• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عبدالسّتار عبّاسی پچھلے تیس برسوں میں مختلف اداروںمیں کئی اہم عُہدوں پر فائز رہے ، جب کہ گزشتہ گیارہ برس سے کامسیٹس یونی وَرسٹی، لاہور میں بطور صدرِ شعبہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل لگ بھگ 19 برس تک پاکستان کے علاوہ قازقستان، تاجکستان، ازبکستان اور آذربائیجان کے صنعتی شعبے سے منسلک رہے۔ ڈاکٹر عبّاسی کی اب تک تین کُتب شایع ہو چُکی ہیں، جن میں سے ایک ’’دَورِ جدید اور اسلامی اخلاقیات کار‘‘امریکا سے، جب کہ دو کتب’’اسلامی مالیاتی نظام‘‘ اور ’’پاکستان کے سیّاحتی مقامات اور ان کا انتظام و انصرام‘‘ پاکستان سے شایع ہوئیں۔

قریباً پچاس تحقیقی مقالہ جات مُلکی وبین الاقوامی تحقیقی جرائد میں چَھپ چُکے ہیں۔ ڈاکٹر عبّاسی ہائر ایجوکیشن کمیشن(ایچ ای سی) سے تسلیم شُدہ تحقیقی مجلّے کے مدیر ہونے کے ساتھ ایک بین الاقوامی تحقیقی جریدے کے جنوبی و وسطی ایشیا کے شریک مدیر بھی ہیں۔ ان کا وسیع تجربہ، دَورِ جدید کے ڈیڑھ درجن سے بھی زیادہ ممالک، انگلستان سے چِین اور ملائشیا سے سعودی عرب تک کا احاطہ کرتا ہے۔

صنعتی شعبے میں کام کے دوران ڈاکٹر عبّاسی کوموقع ملاکہ پاکستان کےلیے بین الاقوامی مارکیٹ تیار کریں تاکہ برآمدات بڑھائی جا سکیں اوراسی سلسلےمیں وسط ایشیائی ممالک میں بھی تعیناتی رہی۔ یاد رہے، مارکیٹ ڈیولپمنٹ ایک انتہائی کٹھن، لیکن دل چسپ کام ہے، جو مُلک کے گلی کُوچوں سےحکومتی ایوانوں تک ہر سطح پر توجّہ کا طالب ہوتا ہے اور اس حوالے سے اُنہیں جن ممالک کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، وہاں کی رُودادقلم و قرطاس کی نذر کر دی۔

وسط ایشیا، براعظم ایشیا کا وہ وسیع علاقہ ہے، جس کی سرحدیں کسی سمندر کی سرزمین سے نہیں ملتیں۔ یہ گرم و خشک صحراؤں اور بلند پہاڑوں کی سرزمین ہے، جو قدیم و اہم ترین تجارتی شاہ راہ ’’شاہ راہِ ریشم‘‘ کے ساتھ واقع ہے اور 15 ویں صدی تک یورپ اور چین کے درمیان تجارت کا راستہ تھی۔ سوائے افغانستان کے اس خطّے کے تمام ممالک 1920ء سے 1991ء تک سوویت یونین کے قبضے میں رہے۔ وسطی ایشیا کی تاریخ اُتنی ہی قدیم ہے، جتنی کہ خود انسانی تاریخ۔ 

جدید تحقیق کے مطابق پہلی صدی قبل مسیح میں بھی یہاں باقاعدہ انسانی آبادیاں موجود تھیں۔ پھرظہورِ اسلام کی پہلی ہی صدی میں اسلام کا پیغام ان علاقوں میں پہنچنا شروع ہوا،تو پندرہویں صدی عیسوی تک پورا خطّہ مشرف بہ اسلام ہو چُکا تھا۔یہاں ابتداً ایغور، پھر منگول اور پھر سلطنتِ تیموری کا غلبہ رہا۔ البتہ، 15 ویں سے 19 ویں صدی کے اواخر تک ازبک حکم رانوں کا دَور دورہ تھا،حتیٰ کہ رُوسی زار شاہی اور پھر سوویت یونین کی حکم رانی رہی ،تا آنکہ 20 ویں صدی کے اواخر میں تمام وسط ایشیائی ریاستوں نے آزادی حاصل کر لی۔

