گی۔ وہ کیا ہے کہ ؎ نہ کم زور پڑا میرا تم (میگزین) سے تعلق نہ کہیں اور ہوئے سلسلے مضبوط… یہ تو وقت کی سازش ہے جانِ جاں (میگزین)، کبھی تم مصروف تو کبھی ہم مصروف۔ میگزین تو سدا کا مصروف ہے کہ تمام تر ذمّے داریوں کے ساتھ تسلسل سے آگے بڑھ رہاہے،لیکن شادی کےبعدہماری مصروفیات کچھ اس قدر بڑھیں کہ چاہتے ہوئے بھی قلم تبصرے کے لیے نہ اُٹھ سکا اور وقت کے تیزدھارے میں تین برس بیت گئے۔ ہمارا آخری نامہ ستمبر2020ء میں زینتِ میگزین بنا تھا۔ 

بہرحال، مطالعہ وقتاً فوقتاً جاری رہا۔ آج یوں لگ رہا ہے، جیسے تین صدیوں بعد اس پُرکشش محفل کا حصّہ بننے جارہا ہوں۔ (ظاہر ہے، جو شخص تسلسل اور مستقل مزاجی سے اُلفت نامے لکھنے کا عادی ہو، اُسے3سال3صدیاں ہی لگیں گے۔) خیر، آج کل، آج کل کرتے بمشکل وقت میسّرآ ہی گیا۔ وہ ہے ناں ؎ کبھی ہم تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ اب اس سے پہلے کہ آپ ہماری اس لمبی چوڑی تمہید پرسخت برہم ہوجائیں، تبصرے کی طرف بڑھتے ہیں۔ 7 مئی کا شمارہ بے قرار نگاہوں کے سامنے خیمہ زن ہے۔ ’’خُوشبو جیسی کیوں لگتی ہو…‘‘ مصرعے اور بیک گرائونڈ پر ہلکے سبزے نے سرورق میں جان سی ڈال دی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مدینہ منوّرہ کی وادیوں،تاریک کنوئوں سے متعلق معلومات سے بھرپور نگارش نے ایمان کو تازگی فراہم کی۔ 

سوڈان کےرُوح فرسا’’حالات و واقعات‘‘ منورمرزا کی زبانی ملاحظہ کیے۔ یقین جانیں، اُمّتِ مسلمہ کے کشیدہ حالات میں ایک اور مُلک کے تباہ حال معاملات پر دل بے حد افسردہ ہوگیا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد نے آن لائن فراڈیوں پر بڑی عُمدہ قلم کاری کی۔ ویسے تو ہر پاکستانی اپنے آپ کو بڑا طرّم خان سمجھتا ہے کہ بھلا ہم سے کوئی کیسے فراڈ کرسکتا ہے، پھر بھی، اتنے لوگ فراڈیوں کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔ دراصل آن لائن ٹیکنالوجی کے استعمال میں ہم کچھ خاص مہذّب قوم نہیں۔ عموماً استفادہ کرنے کے بجائے شارٹ کٹ ہی کے متلاشی رہتے ہیں۔ ’’انٹرویو‘‘ میں بلوچستان کے آئی جی، عبد الخالق شیخ سے سیرحاصل، مدبّرانہ اور اطمینان بخش گفتگو کی گئی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ کی محفل، نرسز کی گراں قدر خدمات سے سجی تھی۔ 

آپ کی تحریر نے اسٹائلشی صفحات کے رنگ ورُوپ کو دوچند کردیا ہے۔ ویسے ہر ہفتے ایک بہترین اور شان دار رائٹ اَپ لکھنا نہایت دقّت و مشقّت طلب کام ہے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ’’دہلی نامہ‘‘ کی صُورت ڈاکٹر رانجھا کی قابلِ قدر کاوش سے خُوب لُطف اندوز ہوئے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’دل کی عید‘‘ اور ’’شام کی چائے‘‘ جیسی عُمدہ تحاریر کے ساتھ نظم ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ نے بھی لُطف دیا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کی دوسری اشاعت کا بھی جواب نہ تھا اوراب بالآخر ہم اپنی خاص الخاص محفل ’’آپ کا صفحہ‘‘ تک آ پہنچے۔ کہنے کوتو سارا میگزین ہی خاص ہے لیکن آپ کا صفحہ کی بات ہی الگ ہے۔ نئے و پرانے خطوط نگاروں کے حسین امتزاج سے مزیّن یہ صفحہ مترنّم سُر بکھیرتا معلوم ہوتا ہے۔ شاہدہ ناصر کی چٹھی واقعی ’’لیٹر آف دی ویک‘‘ کے لائق تھی۔ (ملک محمّد رضوان، محلّہ نشیمنِ اقبال، واپڈا ٹائون، لاہور)

