سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے 19 جون کو محفوظ کیا ہوا فیصلہ متفقہ طور پر سنایا۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ آئین کے خلاف ہے۔
فیصلہ سنانے والے ججز میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کا تحریری حکمنامہ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے 87 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون کو کالعدم قرار دینے میں عدالت بہت محتاط رہتی ہے، سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کا جائزہ آئین کے ساتھ لیا گیا اور ہر ممکن کوشش کی کہ دیکھا جائے کہ ریویو ایکٹ آئین سے ہم آہنگ ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت اسی نتیجے پر پہنچی ہے کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ واضح طور پر آئین کی بیشتر شقوں کے خلاف ہے۔
فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ تمام نظرثانی اپیلیں آرٹیکل 188 کے تحت ہی دائر کی جاسکتی ہیں،ایکٹ کی مرکزی شق 2 آئین سے متصادم ہے، ایکٹ کی تمام شقیں مرکزی شق دو سے ہی باقی تمام ذیلی شقیں نکلی ہیں، اگر مرکزی شق ہی کالعدم قرار دی جائے تو ذیلی شقیں بھی برقرار نہیں رہ سکتیں۔
’پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کرسکتی‘
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کرسکتی، طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کرسکتا، سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں اضافی نوٹ لکھا ہے کہ اپیل اور نظرثانی مترادف نہیں بلکہ مختلف چیزیں ہیں، پارلیمان کے قانون سازی اور سپریم کورٹ کے پاس رولز بنانے کے اختیارات برابر ہیں۔
جسٹس منیب اختر کے اضافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ پارلیمان کی سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز کو غیر مؤثر نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے لکھا کہ کیا پارلیمان کی طرف سے ہدایت کی جا سکتی ہے کے نظرثانی کو اپیل جیسا سمجھا جائے؟ اصول ہے کہ عدالت میں پہلے سے طے شدہ معاملہ دوبارہ نہیں اٹھایا جاسکتا، نظر ثانی کا دائرہ اختیار اسی اصول کے ساتھ جڑا ہے۔
سپریم کورٹ نے کیس کی 6 سماعتیں کرنے کے بعد 19 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی تھی جبکہ درخواست گزار پی ٹی آئی نے اس قانون سازی کے لیے آئینی ترمیم لازم قرار دینے کا مدعا پیش کیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے اس معاملے کی سماعت کی تھی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کی 7 شقیں ہیں۔
شق 1 کے تحت ایکٹ سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 کہلائے گا۔
شق 2 کے تحت سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار مفاد عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کے لیے بڑھایا گیا اور مفاد عامہ کے مقدمات کی نظرثانی کو اپیل کے طور پر سنا جائے گا۔
شق 3 کے مطابق نظرثانی کی سماعت پر بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سے زیادہ ہوگی۔
شق 4 کے مطابق نظرثانی میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کر سکے گا۔
شق 5 کے تحت ایکٹ کا اطلاق آرٹیکل 184 تین کے پچھلے تمام مقدمات پر ہو گا اور متاثرہ فریق ایکٹ کے اطلاق کے 60 دنوں میں اپیل دائر کر سکے گا۔
شق 6 کے مطابق متاثرہ فریق ایکٹ کے اطلاق کے 60 دنوں میں اپیل دائر کر سکے گا۔
شق 7 کے مطابق ایکٹ کا اطلاق ملتے جلتے قانون، ضابطے، یا عدالتی نظیر کے باوجود ہر صورت ہو گا۔