وسط ایشیائی ریاستیں کوئلے،معدنی تیل،قدرتی گیس اور دیگرمعدنیات سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ خُوب صُورت نظاروں کی بھی آماج گاہ ہیں۔زراعت ، پارچہ بافی، چمڑا سازی کے ساتھ اپنے رنگین روایتی قالینوں کے باعث بھی عالم گیر شہرت رکھتی ہیں، جو قراقل بھیڑوں سے حاصل کردہ اون سے تیار کیے جاتے ہیں۔ ہمارے تاب ناک ماضی کی امین یہ مسلمان ریاستیں بہترین مستقبل کی متلاشی ہیں اور موجودہ دَور میں چِین کے ’’ایک خطّے، ایک شاہ راہ‘‘ پروگرام کے باعث بھی ان ممالک کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔

بہرکیف، اُمید کرتے ہیں کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے بطورِ خاص لکھا گیا یہ قسط وار سفرنامہ قارئین کے لیے ان ممالک سے آگہی اور دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ہمیںت حریر سے متعلق اپنی آراسے آگاہ کرنا ہرگز مت بھولیے گا۔

رات کا بہت ساحصّہ گزر چُکا تھا اور ہم کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈّے پر پرواز کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے۔ قریباً آدھی شب کے بعد ایک طرف سے دھیمی سی آواز سُنائی دی۔ ’’الماتا جانے والے مسافر آجائیں…‘‘بہت ہی دل چسپ انداز میں پرواز کی اطلاع کا اعلان ہوا، جو لوگ مستقل آنے جانے والے تھے، وہ تو اس انداز سے مانوس تھے، لیکن ہم جیسوں کے لیے کچھ نیا تھا۔ ہمارے ہم سفر دوست نے کہا ’’عبّاسی! بس رُکتے ہی اُتر جانا اور جلدی سے جہاز میں سوار ہو کر دائیں طرف کی پہلی دو نشستوں پر بیٹھ جانا۔‘‘ جس پر ہم نے کہا ’’ارے جناب! یہ کوئی ویگن یا بس نہیں، جہاز ہے اور ہمارے پاس بورڈنگ پاسز ہیں، جو دکھا کر اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ جائیں گے۔‘‘ وہ کہنے لگے’’یار! مَیں خود ہی کر لوں گا، تم پہلی مرتبہ الماتا جا رہے ہو، اس لیے ناواقف ہو۔ یہ ایک نجی چارٹرڈ فلائٹ ہے، جو دراصل سازو سامان لے جا نے کے لیے استعمال ہوتی ہے اور ڈائریکٹ فلائٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم لوگ اسی میں سفر کر تے ہیں۔‘‘یہ سُن کر تو ہم بےحد حیران ہوئے، بہرحال انہوں نے اپنے اور ہمارے لیے دائیں جانب کی پہلی دو نشستوں پہ قبضہ جمالیا، جو کہ واقعی پورے جہاز میں سب سے مناسب جگہ تھی۔ لمبے انتظار اور تھکاوٹ کے باعث تھوڑی ہی دیر بعد ہم سمیت تمام مسافر نیند کی آغوش میں چلے گئے۔

دمکتی صبح سے آنکھ کُھلی، تو زمین کی طرف دیکھا، جہاں دُوردُور تک برف سے ڈھکے چھوٹے بڑے پہاڑوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دکھائی دے رہا تھا۔اگست کا مہینہ اور 9 تاریخ تھی، جس میں یوں ہر طرف پہاڑوں کا سلسلہ نظروں کو خُوب بھایا اورساتھ ہی ہلکا سا خوف بھی دامن گیر ہوا۔ یہ جہاز ،یہ مقام… بہر حال، چند گھنٹوں بعد ہم ایک بہت ہی سر سبز شہر میں اُترنے کی تیاریاں کرنے لگے، یہ الماتا تھا،یعنی قازقستان کا کراچی۔

قازقستان، رقبے کے لحاظ سے اسلامی دنیا کا سب سے بڑا مُلک ہے، جو اپنے اندر بےشمار قدرتی وسائل اور تاریخ کے بہت سے راز سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ اگست 2004ء کی ایک ابر آلود صبح تھی، جب ہمارا جہاز پہاڑوں کے بیچ ایک سر سبز و شاداب شہر میں اُتر رہا تھا ’’الما‘‘ مقامی زبان میں سیب کو کہتے ہیں اورالماتا سے مراد ’’سیبوں کا شہر‘‘ ہے۔ کہتے ہیں ، الماتا کے سیب اس پورے علاقے میں اپنی تازگی اور مٹھاس کی وجہ سے بہت مشہور تھے، جس بنا پر اس شہر کا یہ نام پڑا۔ 

سابقہ سوویت یونین نے جہاں مسلمانوں کے ناموں کو جبراً ایک نئے اور عجیب و غریب اسلوب میں ڈھالا، وہاں علاقوں اور شہروں کے ناموں کو بھی اپنا رنگ دے دیا۔ روسی زبان میں الماتا کو الماتی کہا جاتا ہے، جو اس قدر عجیب نہیں، جتنا انسانوں کے نام ہیں مثلاً رجب سے رجبو،ظہور سے ظہورو، رحمان سے رحمانو وغیرہ وغیرہ۔

الماتا، قازقستان کا پہلا دارالخلافہ اور مُلک کا سب سے بڑا تجارتی مر کز ہے۔ یہاں ہمارا پہلا قیام سمال دوا کے علاقے میں ایک 16منزلہ عمارت کی بارہویں منزل پرتھا۔ ایک دن کے آرام کے بعد دفتر جانے کے لیے صبح نہا دھو کر فلیٹ سے نکلے، تو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ ٹیکسی والے کو کس طرح بتائیں گے کہ کہاں جانا ہے، کیوں کہ الماتا میں تو رُوسی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ بہرحال، ہمارے ایک کولیگ نے بتایا کہ ’’ٹیکسی والے کو صرف اتنا کہنا ہے کہ’’ نووی پلوشد ستو پید یسیات‘‘ یعنی نئے چوک تک جانا ہے اور150تنگے (قازقستانی کرنسی) دوں گا۔‘‘اور رُوسی زبان کے یہی دو الفاظ ہم نے سب سے پہلے سیکھے۔ 

چند روز کی تگ ودو کے بعد جب نیا فلیٹ ڈھونڈ کر اس میں رہائش اختیار کی، تو جن روزمرّہ معمولات کا سامنا ہوا، وہ زندگی بھر یاد رہیں گے۔ مثلاً دُکان سے اشیائے ضروریہ خریدنی ہیں، تو ایک مصیبت، اگر کہیں جانا ہے، تو ایک مسئلہ اور اگر واپس آنا ہے، تو پھر ایک اور پریشانی۔ خیر،ان تمام مسائل کے باو جود الماتا کے موسم اور سر سبز و شادابی نے بہت سی پریشانیوں کا مداوا کر دیا۔ ’’فرمانوا، تا شقنثقایا، الفارابی اور ستپائیوا‘‘ مرکزی شہر کی وہ شاہ راہیں ہیں، جن کو یاد رکھنے سے آدمی شہر کی تمام اہم جگہوں کا تعین کرسکتا ہے۔ 

الماتا کی ایک خاصیّت یہ بھی ہے کہ اس کی اکثر شاہ راہیں 90ڈگری پر ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور ہر جگہ کا پتا ہمیشہ دو شاہ راہیں کراس کر کے آتا ہے، مثلاً ’’میرا دفتر ،سیتائیوا-میرا پر تھا اور رہائش، تاشقنثقایا۔ پنفی لووا پر۔اس شہر میں ابتدائی دِنوں میں ہمیں دوباتوں کا بہت احساس ہوا، ایک تو یہ کہ جو لوگ سُن نہیں سکتے، وہ کس تکلیف سے گزرتے ہوں گے کہ ہماری قوتِ سماعت درست ہونے کے باوجود کچھ سمجھ نہیں آتا تھا اور دوسرا یہ کہ انسانی معاشرے میں ایک دوسرے کی بات سمجھنا کس قدراہم ہے۔قیام کے تیسرے ہی دن ہم اس نتیجے پر پہنچ چُکے تھے کہ رُوسی زبان سیکھے بغیر گزارہ نہیں۔

لہٰذا ایک طرف بہت تجربہ کار استانی کی خدمات حاصل کی گئیں ،تو دوسری طرف ایک مترجّم کی، جو دفتری امور میں معاونت کرہو سکے۔ الماتا کا سب سے پرانا حصّہ زیلونی بازار کے ارد گرد کا علاقہ ہے۔ آپ کو ضروریاتِ زندگی کی کوئی بھی شئے چاہیے ہو، تو وہاں چلے جائیں۔ ویسے شہر بَھر میں جگہ جگہ اچھی اور اعلیٰ معیار کی اشیائے ضروریہ کی لاتعداد مارکیٹس موجود ہیں۔ یہ مغربی تہذیب و تمدّن پر چلنے والا شہر ہے، جس کا لباس، طور اطوار، رہن سہن، کھانا پینا سب کچھ اُسی انداز میں ڈھلا ہواہے، لیکن اس کے باوجود لوگ خود کو انتہائی فخر سے مسلمان کہلوانا پسند کر تے ہیں۔ قریباً تمام قازق آبادی فقۂ حنفیہ سے تعلق رکھتی ہے، اس کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں رُوسی ارتھوڈوکس عیسائی بھی قازقستان کی آبادی کا حصّہ ہیں۔ 

کُل آبادی کا 73فی صد مسلمانوں، جب کہ 22فی صد عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ مسلمان آبادی میں اکثریت قازاق(67فی صد)کی ہے، پھر ازبک، اوی گور اور تاتار شامل ہیں۔ اس مُلک کے ریاستی رجحان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، لیکن رائے عامّہ کے کئی رجحانات وبیانات ہیں۔ جیسے کچھ مکمل مغربیت کی طرف، تو کچھ مکمل اسلام کی طرف، کچھ ماسکو سے وابستگی کو وجہ فخر محسوس کرتے ہیں اور کچھ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ 

کچھ پاکستان کو ’’محبوب پاکستان‘‘ کہتے ہیں، تو کچھ اسے اس لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ افغان جنگ میں زخمی یا معذور ہوئے، حالاں کہ وہ روسی فوج کا حصّہ تھے۔ لیکن ایک اور بات بہت ہی خُوب صُورت ہے اور وہ ہے نمازِ جمعہ کے لیے مساجد کا کھچاکھچ بَھرا ہونا۔ نمازیوں میں قریباً 90فی صد تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے، جو بحیثیت مسلمان شان دار مستقبل کی نوید ہے۔ آبادی کی اکثریت ملائشیا کا اسلامی طرزِ زندگی پسند کرتی ہے،جب کہ متعدّد خواتین بھی ملائشیا کی اسکارف پوش خواتین کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔

دفتری معمولات و اوقاتِ کار

یوں تو دفتری اوقات 9سے 6 ہوتےہیں، لیکن دفاتر میں کام کر نے والوں کے طور اطوار بہت دل چسپ ہیں۔ایک بجتے ہی یک دم تمام دفاتر خالی اور کیفےٹیریاز بھر جاتے ہیں اور شام ساڑھے 5بجے سے گھر جانے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں، جب کہ ٹھیک 6بجے تمام دفاتر بالکل خالی ہو جاتے ہیں۔ دفاتر میں کام کرنے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے، یہی وجہ ہے کہ دن بَھر میں کئی مرتبہ سُرخی پاؤڈر اور آئینے کا آمنا سامنا ہوتا ہے، جب کہ شام ساڑھے پانچ بجے کے بعد تو ہر اِک خاتون ہی بناؤ سنگھار میں مصروف نظر آتی ہے، جیسے گھر جانے کی نہیں، کسی تقریب میں جانے کی تیاری ہو رہی ہو۔ 

کام اگر مکمل نہ بھی ہو، تو بھی لوگ 6بجے دفاترکو لازماًخیر باد کہہ دیتے ہیں۔ یہ رویّہ ہمارے لیے کچھ حیران کُن تھا۔قازقستان میں قریباً ہر شعبے میں خواتین کی اکثریت پائی جاتی ہے، سوائے ٹیکسی سروس کے۔ وگرنہ دفاتر سے مارکیٹس، ہوٹلز، ریستورانوں، اسپتالوں، حتیٰ کہ رنگ وروغن کے کاموں تک میں خواتین آگے آگے نظر آتی ہیں اور اس کی غالباً ایک وجہ مجموعی طور پر آبادی میں صنفِ نازک کی اکثریت ہے، کچھ مَردوں کی کاہلی و سُستی بھی۔

رات کی چہل پہل

الماتا میں رات کی چہل پہل بھی اُتنی ہی تندوتیز ہے،جس قدر دن کی دَوڑ دھوپ۔ شام گہری ہوتے ہی ہر طرف برقی قمقموں سے مزیّن کلبز اور کسینوز اپنی طرف بلانے کا بھر پور سامان مہیا کر نے لگتےہیں۔اس ضمن میں اکثر افراد کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ الماتا کی رات کی رنگینی کسی بھی طرح دن کی رونق سے کم نہیں اور ریسٹورنٹس کی حد تک تو ہم بھی بڑے یقین سے کہہ سکتے ہیں۔

ویسے یہاں کم و بیش ہر ریسٹورنٹ میں کھانا ہضم کرنے کے لیے بصورتِ ڈانس فلور ،ورزش کا بھی بھر پور انتظام موجود ہے۔ جو چاہے اپنا ’’خمارِگندم‘‘ کم کرکے بہت پُرسکون نیند سو ئے۔ رات کے وقت الماتا کی سڑکوں پرصرف گھومنے پھرنے والوں کو بھی اس بات کا بخوبی انداز ہ ہوجاتا ہے کہ اِن سُنسان سڑکوں کے پہلو میں قدم بہ قدم بے شمار ایسے کلبز موجود ہیں، جہاں اندر کی دنیا پوری آب و تاب سے رواں رواں ہے۔

چنگیز خان سے وابستگی

قازق، چنگیز خان سے اپنی وابستگی یا چنگیز خان کی خُودسے وابستگی کو بڑی اہمیت دیتے ہیںاورہمیں اس بات کا اندازہ اُس وقت ہوا، جب ایک بار الماتا سے کچھ دُور ایک قصبے میں جانا ہوا،وہاں ایک ساتھی نے بڑے فخر سے سینہ پُھلا کربتایا کہ’’ چنگیز خان یہاں دفن ہے‘‘ اور پھر ان کے 100تنگے کے سکّے پربھی چنگیز خان کی تصویر بنی ہو ئی ہے۔ 

اس کے علاوہ کچھ قازق محقّق بھی اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ چنگیز خان کا تعلق ان کے قبیلے سے تھا، جس کی دلیل میں وہ یہ کہتے ہیں کہ کسی بھی منگول حکم ران کے نام کے ساتھ ’’خان‘‘ نہیں ملتا، اس لیے چنگیز خان، منگول ہرگز نہیں تھا۔ حتیٰ کہ اس کی تدفین کے حوالے سے بھی مختلف قیاس آرائیاں ہوتی ہیں، چنگیز خان کا تعلق کہاں سے تھا اور وہ کہاں دفن ہے، اس حوالے سے کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا، ویسے بھی یہ تاریخ دانوں کی بحث کا موضوع ہے۔ ہاں، مگر ہمیں قازق لوگوں کا اُس کے ساتھ فخریہ اپنا ناتا جوڑنا خاصا عجیب لگا۔

الفارابی سے نسبت

قازق تاریخ کے جھروکوں سے اپنی رفعت و عظمت تلاش کرنے میں بھی سرگرداں نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اُن کاالفارابی کے ساتھ اپنی نسبت قائم کرنا ہے، جس کے لیےانہوں نےالفارابی کے نام سے شاہ راہ منسوب کر رکھی، تو تنگے کے مختلف نوٹوں پربھی الفارابی کی تصویر ملتی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ الفاربی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے علومِ فلکیات، طبیعات، نفسیات اور فلسفے کی درس گاہیں بھی قائم کرتے جاتے، تو کیا ہی اچھا ہوتا۔

فلکیات کا تذکرہ سب سے پہلے اس لیے بھی کیاکہ قازقستان میں دنیا کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا خلائی پورٹ موجود ہے ،جو کہ’’ بیکونور‘‘ کہلاتا ہے۔ بہرحال، نہ صرف قا زقستان بلکہ تمام اسلامی ممالک کو جدید تحقیقاتی اداروں کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔ نہ جانے حصولِ علم کو، جو کہ درحقیقت ہماری میراث ہے، ہم سب فراموش کیوں کر چُکے ہیں، حالاں کہ یہ ہماری اوّلین ضرورت، زوال کی گہری کھائیوں سے نکلنے کی ضمانت اور شان دار مستقبل کی نوید ہے۔

سنہرا آدمی

کورگان کے مدفن سے ایک مجسمہ دریافت ہواتھا، جسے الماتا کے مرکزی اسکوائر میں آزادی کی یادگار پر لگایا گیا ہے۔ اس مجسمے کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ شاید یہ ساکا قبائل کے کسی شہزادے یا شہزادی کا ہے، کیوں کہ اس کی جنس کا تعین اب تک نہیں ہو سکا۔ گوکہ آزادی کی یادگار پر مزیّن مجسمہ، اصل مجسّمے کا بدل ہے، لیکن اسے پھر بھی ’’سنہرے آدمی کے مجسمے‘‘ ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ دریافت ہو نے والے سنہرے آدمی کے مجسمے کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس پر قریباً 4000سونے کے زیورات جَڑے ہیں، جو کہ اُس زمانے کے حکم رانوں کے شاہانہ اندازکا بھی ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔

خیر، ہمارا حکم ران طبقہ تو آج بھی وہی بے ڈھنگی چال چل رہا ہے۔ اُن کے عیش و عشرت، تعشیات کی آج کون سی کم داستانیں مشہور ہیں۔ ذرا خود سوچیں کہ بھلا اس قدر سونا دفن کردینا عقل مندی تھی یا کہ اُسےعوام الناس کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جاتا۔ 

تاریخ میں شاذو نادر ہی ایسےحکمران گزرے ہیں کہ جنہوں نے آدھی دنیا پر حکم رانی بھی کی ہو اوریہ امربھی یقینی بنایا ہو کہ دریائے نیل کے کنارے بکری کا بچّہ بھی بھو کا نہ رہے۔ لیکن خود پیوند لگا لباس زیبِ تن کیا ہواور رعایا سُکھ شانتی کی بنسی بجاتی ہو۔ خیر، آدمی کا یہ سنہرا مجسّمہ جدید قازقستان کی ایک علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