ج: ویلکم بیک۔ گرچہ تین برس ہوگئے، لیکن ہمیں چوں کہ ابھی ہی معلوم ہوا ہے، تو ہمارے لیے تو آپ کا عقدِ مسنونہ آج ہی ہوا، سو ہماری طرف سے دلی مبارک باد قبول کیجیے اور اب اگر دوبارہ سلسلہ جوڑ ہی لیا ہے، تو کوشش کیجیے گا کہ آنا جانا لگا ہی رہے۔

گوشہ برقی خطوط

* سنڈے میگزین کی ایک بات بہت اچھی ہے کہ اپنے چاہنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھتا اور اُن کی بہت قدر کرتا ہے۔ (صاعقہ سبحان)

* میگزین سے ’’ناول‘‘ کا سلسلہ تو پہلے ہی بند کردیاگیاہے۔ اب اکثر’’ناقابلِ فراموش‘‘ اور ’’ڈائجسٹ‘‘ کےصفحات بھی ڈراپ کر دیئے جاتے ہیں، تو یہ تو قطعاً اچھی بات نہیں۔ قسم سےمیگزین دیکھ کےسخت افسوس ہوتا ہے۔ اتنے کم صفحات اور پھر ہماری دل چسپی کے صفحات بھی غائب۔ ایک تو اِن دنوں اتنی شدید گرمی ہے، پھر جریدے کا یہ حال کردیا ہے، اوپر سے میرا دل اتنا چھوٹا سا ہے تو بس رونا ہی آجاتا ہے۔ (منتہیٰ ریاض)

ج: ارے منتہیٰ، ایک ساتھ اتنی آزمائشیں ٹوٹ پڑیں تم پر… یہ تو واقعی سخت افسوس کا مقام ہے۔ پر، ہم بھی کیا کریں۔ اخباری صنعت کااب چل چلائو ہی ہے۔ بس، تم یوں سمجھو، تیرا غم، میرا غم، اِک جیسا صنم… ہم دونوں کی ایک کہانی…

* فدوی عرصہ15 سال سے جنگ میگزین کا قاری ہے، لیکن ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے ’’گوشہ برقی خطوط‘‘ میں آج پہلی بار حاضری دے رہا ہے۔ میگزین زبردست ہے اور اوپر سے آپ کے تیکھے، کھٹے میٹھے جوابات۔ کمال ہے بھئی۔ آپ سے پوچھنا یہ تھا کہ یہ خادم ملک کوئی اصل آدمی ہے یا کوئی افسانوی کردار، کیوں کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی کسی جریدے کا اس حد تک ناقد ہو، لیکن اُس کا اِس قدر باقاعدگی سے مطالعہ بھی کرتا ہو۔ (اقبال شاکر، میاں والی)

ج: ارے بھئی… کیا ہوگیا، ہم کوئی فِکشن رائٹر تھوڑی ہیں، جو ایسے عجیب و غریب کردار تخلیق کریں گے اور اگر کوئی افسانوی کردار تخلیق کرنا ہی ہوتا ہے، تو کوئی بہت خُوب صُورت، خوش اخلاق، ہنس مُکھ سا کردار تخلیق کرتے، نہ کہ ایسا لٹھ مار، آدم بے زار اور سدا کا بے روزگار کردار۔

* ’’عالمی ادب‘‘ کےموضوع پرمیری تحریر شایع کرنے کا بے حد شکریہ۔ جس عُمدگی سے تحریر کی نوک پلک سنواری گئی،اُس پرممنونِ احسان ہوں۔ (مدثر اعجاز، لاہور)

ج: آپ کی بیش تر تحریریں قابلِ اشاعت ہی ہوتی ہیں۔ اور ہمیں اُن پر کچھ خاص محنت نہیں کرنی پڑتی۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk