• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عوام کے تمام مسائل پس پشت ڈال کر تمام اخبارات اور چینلوں میں صرف دو موضوعات پر بحث زوروں پر نظر آتی ہے ایک یہ کہ کیا پرویز مشرف کو عدالت میں حاضری سے استثنیٰ ملنا چاہئے یا ان کو غداری کیس میں سزا ملنی چاہئے یا نہیں؟اور دوسراموضوع بحث یہ ہے کہ طالبان سے بات چیت ہونی چاہئے یا جنگ؟ لگتا ہے کہ پاکستان میں صرف یہی دو مسائل رہ گئے ہیں باقی تمام مسائل حل ہو چکے ہیں۔
پی پی پی کا گزشتہ دور حکومت شروع ہواتو آصف علی زرداری صدر بنے انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر پیش کر کے خوبصورتی سے رخصت کر دیا اور 5سال تک سکون کے ساتھ حکومت کر کے ماضی کی تمام جمہوری حکومتوں کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ انہوں نے دانش مندی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) سے بھی ہاتھ ملا کر حکومت کرنی چاہی مگر میاں محمد نوازشریف صاحب نے ہاتھ کھینچ لیا تو مجبوراً زرداری صاحب نے مسلم لیگ (ق) سے ہاتھ ملا لیا اور چوہدری برادران کی مسلم لیگ (ن) سے مفاہمت نہ ہوسکنے کے باعث ان کی پارٹی مسلم لیگ (ق) مجبوراً پی پی پی حکومت میں شامل ہو گئی اور یوں دونوں مسلم لیگوں کے درمیان فاصلے ختم نہ ہوسکے جو آج تک برقرار ہیں۔ البتہ کچھ کو مسلم لیگ (ن) والوں نے معاف کر کے اپنے ساتھ شامل کر لیا مگر شیخ رشید اورچوہدری برادران جو پرویز مشرف کے بہت قریب تھے ان کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ برقرار رہا۔
اب اگر متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین اور چوہدری برادران پرویز مشرف کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہوئے ان کو سزا سے بچانا چاہتے ہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں، یہ سیاسی عمل ہی کا ایک حصہ ہے ۔بعض حلقوں کا یہ کہنا کہ پرویز مشرف کی تمام کیسوں میں ضمانت ہونے کے بعد ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانا فوج کو اندر سے ناراض کرنے کا باعث بن سکتاہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ آج تک آئین توڑنا تو کجا ملک توڑنے والے جنرل یحییٰ خان کو سزا دینا ایک طرف آج تک مشرقی پاکستان کے سقوط ڈھاکہ کا حمود الرحمن کمیشن رپورٹ تک فوج کے دباؤ کے سبب منظر عام پر لانے کی کوئی جرأت نہیں کر سکا۔ پھر ضیاء الحق کے مارشل لا کو بھی اس وقت کی عدلیہ نے جواز مہیا کیااور سیاستدانوں نے ان کو آخری وقت تک اقتدار میں رکھا۔ اب لے دے کر پرویز مشرف جو عدلیہ ہی کی وجہ سے اپنے اقتدار کو دوام دے چکے تھے، کیسے 8سال بعد سزا پائیں گے۔ انہیں غداری کے جرم میں سزا دلوانا ایک بھول اور سیاسی غلطی کے سوا کچھ نہیں ۔ بہتر یہی تھا کہ پرویز مشرف کو جس طرح زرداری صاحب نے محفوظ راستہ دے دیا تھا موجودہ حکومت بھی ایسا کرتی تو بہتر ہوتا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر لحاظ سے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کا دور حکومت پرویز مشرف سے بہتر تو کجا برابر بھی نہیں ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں اکبر بگٹی کے قتل، لال مسجد پر چڑھائی کو ہم قابل مذمت ضرور کہہ سکتے ہیں مگر ان کے دور میں نہ تو مہنگائی اتنی بڑھی تھی اور نہ ہی دہشت گردی اتنے زوروں پر تھی۔ آج لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ دہشت گرد دن دہاڑے جہاں چاہتے ہیں جس کو چاہتے ہیں اپنا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ صرف فنگر پرنٹس کے علاوہ آج تک کوئی بھی دہشت گرد نہیں پکڑا جا سکا۔ عوام سہمے ہوئے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں ، وزیر داخلہ اسلام آباد میں بیٹھے بیٹھے اپنا بیان دے کر اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں ۔ حزب اختلاف سے بھی الجھتے رہتے ہیں ۔ وزیر اعظم صاحب قومی اسمبلی میں آنے سے گریزاں رہتے ہیں مگر سب ٹھیک ہے یا پھر ٹھیک ہو جائے گاجیسا عوامی دلاسہ اب اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں پرویز مشرف کیس میں یکطرفہ مقابلہ اور انہیں سزا دلوانے کی کوشش مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لئے نئی مشکلات کھڑی نہ کردے ۔ آج تک ہمارے ملک میں فوجی انقلابوں سے عوامی حکومتیں تو ضرور ہلی ہیں مگر کسی آمر کو کبھی کوئی سزا نہیں دی جاسکی۔ صرف برادر ملک ترکی میں ایک مثال ضرور قائم ہوئی ہے اور بنگلہ دیش میں جزوی سزا ہوئی ہے مگر وزیر اعظم حسینہ واجد کے لئے یہ عمل بہت مہنگا ثابت ہو رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں کسی سابق فوجی حکمران کو سزا دینا ناقابل عمل ہے۔ ایک طرف موجودہ حکومت کی کارکردگی اب تک مایوس کن ہے۔ اس پر بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کسی بدشگونی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے اب بھی میاں نواز شریف صاحب کے کم و بیش وہی مشیر اِن کے گرد ہیں جو اکتوبر 1999ء میں تھے اور تصادم کرانے میں پیش پیش تھے جس کے نتیجے میں نواز شریف صاحب کی حکومت ختم ہو گئی۔ ان کے ایک زبردست حامی سینئر کالم نویس انہیں بار بار اس پنڈورا بکس سے دور رہنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ مجھے بھی میاں صاحب کے اس مخلص دوست سے اتفاق ہے کہ اگر وہ پرویز مشرف کے مسئلے کو مٹی پا کر اپنے آپ کو مزید امتحان سے دور رکھیں تو بہتر ہے۔
تازہ ترین