اسلام آباد(محمد صالح ظافر/خصوصی تجزیہ نگار)ملک میں پہلی مرتبہ صدر اور وزیراعظم ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ ہوں گے۔
آئندہ ہفتے سے عارف علوی نگران صدر کی حیثیت اختیار کرلیں گے، انہیں اہم قومی معاملات میں محدود کردار کا پابند بنادیا جائے گا، عام انتخابات کے نظام الاوقات کا اعلان ہوتے ہی صدر سے سبکدوش ہونے کی سفارش، وہ غیر جانبدارانہ طور پر کردار ادا کرنے میں مکمل ناکام رہے ان پر تحریک انصاف کی چھاپ لگاتار گہری ہو رہی ہے۔
عارف علوی آئندہ ہفتے کے دن سے ملک کے نگران صدر کی حیثیت اختیار کر لیں گے اس روز ان کی آئینی میعاد ختم ہو جائے گی اس طرح ملک میں وزیراعظم اور صدر دونوں اپنے عہدوں پر’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ کی حیثیت کے حامل ہوں گے۔
پڑوسی ملک میں نگران حکومت کو ڈنگ ٹپاؤ سرکار کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ صدر اور وزیراعظم نگران حیثیت کے حامل ہوں گے تاہم ایوان صدر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر عارف علوی نے اپنے حوالے سے تجاویز پر کوئی فوری ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
حددرجہ قابل اعتماد ذرائع نے بتایا ہے کہ صدر مملکت پر واضح کردیا گیا ہے کہ وہ قومی معاملات صرف اس وقت کوئی کردار ادا کریں گے۔ جب ان کے لئے اس کی انجام دہی اشد ضروری ہوگی اور اس کی نشاندہی وفاقی حکومت کرے گی ازروئے آئین صدر مملکت اپنے منصب پر اس وقت تک برقرار رہیں گے۔ جب تک ان کی جگہ نئے صدر کا چناؤ عمل میں نہیں آجاتی، ملک کے مخصوص حالات میں صدر عارف علوی سے ان کی آئینی مدت پورا ہونے کے بعد کیا جائے گا۔
وہ ایسے موقعہ پر جب ملک عام انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے اور نگران وفاقی حکومت سختی کے ساتھ غیر جانبدارانہ طور پر نیا کردار ادا کرتے ہوئے خدمات انجام دے رہی ہے۔ ملک کی معاشی مشکلات بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور ملک کو سیاسی استحکام کی شدید ترین ضرورت ہے۔
بطور صدر مملکت ان کے بارے میں یہ تاثر عام رہا ہے کہ وہ اپنی سیاسی وابستگیوں کے دائرے سے کبھی باہر نہیں نکل سکے اور انہوں نے تحریک انصاف کا دمساز ہوتے ہوئے ہر وہ قدم اٹھایا جس سے اس جماعت کے جائز و ناجائز مقاصد پورے ہوئے۔ ان حالات میں صدر مملکت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنا کردار مکمل غیر جانبداری اور دیانتداری سے انجام دے گا۔
ذرائع کے مطابق صدر عارف علوی سے ان کی میعاد پورا ہونے کے فوری بعد دریافت کیا جائے گا۔ وہ ملک میں آئندہ انتخابات کے نظام الاوقات کا اعلان ہونے سے کتنے دن پہلے اپنی ذمہ داریوں سے دستکش ہو سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی کی عدم موجودگی کے باعث صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک منظور نہیں ہو سکتی اسی طرح صوبائی اسمبلیاں موجود نہ ہونے سے صدر مملکت کا حلقہ انتخاب ہی عدم موجود ہوگیا ہے۔ ان حالات میں آئین کی بعض دفعات کا سہارا لیکر صدر مملکت کے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی صلاحیتوں کے بارے میں سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر کو مشورہ دیا جائے گا کہ وہ ایسی تادیبی کارروائی سے پہلے رضا کارانہ طور پر باوقار انداز میں مستعفی ہو جائیں اور ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاریں اگر ایسا نہ ہوا تو پھر صدر کے حوالے سے کئی اقدامات ان کی صدارت سے سبکدوشی کے بعد عمل میں لائی جاسکیں گی۔
تحریک انصاف کے رہنما صدر عارف علوی سے بکثرت ملے ہیں یہ سلسلہ بدستور جاری ہے جبکہ کم و بیش دیگر تمام سیاسی جماعتیں عارف علوی سے کوئی رابطہ راہ و رسم نہیں رکھتیں۔ جس سے بطور صدر ان کے کردار کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار ہو رہا ہے۔
ایوان صدر کے ذرائع نے ’’جنگ‘‘ کے خصوصی سینٹرل رپورٹنگ سیل کو بتایا ہے کہ صدر عارف علوی نے اپنے حوالے سے تجاویز پر کوئی فوری ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
امکان یہی ہے کہ عام انتخابات کا نظام الاوقات جاری ہوتے ہی وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کے بارے میں لائحہ عمل جاری کر دیں گے۔ اس صورت حال کے بارے صدر عارف علوی کے تاثرات حاصل کرنے کی غرض سے ان کے ترجمان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ دستیاب نہیں ہوسکے۔