• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیور اقوام پرجب خوشحالی آتی ہے تو وہ غفلت اور آرام و سکون کی بجائے جدوجہد اور محنت کو ترجیح دیتی ہیں۔ اور جب کٹھن وقت آتا ہے تو اپنے وجود کو زندہ رکھنے اور اپنے نظریے کے تحفظ کے لیے اپنی تاریخ، ثقافت، رہن سہن اور اپنے آباؤ اجداد سے ملے ورثے کی حفاظت کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ قیام پاکستان کے عظیم مقصد کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے نہ صرف اپنی شناخت کو زندہ رکھا بلکہ ایک صدی سے بھی کم عرصے میں جداگانہ اور خودمختار ریاست ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کا قیام ممکن بنایا۔ 

یہ ملک مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے آج مختلف مسائل میں گھرا ہے لیکن 76سال قبل، جس طرح ہمارے آباؤ اجداد کے لیے ایک مسلم ریاست کا وجود لازم وملزوم تھا، اسی طرح ہمارابھی فرض ہے کہ ہم تحریکِ پاکستان کے قائدین اور آباؤ اجدادکے چھوڑے ہوئے ترکے اور پیارے وطن کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیےوہ تمام ذمہ داریاں پوری کریں،جو اس کی تعمیر و تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ یہ صرف میرا اور آپ کا ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کا فرض ہے، جو اس مملکتِ خداداد میں پیدا ہوا اور ا س کے حوالے سے پہچان رکھتا ہے۔

ہمارےبزرگوں کی جانب سے ایک آزاد ملک حاصل کرنے کی تگ ودو، جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں ہمیں ایک خود مختار نظریاتی ریاست حاصل ہوئی۔ 76ویں یوم آزادی کے موقع پر ہربار کی طرح اس بار بھی آزاد وطن کی اہمیت اور قدرو منزلت کا احساس مزید شدت سے اجاگر ہورہا ہے۔ میں فخر کرتا ہوں اپنے پاکستانی ہونے پر، مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں دنیا بھر میں ایک آزاد مسلم ریاست’پاکستان‘ کے شہری کی حیثیت سے جانا جاتا ہوں۔ یہ وطن میری شناخت ، میرا مان اورمیری پہچان ہے۔ 

یہاں مجھے کسی جابر حکمراں کے کرفیو یا میرے آزاد شہری کے حقوق ختم کیے جانےکا خوف نہیں۔ دشمن سے مقابلہ کرنے کیے لیے افواجِ پاکستان ہر دم تیار ہیں اور پاک فوج کے جانباز سپاہی سرحدوں پرپہرہ دے رہے ہیں۔ یہ جانباز 76سال سے پاک سرزمین کی حفاظت کے لیےاپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے آرہے ہیں لیکن دشمن کو اس کے مذموم عزائم میں کبھی کامیاب ہونے نہیںدیا اور نہ ہی مستقبل میں ہونے دیں گے (ان شاءاللہ)۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ارض پاک کی کھلی فضاؤں میں خود مختار حیثیت سے سکون کا سانس لے رہے ہیں۔

14اگست 1947ء کو مسلمانانِ برصغیر نے قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت 90سال کی طویل جدوجہد کے بعد خالصتاً آئینی و جمہوری طریقے سے دو قومی نظریے کی بنیاد پر انگریز و ہندو سامراج سے آزادی حاصل کی۔ مسلمانوں نے آزاد ریاست اس عہد کے ساتھ حاصل کی تھی کہ یہ مسلم اُمہ کیلئے نظریاتی تجربہ گاہ ہوگی اور مسلمانانِ ہند کے سیاسی، معاشی، سماجی اور تہذیبی حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہوگی، جہاں تمام مسلمان اپنی ثقافتی، تہذیبی اور دینی اقدار کے مطابق آزادانہ زندگی گزاریں گے۔ یہ ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں غیر مسلم بھی اپنے عقائد پر عمل کرنے میں آزاد ہوں گے۔

ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ بطور پاکستانی ہم اس عہد کی پاسداری کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ آج آزادی کے دن تجدید عہدِ وفا کرتے وقت ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ بحیثیت پاکستانی ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟ محبت قربانی مانگتی ہے، جذبہ ایثار اور ایمانداری چاہتی ہے تو کیا ہم اپنے ملک سے مخلص ہیں؟ ملک بھر میں صفائی، گندگی اور غلاظت کے ڈھیر دیکھ کر صوبائی اور بلدیاتی اداروں کو قصور وار ٹھہرا کر ہم بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ گھروں سے باہر اور گاڑی میں سفر کے دوران کچرا اور تھیلیاں سڑک پر پھینکتے ہوئے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہی کوڑا کرکٹ ماحول کی خرابی کا باعث بن رہا ہے۔ 

بلدیاتی اداروں کا کام اپنی جگہ لیکن ہمیں خود بھی صفائی کا خیال رکھنا ہوگا۔ اسی طرح ہم ملک بھر میں بڑھتے ٹریفک حادثات کا ذمہ دار قوانین اور سڑکوں کی بدحالی کو قرار دیتے ہیں لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سڑکوں پر تعینات ٹریفک پولیس انہی قوانین کی پاسداری کروانے کے لیے تعینات کی گئی ہے، ہم بس انھیں بُرا بھلا کہتے ہوئے ان کی نظروں کے سامنے سگنل توڑ کر یا مخالف سمت میں گاڑی اور بائیک چلاکر فراٹے بھرتے ہوئے نکل جانا اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ 

یہ تو ہماری روزمرّہ زندگی کا ایک پہلو ہے، اس جیسے بہت سے دیگر مسائل بھی ہیں جو ہم انفرادی یا اجتماعی طور پر سرانجام دیتے ہیں اور اس پر کسی قسم کا پچھتاوا تک نہیں ہوتا۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ اپنے قومی اور شہری فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے چلے آرہے ہیں، اس صورتحال کا تدارک اور روک تھام ہماری فوری توجہ کی متقاضی ہے۔

قوموں کی زندگی میں 76سال کوئی بڑا عرصہ نہیں ہوتا، جس کی بنیاد پر اس قوم سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کردی جائے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ آج وطنِ عزیز کے حالات آئیڈیل نہیں، لیکن یہ سوچتے وقت ان حالات اور واقعات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جن کا اس عرصے میں اس قوم کو سامنا رہا ہے۔ قوموں کے لیے حالات ایک جیسے نہیں رہتے، اس قوم میں مشکلات سے لڑنے کا جذبہ آج بھی اتنا ہی پختہ ہے، جتنا آزادی کے وقت تھا۔ اس کے پیشِ نظر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس قوم کو دنیا کی کوئی قوت آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔

بحیثیت قوم آئیے آج ملک کی 76ویں سالگرہ کے موقع پرہم سب مل کر خود سے یہ عہد کریں کہ اس دن کو جذبہ حب الوطنی کی تجدید کے حوالے سے منا ئیں گے اور ملک کوصحیح سمت میں گامزن کرنے کیلئے اپنا اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کریں گے۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا ہوگا، ساتھ ہی دوسروں کو بدلنے سے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔ بقول مولاناظفرعلی خان

؎ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا