• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدیو اور چیمبو لاک

؎ دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب.....تو سمجھتا ہے ، آزادی کی ہے نیلم پری۔ ستپائیوا میرا سے تقریباً تیس منٹ کی ڈرائیو پر مدیو واقع ہے۔ سطحِ سمندر سے اس کی بلندی تقریباً 1700میٹر ہے۔ یہاں ایک بہت خُوب صُورت آئس رنک موجود ہے، جس کا رقبہ تقریباً10500مربع میٹر ہے۔ یہ انتہائی دل کش اور خُوب صُورت مقام ہے۔ آئس رنک کے اسٹیڈیم میں داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہے اور اگرآپ اسکیٹنگ جانتے ہیں، تو پھر اس دل چسپ تفریح سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ 

جب پہلی بار دفتر کے ایک ساتھی کے ساتھ ہم یہاں آئے، تو اسٹیڈیم جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، لیکن آمنہ کے آجانے کے بعد دوبارہ مدیو آنا ہوا، اسٹیڈیم کے اندر جاکر معلوم ہوا کہ یہ تو ایک شاہ کار ہے، جو پہاڑوں کے دامن میں انتہائی شان دار انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اسٹیڈیم کے پہلو سے بل کھاتی سڑک سے، چیمبو لاک کی جانب جاتے ہوئے یہ اور بھی دل کش دکھائی دیتا ہے۔ (اس سے قبل ہم صرف چیمبو لاک سکی ریزورٹ ہی تک گئے تھے، جو کہ 2300میٹر کی بلندی پر واقع ہے)۔ 

اس وقت ہمیں مدیو، چیمبو لاک سے زیادہ بھایا تھا، لیکن فروری 2006ء کی ایک یخ بستہ شام اپنے دوست صداقت بھائی کی دعوت پر، جو تیل کی ایک کمپنی میں انجینئر ہیں، جب ہم نے چیمبو لاک کی بلندیوں کا نظاہ کیا، تو ششد رہ گئے۔ چیمبولاک سکی ریزورٹ سے آسمان کی طرف بڑھتے ہوئے چیئر لفٹ پہاڑ پر تیرتی چلی جارہی تھی، جب کہ ہرطرف پہاڑوں نے سفید لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ لفٹ پر سفر کے آغاز میں موسم کِھلا کِھلا اور فضا بالکل صاف تھی، لیکن پہلے پڑائو پر پہنچے، تو ہر طرف گہری دُھند چھاگئی۔ پہاڑ کی ہر چھوٹی بڑی اونچائی اور ڈھلوان سے اسکیٹنگ کرنے والے مرد وزن اُبھرتے اور پھر غائب ہوجاتے، کچھ قلا بازی کھا کر گرجاتے۔ 

بڑی مہارت اور تیزی سے پہاڑ کے نشیب سے اُترتے اور بلندیوں کی طرف رواں دواں اسکیٹنگ میں مصروف افراد کو دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔ پہلے پڑائو پر سب اکٹھے ہوئے اور ابھی لفٹ کے ذریعے دوسرے پڑائو کا سفر شروع ہوا ہی تھا کہ راستے ہی میں برف باری نے آلیا۔ چیئرلفٹ مزید عمودی ہوگئی تھی اور دل فریب مناظر دکھاتے ہوئے اپنی مخصوص رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی۔ تاہم، موسم کی شدّت کے سبب ہم لفٹ کے آخری پڑائو تک نہ جاسکے، جس کا بہت افسوس رہا۔ 

واپسی پر ہم نے مدیو کے دامن میں برف کے اوپر ایک مناسب جگہ تلاش کی اور کھانے پینے کا سامان سجادیا۔ صداقت بھائی کی اہلیہ یوکرین سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن انھوں نے لذیذ پاکستانی کھانے بہت مہارت سے پکاکر اچھی طرح پیک کیے ہوئے تھے۔ ہم شدید ترین سرد فضا میں گرما گرم لذیذ کھانوں سے خوب لُطف اندوز ہوئے اور کھانے کے بعد گرماگرم چائے نے تو گویا ہم سب کے جسموں میں جیسے جان ہی ڈال دی تھی۔ یہ الماتا میں قیام کے دوران ہمارا سب سے یادگار دن تھا۔

مُلک سے باہر پہلا جشنِ آزادی

اپنے ملک سے دُور کہیں بھی چلے جائیں، گھر اور وطن کی محبّت بہت تڑپاتی ہے۔ گھر سے دُور گھر کی یاد اور وطن سے دُور وطن کی یاد لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں اطلاع ملی کہ 14اگست کو پاکستان کے سفارت خانے میں یومِ آزادی کے حوالے سے ایک پروگرام کا اہتمام کیا گیا ہے، جس میں شرکت کی ہمیں بھی خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ پاکستان میں تو یومِ آزادی ٹی وی کے سامنے گزرتا تھا، لیکن یہاں دیگر ممالک کی طرح تمام پاکستانی اکٹھے ہوتے ہیں۔

پرچم کشائی کے علاوہ سفیر صاحب کے توسّط سے صدر اور وزیر اعظم کا خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔ سچ کہوں تو یوم آزادی کی مناسبت سے دیارِ غیر میں منعقدہ اس طرح کی پُروقار تقاریب باعثِ افتخار و سکون ہوتی ہیں۔ ڈگری کالج، ایبٹ آباد میں تعلیم کے دوران ہم بھی سیاسی و غیرسیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصّہ لیتے تھے۔ اس دوران کئی طلبہ کے ساتھ بالواسطہ اور بلاواسطہ رابطہ بھی رہتا تھا، لیکن حصولِ تعلیم کے بعد سب رابطے، تعلق ٹوٹ گئے۔ ایسے میں جب دیارِ غیر میں کسی کالج فیلو سے سے اچانک ملاقات ہوجاتی، تو جیسے پورا خوش گوار ماضی نگاہوں کے سامنے آجاتا اور اس تعارف و تعلق کی اہمیت دوچند ہوجاتی۔ 

پاکستان کے یومِ آزادی کی اس تقریب میں بھی ایک سابقہ کالج فیلو سے اچانک ملاقات ہوئی، تو بے انتہا خوشی ہوئی۔ اگرچہ کالج میں ہم مخالف جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے، لیکن یہاں دونوں سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے بہت اچھے دوستوں کی طرح ملے۔ یعنی عملی زندگی میں یہ بات بھی اچھی طرح واضح ہوگئی کہ دورِ طالب علمی میں ہم بلا ضرورت جذباتی ہوکر اپنے موقف کا پرچار کرتے رہتے ہیں، حالاں کہ اگر اُس دور میں ہم تھوڑی سی نرمی اور لچک دکھائیں، تو کئی بہت اچھے لوگ ہمارے حلقہ احباب میں شامل ہوسکتے ہیں۔بہرحال، 14اگست ، یومِ آزادی کے حوالے سے ملک سے باہر یہ پہلی تقریب تھی، جس میں ہم نے شرکت کی اور اس دوران ہر لمحہ ملک اور گھر کی یاد بہت تڑپاتی رہی۔

قدرتی وسائل سے مالا مال ملک

قازقستان قدرتی وسائل سے مالامال ایک انتہائی خوش قسمت اسلامی ملک ہے۔ الحمدللہ ،دنیا کے تمام ہی اسلامی ممالک پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم و فضل ہے کہ جا بجا قدرتی وسائل کی فراوانی نظر آتی ہے۔ تیل، گیس سمیت دیگر معدنیات حتیٰ کہ پانی کے اسٹریٹجک وسائل سے بھی اسلامی دنیا مزیّن ہے۔ بحیرئہ احمر، نہرِ سویز، خلیج عدن اور خلیج فارس کو دیکھ لیجیے، بحیرئہ اسود اور بحیرئہ روم کا ملاپ دیکھ لیں، ہر طرف قدرت کی فیّاضی نظر آئے گی۔ زیادہ دُور مت جائیں، گوادر ہی کا محلِ وقوع دیکھ لیں، جو قدرت کی صنّاعی کا شاہ کار ہے۔ 

کس قدر دکھ کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں سے مالا مال اسلامی دنیا پھر بھی رنج و الم سے بھرپور دَور سے گزر رہی ہے، جس کی وجہ اور کوئی نہیں کہ تعلیم و تربیت، محنت و مشقّت سے عدم رغبت، سائنس و تحقیق سے عدم دل چسپی ہمیں ان تکلیف دہ حالات تک پہنچانے کا سبب بنے ہیں۔ 

بہرحال، بات ہورہی تھی قازقستان کی، جو تیل و گیس کے ذخائر سے مالا مال ایک خوش حال ملک ہے۔ امکان ہے کہ تیل کی پیداوار کے لحاظ سے قازقستان جلد ہی پہلے دس ممالک میں شامل ہوجائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں 4ملین ٹن تیل اور تین ٹریلین کیوبک میٹر گیس کے ذخائر کے علاوہ دیگر معدنیات یعنی یورینیم، کرومیم، سیسے، زنک، میگانیز، کاپر، کوئلے، لوہے اور سونے کے ذخائر موجود ہیں۔

امارت و غربت کے بیچ خلیج

ایک طرف قدرتی وسائل کا انبار،تو دوسری طرف ’’کوانش‘‘ جیسا ایک نوجوان بھی تھا، جس کے پاس اپنی بہن کے علاج کے لیے رقم نہیں تھی۔ سڑکوں پر پھسلتی سُبک رفتار گاڑیوں کے نت نئے ماڈلز اور سرِشام روشن ہونے والی شاہ راہوں کے بیچ آویزاں پھول دار جالیوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ قازقستان کا ہر باشندہ خُوب سُکھ، چین اور راحت کی زندگی گزار رہا ہے، لیکن ہمارا واسطہ یہاں ایسے لوگوں سے بھی پڑا، جو اَن تھک محنت اورشب و روز کوشاں رہنے کے باوجود اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی بھی پوری کرنے سے قاصرہیں۔ اُن ہی میں سے ایک بوتا نامی خاتون بھی تھیں، جو اپنے ایک بچّے کی پرورش سے بھی قاصر تھیں۔ 

یوں تو اسپتالوں میں کہنے کو کوئی معائنہ فیس مقرر نہیں، لیکن ہر مریض اپنے معائنے کے بعد کچھ رقم ڈاکٹر کی مٹّھی میں ڈال دیتا ہے۔ ہمارے استفسار پردینارہ نامی خاتون نے بتایا، چوں کہ ڈاکٹرز کی تن خواہیں کم ہیں، اس لیے لوگ اپنی مرضی سے کچھ نہ کچھ ضرور دے جاتے ہیں۔ ویسے ایک اندازے کے مطابق، ملک کی ایک تہائی آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ 17ملین نفوس پر مشتمل اس وسیع و عریض امیر ملک کے معاشی مسائل کی ایک وجہ جو ہماری سمجھ میں آئی، وہ یہ تھی کہ یہاں کاانسان جدید معاشی فلسفوں میں الجھ کر بھٹک رہا ہے۔

آسمان سے گِرا کھجور میں اٹکا

اسے امارت و غربت کی تفریق کا شاخسانہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ قازقستان کمیونزم سے نکل کر کیپیٹل ازم میں پھنس گیا ہے۔ کمیونزم میں انفرادی ملکیت کا قلع قمع کرکے معاشرے سے انسان کی فطری دل چسپی ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم، اس نظامِ قدرت کا تنوّع اور اُونچ نیچ ختم کرنے کی کوشش کرنے والے خود نیست و نابود ہوگئے۔ 

بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ پورے انسانی معاشرے کے وسائل کو تمام تر افراد میں بالکل ٹھیک اور یک ساں تقسیم کیا جاسکے۔ ہاں، یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص انسانی معاشرے میں بنیادی ضروریاتِ زندگی کو نہ ترسے، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ انسان کوئی ایسا نظام تشکیل دے سکتا ہے کہ جس میں تمام وسائل اور پیداوار معاشرے کے تمام افراد کی دسترس میں اور بالکل برابر ہوں، کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کمیونزم کے پیروکاروں نے اپنے ان تمام دعووں کے باوجود ایک انتہائی غیر متوازن معاشرہ تشکیل دیا۔ اب دوسری انتہا، سرمایہ دارانہ نظام دیکھیے کہ جہاں انسان کو انفرادی ملکیت کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ وسائل اور پیداوار کے تمام ذرائع پراس کا کنٹرول ہے۔ جس کے پاس سرمایہ ہے، اُسے تمام ذرائع استعمال کرکے منافع کمانے کی بھرپور اجازت ہے۔ یعنی مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں ذاتی مفاد، سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہے۔ قازقستان کے باشندے پہلے سوشل ازم اور کمیونزم کے نام پر قدرت کے عطا کردہ بے پایاں وسائل سے محروم رہے، توآ ج کیپیٹل ازم کے خوں خوار پنجوں میں اپنی قدرتی دولت دیکھ کر سیخ پا تو ہوتے ہیں، مگر کر کچھ نہیں سکتے۔ 

یہ حقیقت ہے کہ آج پوری دنیا ایک بارپھر شدید معاشی بحران کا شکار ہے، تو ایسی سنگین صورت حال میں یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ اس دنیا میں موجود تمام وسائل کا مقصد صرف منافعے کا حصول نہیں، بلکہ انسانی فلاح و بہود، سُکھ، چین بھی اوّلین مقاصد ہیں اور معاشرے کے تمام افراد کو اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق ان وسائل کو بروئے کار لاکر انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو خوش گوار بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے ہمیں مولانا مودودیؒ کی وہ بات یاد آرہی ہے کہ ’’کمیونزم ماسکو میں بھی نہیں رہے گا اور کیپٹل ازم کو واشنگٹن میں بھی جگہ نہیں ملے گی۔‘‘ 

بہرحال، اگر دیکھا جائے، تو قازقستان کے عوام کو سوویت یونین ٹوٹنے سے بھی کچھ نہ ملا۔ پہلے کمیونسٹوں کی اجارہ داری تھی، آج سرمایہ داروں کی ہے۔ ویسے ہمیں لگتا ہے کہ پوری دنیا کے انسان یکایک اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اس شیطانی نظام سے بھی بہت جلد چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔ دنیا بھر میں اسلامی نظامِ معیشت سے متعلق بہت دل چسپی پائی جاتی ہے اور سودی نظام کے خلاف، جوکہ سرمایہ داری کی روح ہے، اب ہرمکتبۂ فکر سے آواز اٹھنے لگی ہے۔ 

شاید وہ وقت آ نے والا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے وسائل سے ہرکوئی اپنی صلاحیت اور ضرورت کے مطابق اپنا حصّہ حاصل کرسکے گا اور وہ افراد، جو کچھ حاصل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوں گے، اُنھیں گردوپیش کے افراد بھوکا نہیں رہنے دیں گے۔ اگر کوئی مورٹ گیج پراپرٹی کی قسط جمع نہیں کرواسکے گا، تو کوئی اُسے فورکلوژر کرکے گھر سے فٹ پاتھ پر نہیں لاسکے گا۔ اسی طرح ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے کوئی راتوں رات لاکھوں روپے نہیں کما سکے گا۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ، بہت جلد یہ ہوکر رہے گا۔ (جاری ہے)