کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں میزبان سلیم صافی سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نےکہا ہے کہ نگراں وزیراعظم کے پراسیس میں نہیں رہی، مجھے لگتا ہے کچھ نام شارٹ لسٹ ہوئے ہوں گے ، میں نہیں جانتی یہ کس لسٹ میں تھے، دنیا میں کہیں بھی کیئر ٹیکر سسٹم نہیں ہوتا، جس حکومت پر بھی عوام اعتمادکرے اسے سب سےپہلے کیئر ٹیکر سیٹ اپ ختم کرنا چاہئے ، شہباز شریف کا خود کواسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا کہنا طنز تھا۔ پروگرام کے آغاز میں میزبان سلیم صافی نے سوال کیا کہ کیا واقعی آپ ڈپٹی وزیراعظم تھیں ۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ نہیں وزیراعظم ایک ہی تھے شہباز شریف جنہوں نے بہت احسن طریقے سے سولہ ماہ گزارے۔ سلیم صافی نے سوال کیا کہ بہت احسن طریقے سے انہوں نے اور راجا ریاض نے انوارلحق کاکڑ کو کیوں چنا ۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ مشاورت شروع ہوجاتی ہے جب وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرتے ہیں اور یہ آئینی حق ہے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کا کہ وہ دیکھیں کہ کونسا ایسا شخص ہے جو نگراں حکومت میں شفاف طریقے سے الیکشن بھی کراسکتا ہے کیوں کہ ملک ایک بڑے مشکل مراحل سے گزر رہا ہے۔ معیشت کے روڈ میپ کا قائم رہنا اہم ہے وزیراعظم چیئر کرتے ہیں ایس آئی ایف سے جس کی شہبا زشریف اور آرمی چیف کا اور پوری گورنمنٹ کا ایک concept ہے ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے انوارالحق کاکڑ کا انتخاب کیا ہے وہ بہت پڑھے لکھے ہیں میں ان کے ساتھ کام کیا ہے وہ بات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں وہ اچھے وزیراعظم ثابت ہوں گے۔ سلیم صافی نے سوال کیا کہ آپ لوگ کہا کرتے تھے غیر متنازعہ لیکن ان کا تعلق باپ پارٹی سے رہا ہے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ تعلق رہا ہے لیکن جو نگراں وزیراعظم ہوتا ہے اس کے تین کام ہوتے ہیں ایک الیکشن شفاف کرانا اور اس کا پورا پراسیس کرے اور جو تسلسل ہے اس پراسیس کا جو ایلکٹڈ گورنمنٹ چھوڑ کر گئی ہو اس کو کیری فارورڈ کرے اس کا کوئی اپنا ایجنڈا نہیں ہوسکتا نگراں سیٹ اپ میں نہیں ہوسکتا۔ ایس آئی ایف سی اس کے لیے کوئی ایسا شخص جو فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ ہے فارن پالیسی ہے اس سب کو دیکھنا ہے کسی کو بھی نامزد کرتے دو ویو آتے ہیں ایک حق میں ایک خلاف ہوتے ہیں لیکن وہ شخص ثابت کرتا ہے کہ منصب کی ذمہ داری کیسے اداکرتا ہے۔ سلیم صافی نے سوال کیا کہ یہ شہباز شریف کی لسٹ میں تھے یا راجا ریاض کی یا دونوں کی کہاں سے ان کا نام آیا۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ میں اس پراسیس میں نہیں رہی۔ مجھے لگتا ہے کچھ نام شارٹ لسٹ ہوئے ہوں گے میں نہیں جانتی یہ کس لسٹ میں تھے۔ سلیم صافی نے سوال کیا کہ یہ عام تاثر کیوں ہے کہ انوارالحق کاکڑ کی ان دونوں کی چوائس نہیں تھی کہیں اور سے ان پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ یہ تاثر اس آئین کی جو شق ہے نگراں کی دنیا میں کہیں کیئر ٹیکر نہیں ہوتا ایک ایلکٹڈ گورنمنٹ الیکشن کراتی ہے پھر دوسری گورنمنٹ آجاتی ہے یہ جو کیئر ٹیکر سیٹ اپ ہے اس کی وجہ سے شاید یہ تاثر ہوتا ہے کہ کہیں سے نام آیا ہے۔ میرا ذاتی یہ خیال ہے جس حکومت پر بھی عوام اعتماد کرے سب سے پہلے کیئر ٹیکر سیٹ اپ کا پریڈ ہے ا سکو ختم کرنا چاہیے تو باقی تاثرات بھی ختم ہوجائیں گے ۔ سلیم صافی نے سوال کیا کہ شہباز شریف یا راجا ریاض پر کوئی دباؤ نہیں تھا ۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ میں نہیں سمجھتی کوئی دباؤ ہوتا ہے شہباز شریف نے میرے سامنے تمام جماعتوں سے مشاورت کی تو سب نے متفقہ طور پر وزیراعظم کو یہ اختیار دیا کہ آپ آئینی حق ادا کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں جس کو بھی نامزد کریں گے کچھ نے لکھ کر بھی دیا کچھ لسٹ جب وزیراعظم نے مشاورت کی پی ڈی ایم کے ساتھ تو کچھ نے کہا ہم آپ کو لکھ کر دے دیں گے کہ کونسے لوگ بہتر ہوسکتے ہیں۔ سلیم صافی نے سوال کیا کہ اعلان سے پہلے ناشتے پر تمام صحافیوں کو بتایا بھی کہ تمام اتحادیوں نے مجھے اختیار دے دیا ہے کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں ۔ اختر مینگل کا جو خط سامنے آیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ شاید کسی سے مشاورت نہیں کی گئی ہے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ آخری میٹنگ میں ، میں تھی اس میں ساری جماعتوں کے ہیڈ موجود تھے ۔ کوئی بھی نام سامنے آتا دو رائے یقینا اس میں آتیں ایک اختلافی ہوتی ہے ایک حق میں ہوتی ہے میں نہیں جانتی کس تناظر میں انہوں نے بیان دیا ہے۔ سلیم صافی نے سوال کیا کہ جس میٹنگ میں شہباز شریف کو اختیار دیا جارہا تھا ۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ اختر مینگل موجود تھے ۔ سلیم صافی نے سوال کیا کہ تحریک انصاف، استحکام پارٹی کی طرف سے انہیں خوش آمدید کہا گیا ہے ۔ فواد چوہدری نے بھی ان کو ویلکم کیا ہے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ جو آخری میٹنگ وزیراعظم ہاؤس میں ہوئی تھی پرسوں رات کو ایجنڈا یہی تھا کہ کل اعلان ہونا ہے اس میں تمام جماعتوں نے اختیار وزیراعظم کو نگراں وزیراعظم تعینات کرنے کا دیا تھا۔ سلیم صافی نے سوال کیا کہ چیئرمین سینٹ ، نگراں وزیراعظم بلوچستان سے ہیں پندرہ ستمبر کے بعد انشاء اللہ چیف جسٹس بھی بلوچستان سے ہوجائیں گے یہ کچھ عدم توازن نہیں ہوا۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ یہ تاثر بھی غلط ہے ان سولہ ماہ میں وزیراعظم شہبا زشریف صرف وفاق میں تھے پنجاب میں سندھ میں بلوچستان پختونخوا میں مختلف حکومتیں تھیں لیکن پورے پاکستان میں جہاں جہاں سیلاب تھا ہر صوبے کو انہوں نے جو اس کا مقام ہے اس کے مطابق کیا پھر آٹے تقسیم ہونے کی بات پنجاب سے شروع ہوئی لیکن وزیراعظم نے فوراً پختونخوا اور بلوچستان اور سندھ کے اندر شروع کیا۔ سیلاب سے متعلق پیسے دیئے جانے تھے وہ سب صوبوں کو کیا گیا مردم شماری میں بھی جب تک بلوچستان اور سندھ کے تحفظات رہے تب تک وہ مردم شماری کا پراسیس جاری رہا اور مردم شماری اتفاق رائے کے ساتھ ختم ہوئے تب جا کر وہ سی سی آئی میں نوٹیفائی ہوا۔ سلیم صافی نے سوال کیا کہ یہ اچھا ہے کہ دو پنجابیوں نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پختون کو نامزد کیا۔خیبرپختونخوا جنگ زدہ صوبہ ہے اس کو صرف پانچ ارب ملے ہیں۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس سے پہلے کوئی ٹوٹل چار بلین دہشت گردی کے چالیس ملین یا چار بلین ملے وہ آج تک نہیں پتہ دس سال میں کہاں گئے اس کی ریکوری اس میں ہے ۔ خیبر پختونخوا میں ، میںنہیں سمجھتی کہ اس سے پہلے کسی وزیراعظم نے پختونخوا میں دہشت گردی پر یا وہاں کے انفراسٹریکچر بنانے کے اوپر اتنی میٹنگ کی ہوں جتنی شہبا ز شریف نے کی ہیں او رجہاں جہاں بجٹ کی ضرورت ہوئی وہ دیا گیا۔ جو پولیس جو کاؤنٹر ٹیرازم ڈیپارٹمنٹ پورے پاکستان میں کاؤنٹر ٹیرازم ڈیپارٹمنٹ بن گیا تھا اسی طرح پختونخوا میں بھی وہی پیسے دئیے گئے تھے ایک کیمرے کے اندر سی ٹی دی موجود تھا جب مسجد کا واقعہ ہوا دہشت گردی کا تو یہ بات پتہ چلی تو فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر ۔ سلیم صافی نے سوال کیا کہ سیف سٹی لاہور میں پختونخوا میں نہیں ہے ، پنجاب میں فرانزک لیب ہے وہاں نہیں ہے حالانکہ دہشت گردی کا گڑھ وہی ہے ۔ سی ٹی ڈی یہاں مضبوط ترین پختونخوا میں بدترین حالت ۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ یہ پوچھا جانا چاہیے، جب نیشنل ایکشن پلان بن رہا تھا میں پارلیمنٹری سیکرٹری انٹریرتھی اور پلان کی مانیٹرنگ ہر تیسرے دن آتی تھی یہ سب صوبوں سے آتی تھی میں اسکو جمع کر کے پارلیمنٹ میں پیش کرتی تھی ۔ جو بجٹ پنجاب میں ملا تھا وہی بجٹ پختونخوا کو دیا گیا لیکن پنجاب میں ڈولفن فورس بنی، سیف سٹی بنا، کاؤنٹر ٹیرازم ڈیپارٹمنٹ بھی بنا آج پوچھا جائے پختونخوا میں جو دس سال حکومت کر کے گئے ہیں ۔ پختونخوا میں سی ٹی ڈی بھی بن رہا ہے شہبا زشریف نے اسپیشل فنڈ دے کر اس وقت وہاں کاؤنٹر ٹیرازم فورس بھی بن رہی ہے سیف سٹی کا پراجیکٹ بھی شروع ہوگیا یہ صرف سولہ ماہ میں ہوا۔ سلیم صافی نے سوال کیا کہ انہوں نے یہ بات کہ میں اسٹیبلشمنٹ کا آنکھ کا تارا ہوں طنزاً کہا تھا؟ مریم اورنگزیب نے کہا کہ طنزاً کہا اور آگے پھر وضاحت کی کہ اگر آپ سمجھتی ہیں کہ میں یہ ہوں میں آنکھ کا تارا ہوں تو میرے ساتھ یہ کیوں ہوا جو میرے بھائی کے بچوں کے ساتھ ہوا جو میرے بھائی کے ساتھ ہوا جو ہماری پوری قیادت کے ساتھ ہوا مجھ پھر ایک اسپیشل ٹریٹمنٹ ملنی چاہیے تھی ۔ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہوتے تو جنرل مشرف اور جنرل باجوہ کے دور میں جیلوں میں کیوں رہتے۔