• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت آدمؑ کے بیٹے: ہابیل اور قابیل، حضرت آدمؑ اور حضرت حوّا ؑکے حقیقی بیٹے تھے، لیکن خدا کی قدرت کہ دونوں بھائیوں کے مزاج، عادات و اطوار میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ بڑا بھائی قابیل مزاجاً غصّے کا تیز، بدزبان اور فطرتاً برائی کی جانب راغب تھا۔ حسد، بغض، سرکشی، تکبّر اور انتقام کا جذبہ اس کی سرشت میں شامل تھااور اس کا ذریعۂ معاش کھیتی باڑی تھا۔ جب کہ چھوٹا بھائی ہابیل، نیک سیرت، متّقی پرہیزگار، منکسر المزاج اور عاجز انسان تھا۔ وہ بھیڑ بکریاں چَرایا کرتا اور فارغ وقت اپنے والد کی خدمت میں گزارتا۔ قابیل، شکل و صُورت میں ہابیل سے زیادہ خُوب صُورت تھا۔ 

جب کہ ہابیل، واجبی خدوخال کا مالک، لیکن اپنے بڑے بھائی قابیل کے مقابلے میں زیادہ قوی و طاقت وَر تھا۔ ویسے تو والدین کو اپنے تمام بچّے پیارے ہوتے ہیں اور وہ سب ہی سے محبّت کرتے ہیں، لیکن ہابیل کے مکارمِ اخلاق، نیک سیرت، فرماں برداری اور دیگر خصوصیات کی بِنا پر حضرت آدمؑ چھوٹے بیٹے کو زیادہ پسند فرمایا کرتے اور اسے اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتے تھے۔ جب کہ قابیل کی عاداتِ بد کی وجہ سے اس کے متعلق متفکر رہتے اور اس کی اصلاح کی کوششیں بھی کرتے تھے۔

تنازعِ ہابیل و قابیل: قرآنِ کریم نے حضرت آدمؑ کے ان دونوں صاحب زادوں کے نام لے کر مخاطب نہیں کیا، البتہ توریت میں اُن کے نام ہابیل و قابیل بیان کیے گئے ہیں۔ اُن کے واقعے سے متعلق حافظِ حدیث، علّامہ عمادالدین ابنِ کثیرؒ نے سند کے ساتھ ایک روایت نقل کی ہے، جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور بعض دوسرے صحابہؓ سے منقول ہے کہ جب حضرت آدم ؑ اور حضرت اماں حوّاؑ دنیا میں تشریف لائے اور توالد و تناسل کا سلسلہ شروع ہوا، تو اُن کی نسل میں اضافے کے لیے ہر ایک حمل سے ان کے دو بچّے توام، یعنی جڑواں پیدا ہوتے۔ ایک لڑکا اور دوسری لڑکی۔

بہن، بھائی ہونے کی وجہ سے ان کا آپس میں نکاح حرام تھا۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اُس وقت کی ضرورت کے لحاظ سے شریعتِ آدمؑ میں یہ خصوصی حکم جاری فرمادیا تھا کہ حضرت حوّا سے توام پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کا عقد دوسرے وقت میں پیدا ہونے والے توام بچّوں سے کردینا جائز ہے۔ اسی حکم کے مطابق قابیل اور ہابیل کی شادی ہونا تھی۔ قابیل عُمر میں بڑا تھا، اس کے ساتھ اس کی جو ہم شیرہ پیدا ہوئی، وہ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی ہم شیرہ سے بہت زیادہ حسین و خوب رُو تھی۔ جب نکاح کا وقت آیا، تو حسبِ حکم ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی ہم شیرہ قابیل کے حصّے میں آئی، لیکن چوں کہ وہ خُوب صورت نہیں تھی، چناں چہ قابیل نے اس شادی سے انکار کردیا۔ وہ اپنی سگی ہم شیرہ سے شادی کا خواہش مند تھا۔ 

حضرت آدمؑ نے شرعی قاعدے کے موافق اسے قبول نہیں فرمایا اور قابیل کو اللہ کے حکم کے مطابق عمل کی تلقین کی، لیکن قابیل اپنی ضد سے باز نہ آیا۔ بڑا ہونے کی وجہ سے قابیل خود کو والد کا جانشین سمجھتا تھا، لیکن وہ ہابیل کے تعلق سے والد کے خیالات سے واقف تھا۔ اب حسین و جمیل لڑکی سے ہابیل کی شادی کے فیصلے نے اُسے ہابیل کا دشمن بنادیا۔ حضرت آدمؑ نے جب دونوں بھائیوں کے درمیان یہ تنازع دیکھا، تو رفعِ اختلاف کے لیے دونوں بھائیوں کے لیے یہ تجویز پیش کی کہ ’’تم دونوں بارگاہِ خداوندی میں اپنی اپنی قربانی پیش کرو۔ 

اللہ تعالیٰ تم دونوں میں سے جس کی قربانی قبول فرمالے گا، اس لڑکی کی شادی اُس سے کردی جائے گی۔‘‘ حضرت آدمؑ کو اس بات کا یقین تھا کہ قربانی اُس کی قبول ہوگی، جس کا حق ہے، یعنی ہابیل کی۔ اُس زمانے میں قربانی قبول ہونے کی ایک واضح اور کُھلی علامت یہ ہوتی تھی کہ آسمان سے ایک آگ آتی اور قربانی کو کھا جاتی۔ اور جس قربانی کو آگ نہ کھائے، تو اُس کے معنی یہ ہوتے کہ وہ قربانی اللہ کے حضور قبول نہیں ہوئی۔ (معارف القرآن، جلد3،صفحہ110)۔

آنے والی نسلوں کے لیے عبرت و نصیحت: قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کے دونوں بیٹوں کا قصّہ، قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے عبرت اور نصیحت کے طورپر پیش کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب رسولؐ اور نبی آخرالزماںؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے، (ترجمہ) ’’اے محمدؐ! آپ ان کو آدمؑ کے دونوں بیٹوں کے حالات بالکل صحیح صحیح پڑھ کر سُنادیں۔ جب ان دونوں نے نذرانہ پیش کیا، تو ایک کی نیاز تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی، تو وہ (قابیل) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کردوں گا۔ اس (ہابیل) نے کہا کہ اللہ پرہیزگاروں ہی کی نذر قبول فرمایا کرتا ہے۔ 

اگر تُو مجھے قتل کرنے کے لیے مجھ پر ہاتھ چلائے گا، تو مَیں تیرے قتل کی طرف ہرگز ہاتھ نہیں بڑھائوں گا۔ مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے۔ مَیں تو چاہتا ہوں کہ تُو میرا گناہ اور اپنے گناہ دونوں اپنے سر پر رکھ لے۔ پھر دوزخیوں میں شامل ہوجا۔ ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ پس، اُسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا اور اُس نے اُسے قتل کرڈالا۔ اور خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگیا۔‘‘ (سورۃ المائدہ، آیات 27تا30 )۔

قابیل کی قربانی قبول نہ ہوئی: حضرت آدمؑ نے دونوں بھائیوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ کے حضور قربانی پیش کریں۔ اس اثنا میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کوحج کی ادائی کے لیے مکّہ مکرّمہ جانے کا حکم فرمایا۔ حضرت آدمؑ قابیل کی جانب سے متفکر تھے۔ چناں چہ حج کے سفر پر جانے سے پہلے آپ نے دونوں بیٹوں کو بلاکر نصیحت کی کہ بارگاہِ خداوندی سے جو بھی فیصلہ آئے، اُسے دونوں بھائی بخوشی قبول کریں، اور آپس میں مل جُل کر رہیں۔ اس ہدایت و نصیحت کے بعد حضرت آدمؑ مکّہ مکرّمہ روانہ ہوگئے۔ قابیل باپ کی نصیحت کی وجہ سے قربانی دینے پر آمادہ ہوا تھا۔ 

چناں چہ دونوں نے قربانیاں پیش کیں۔ ہابیل بکریوں والے تھے، چناں چہ انہوں نے ایک نہایت عمدہ، خُوب صُورت اور فربہ بکری راہِ خدا میں قربانی کے لیے پیش کی۔ قابیل کھیتی باڑی کرتا تھا، لہٰذا اُس نے فضول اور ردّی فصل کا ایک گٹھا قربانی میں دیا۔ اللہ نے ہابیل کی قربانی قبول فرمالی، مگر قابیل کی قبول نہیں ہوئی۔ اُس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ ہوتی تھی کہ آسمان سے ایک شعلہ نیچے اُترتا اور وہ قربانی کے لیے پیش کی گئی شئے کو جلاکر بھسم کردیتا ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ نے قربانی قبول فرمالی۔ یہ دیکھ کر قابیل غضب ناک ہوگیا اور حسد کی آگ میں جل کر بولا ’’مَیں تجھے جان سے مار ڈالوں گا۔‘‘ 

ہابیل نے کہا ’’بھائی جان! اس میں میرا کیا قصور ہے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ وہ صرف اپنے متّقی بندوں کی قربانی قبول فرماتا ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ چلائیں گے، تب بھی مَیں آپ کو قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ نہیں چلائوں گا، کیوں کہ مجھے تمام جہانوں کے پروردگار، اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ اگر آپ اس انتہا تک پہنچ جائیں گے کہ مجھے قتل کرہی دیں گے، تو آپ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ میری خطائوں کا بوجھ بھی اپنے سر اُٹھائیں گے۔ ایک بے گناہ انسان کو قتل کرنے والا گویا مقتول کے تمام گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر اٹھا لیتا ہے۔ 

اس طرح میرے گناہوں کا وبال بھی آپ کے سر ہوگا اور میرے لیے تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے، البتہ اس جرم کی وجہ سے آپ جہنّمی ہوجائیں گے۔‘‘ ان الفاظ کے بین السطور اس کے ضمیر کی کش مکش کا مکمل نقشہ موجود ہے۔ ایک طرف اللہ کا خوف، نیکی کا جذبہ، خون کا رشتہ اور دوسری طرف شیطانی ترغیب، حسد کی آگ اور نفسانی خواہش کی اکساہٹ اور پھر بالآخر اس اندرونی کش مکش میں اُس کا نفس جیت ہی گیا اور اُس نے بھائی کو قتل کرڈالا۔ جس سے وہ نقصان پانے والوں میں سے ہوگیا۔ (بیان القرآن 207/2)۔

قابیل نے ہابیل کو کیسے قتل کیا؟: حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں ’’خدا کی قسم، مقتول ہابیل، قابیل سے زیادہ طاقت ور تھا، لیکن اسے حیا و شرم مانع رہی کہ اپنے بھائی کی طرف قتل کے لیے ہاتھ بڑھائے۔‘‘ علامہ ابنِ کثیر ؒ قتل کے حوالے سے مختلف اقوال تحریر فرماتے ہیں کہ ’’شاید قابیل کے پاس لوہے کی راڈ ہو، جس سے ہابیل کو مارا اور قتل کردیا۔‘‘ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ قابیل نے پتّھر کی چٹان ہابیل کے سر پر مارکر اسے ہلاک کیا، جب کہ ہابیل جب سورہا تھا، تو قابیل نے بھائی کا سر کچل ڈالا۔ 

ایک قول یہ بھی ہے کہ قابیل نے ہابیل کا گلا گھونٹا اور اس طرح اسے کاٹا، جیسے درندے کرتے ہیں۔ جس سے وہ جاں بحق ہوگیا۔ واللہ اعلم۔ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیرؒ، صفحہ67)۔حضرت علّامہ شبیر احمد عثمانیؒ تفسیرِ عثمانی میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اگر کوئی ناحق کسی کو مارنے لگے، تو اُسے اجازت ہے کہ اپنے دفاع میں ظالم کو مارڈالے، لیکن اگر صبر کرے، تو شہادت کا درجہ ہے۔‘‘ہابیل نے اپنے بھائی قابیل سے کہا تھا کہ ’’بھائی! میں آپ سے ڈرکر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے یہ چاہتا ہوں کہ اپنے بھائی کے خون میں اپنے ہاتھ نہ رنگوں۔‘‘

زمین پر انسان کا پہلا قتل: قرآنِ کریم میں مذکورہ شادی کا کوئی تذکرہ ہے، نہ حضرت آدمؑ کے صاحب زادوں ہابیل اور قابیل کے نام موجود ہیں، بلکہ ناموں کے بجائے آدمؑ کے ’’دو بیٹوں‘‘ کہہ کر ذکر کیا گیا ہے۔ اس قربانی کا ذکر فرماکر اللہ تعالیٰ نے نعش کی تدفین کے بارے میں یوں فرمایا ہے کہ، ترجمہ:’’اب اللہ نے ایک کوّا بھیجا، جو زمین کریدنے لگا، تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کس طرح چُھپائے۔ کہنے لگا، ہائے افسوس! کیا میں اس کوّے کی مانند بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چُھپا دیتا۔ سو، وہ پشیمان ہونے والوں میں سے ہوگیا۔‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت31)۔

نعش دفن کرنے کا طریقہ کوّے نے سکھایا: قابیل نے اپنے بھائی کو قتل تو کردیا، لیکن اب وہ نہایت پریشان تھا کہ اس نعش کا کیا کرے؟ یہ زمین پر کسی انسان کا پہلا قتل تھا۔ بعض مفسّرین نے ذکر کیا ہے کہ جب قابیل اپنے بھائی کو قتل کرچکا تو اس کی نعش ایک سال تک اپنی پشت پر لادے پھرتا رہا۔ اہلِ کتاب سے منقول ہے کہ دمشق کے شمال میں ایک پہاڑ ’’جبلِ قاسیون‘‘ میں وہ غار موجود ہے، جس میں قابیل نے پتھر مار کر ہابیل کو قتل کیا تھا۔ یہ غار آج بھی ’’خونی غار‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ 

اس بات کی صحت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ بعض مفسّرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو کوّوں کو بھیجا تھا۔ اسماعیل بن عبدالرحمٰن بن ابی کریمہ مفسّرِ قرآن ہیں اور ’’سدی‘‘ کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔ وہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ وہ کوّے دونوں بھائی تھے۔ پھر دونوں لڑنے لگے، حتیٰ کہ ایک نے دوسرے کو ہلاک کردیا۔ پھر وہ قتل کے بعد زمین کی طرف جُھکا اور اسے کھودنے لگا۔ پھر گڑھے میں کوّے کو ڈالا اور اسے دفن کرکے چُھپادیا۔ جب قابیل نے یہ سب دیکھا، تو پُکار اٹھا ’’ہائے افسوس کہ مَیں اس کوّے کی طرح ہونے سے بھی عاجز ہوگیا کہ اپنے بھائی کی لاش چُھپا لوں۔‘‘ پھر قابیل نے کوّے کی پیروی کرتے ہوئے بھائی کو دفن کرکے چُھپادیا۔ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیر، صفحہ 68)۔

ہابیل کا غم اور نئے فرزند کی ولادت: اہلِ سیر لکھتے ہیں کہ حضرت آدمؑ کو اپنے فرزند ہابیل کے قتل کا سخت رنج و غم تھا، کیوں کہ وہ ان کا جانشین تھا۔ حضرت آدمؑ اس کی یاد میں چالیس سال تک روتے رہے، یہاں تک کہ اللہ نے انھیں ہابیل کے بدلے ایک نہایت نیک اور سعادت مند فرزند عطا فرمایا۔ حضرت آدم اور حضرت حوّاؑ نے اُن کا نام ’’شیث‘‘ رکھا، جس کے معنی ہیں، اللہ کا عطیہ۔ حضرت شیث کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا۔

قتلِ ناحق کا پہلا موجد: ہابیل کی نعش دفنانے کے بعد قابیل کو والد کے غصّے کا خوف تھا، چناں چہ شیطان کے مشورے پر وہ یمن فرار ہوگیا، جہاں اس نے سکونت اختیارکرلی اور والد کے دین حق کو چھوڑ کر پہلے آتش پرستی، بعدازاں، بُت پرستی شروع کردی۔ دنیا میں قتل و غارت گردی، حسد و فساد اور آتش پرستی و بُت پرستی کی بنیاد قابیل ہی نے رکھی۔ 

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جب بھی کوئی انسان ظلم سے قتل کیا جاتا ہے تو حضرت آدمؑ کے سب سے پہلے بیٹے (قابیل) کے نامۂ اعمال میں بھی اس قتل کا گناہ لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ قتلِ ناحق کا پہلا موجد وہی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری 3335، ترمذی 2673، سنن ابنِ ماجہ 2616)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ’’قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں میں خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘ (جامع ترمذی 1396، صحیح مسلم 4381، ابنِ ماجہ 2615)۔

ایک بے گناہ کا قتل، تمام انسانوں کا قتل ہے: ہابیل اور قابیل کے اس قصّے میں اللہ تعالیٰ آگے مزید فرماتا ہے کہ ’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے، تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جو شخص کسی کی ایک جان بچالے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا۔‘‘ (سورۃ المائدہ 32)۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ کے یہاں انسانی خون کی کتنی اہمیت اور تکریم ہے۔ اور یہ اصول صرف بنی اسرائیل ہی کے لیے نہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہمیشہ کے لیے ہے۔ علامہ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ ’’قابیل کو ہابیل کے قتلِ ناحق کی دنیاوی سزا فوری طور پر اس طرح دے دی گئی کہ اس کی پنڈلی اس کی ران کے ساتھ چمٹ گئی، اور جس طرف سورج کا رُخ ہوتا، اس کا چہرہ بھی ازخود اُدھر ہی گھوم جاتا۔ اپنے بھائی کے ساتھ حسد، سرکشی اور گناہ کی وجہ سے اُسے یہ رسوائی اور عذاب ملا۔ جب کہ آخرت کا عذاب سخت اور اپنی جگہ قائم ہے۔‘‘ (ابنِ کثیر، صفحہ 70)۔

قصّہ بیان کرنے کا مقصد: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع، قرآنِ کریم میں بیان کیے گئے قصّوں سےمتعلق فرماتے ہیں کہ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ قرآنِ کریم کوئی قصّہ، کہانی یا تاریخ کی کتاب نہیں ہے کہ جس کا مقصد کسی واقعے کو اوّل سے آخر تک بیان کرنا ہو، لیکن ماضی کے واقعات اور گزشتہ اقوام کے قصص اپنے دامن میں بہت سی عبرتیں اور نصیحتیں رکھتے ہیں، یہی تاریخ کی اصل رُوح ہے اور اُن میں بہت سے حالات و واقعات ایسے بھی ہیں، جو مختلف احکامِ شرعیہ کی بنیاد ہیں۔ 

انہی فوائد کے پیشِ نظر قرآنِ کریم کا اسلوب ہر جگہ یہ ہے کہ موقع بہ موقع کوئی واقعہ بیان کرتا ہے اور اکثر پورا واقعہ بھی ایک جگہ بیان نہیں کرتا، بلکہ اس کے جتنے حصّے سے اُس جگہ کا کوئی مقصد، تعلق ہو، تو اُس کا وہی ٹکڑا وہاں بیان کردیا جاتا ہے۔ حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصّہ بھی اسی اسلوبِ پر نقل کیا جارہا ہے۔ اس میں موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے بہت سی عبرتیں اور مواعظ ہیں۔ اور اس ضمن میں بہت سے احکامِ شرعیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ (قصص الانبیاء، صفحہ 78)۔