• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

این سی اے ، وزیراعظم کا وعدہ جی سی اور مولانا طارق جمیل

وزیراعظم پاکستان میاں محمدنوازشریف جو کہ اولڈ راوین بھی ہیں اب تو ڈاکٹر نواز شریف ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور (اب یونیورسٹی) کے کانووکیشن میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ گورنمنٹ کالج جیسے مزید کئی اور ادارے ملک میں قائم ہونے چاہئیں تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جی سی جیسے تعلیمی ادارے کیوں نہیں قائم ہو سکے؟ اس کے بارے میں کون بتائے گا؟ جبکہ میاں محمدنوازشریف اس سے قبل دو مرتبہ وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہے اور میاںشہبازشریف بھی دو مرتبہ وزیراعلیٰ رہے۔ اب دونوں بھائی خیر سے تیسری مرتبہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بنے ہیں۔ اصولاً تو انہیں اپنے پہلے دو ادوار میں جی سی کے کیمپس پاکستان کے کئی شہروں میں قائم کر دینے چاہئیں تھے۔ چلیں دیر آید درست آید کے مصداق اب اس دور میں انہیں جی سی یو کے کیمپس پسماندہ علاقوں میں قائم کر دینے چاہیں اور ایک عظیم علمی درسگاہ کا جو قرض ان دونوں اولڈ راوین پر ہے، اس کو اتارنے کا اس سے بہتر اور اچھا موقع اور کوئی نہیں۔ دوسرے اس ادارے کے لئے ایک پالیسی بنا دی جائے کہ آئندہ سے اس ادارے کا وائس چانسلر صرف اور صرف راوین کو لگایا جائے کیونکہ ایک راوین ہی اپنے اس عظیم تعلیمی ادارے کی روایات کو زندہ رکھ سکتا ہے۔ دوسرے حکومت کا فرض ہے کہ جی سی یو کو اس علاقے میں مزید توسیع دینے کے لئے منصوبہ بندی کرے اور اس کے قدیم فن تعمیر سے ہٹ کر کوئی نئی عمارت نہ بنائی جائے۔ ماضی میں اس کالج میں ایک نیا ہوسٹل بنایا گیا تھا جس کا طرز تعمیر کسی طور پر جی سی کی قدیم عمارت سے مطابقت نہیں رکھتا تھا اور اس پر آج سے کئی سال پہلے جب نوازشریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو وہ یہاں ایک کانووکیشن میں آئے تو ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ جی سی (اب یونیورسٹی) نے بڑے نامور لوگ پیدا کئے مگر انہوں نے اس ادارے کا اس طرح حق ادا نہیں کیا۔ دوسرے کالج (اب یونیورسٹی) کے بورڈ پر ان تمام پرنسپلوں اور وائس چانسلرز کے نام بھی ہونے چاہئیں۔ جنہوںنے اس عظیم درس گاہ میں بطور قائم مقام پرنسپل /وی سی کے کام کیا۔ پنجاب یونیورسٹی نے ایسا کیا ہوا ہے انہوں نے تمام قائم مقام وی سی کے نام بورڈ پر لکھے ہوئے ہیں۔ کوئین میری کالج میں بطور قائم مقام پرنسپل 1924 میں ایک انگریز خاتون نے 1928 تک کام کیا ان کا نام درج ہے اور کوئین میری کالج کے بورڈ پر 13 قائم مقام پرنسپلوں کے نام درج ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ جی سی یو میں ڈاکٹر اکرام الحق نے بطور قائم مقام آٰٹھ ماہ کام کیا ان کا نام بورڈ سے غائب ہے جس پر کئی راوینز حیران ہیں موجودہ وی سی ڈاکٹر خلیق الرحمٰن یقیناً کالج میں بطور قائم مقام پرنسپل اور قائم مقام وائس چانسلرز کے نام ضرور بورڈ پر لکھوائیں گے۔ جی سی یو کے قریب برصغیر پاک و ہند کا قدیم ترین آرٹ کی تعلیم کا ادارہ ہے جو سکول آف آرٹ انڈسٹریل آرٹ کو لارڈ میو کے نام پر قائم کیا گیا تھا میوہسپتال بھی لارڈ میو کے نام پر ہے۔ 1958 میں اس ادارے کا نام نیشنل کالج آف آرٹس کر دیا گیا، حالانکہ اس ادارے کو اگر میو سکول آف آرٹ کی بجائے اگر میو کالج آف آرٹ کر دیتے تو زیادہ مناسب تھا۔ پتہ نہیں ہمارے ہاں یہ کیا روایت ہے کہ ہم قدیم اداروں کے نام تبدیل کر دیتے ہیں خود تو کوئی نیا معیاری ادارہ بنا نہیں سکتے اور قدیم اداروں کے نام تبدیل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ قدیم اداروں کو ان کے ناموں کے ساتھ دوبارہ وہ زندہ کریں یہ بڑا تاریخی تعلیمی ادارہ ہے جو ملک کا سافٹ امیج دنیا بھر میں بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ 1857میں قائم ہونے والے اس تاریخی ادارے کا صرف ایک کیمپس راولپنڈی میں آج سے دس سال قبل بنایا گیا، جبکہ 148سالہ تاریخ رکھنے والا یہ ادارہ آج بھی ایک ہے کاش اس کے بھی کئی کیمپس دوسرے شہروں میں ہوتے۔ حالانکہ یہاں پر دی جانے والی تعلیم اور تربیت انتہائی مفید اور روزگار کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے مگر آج تک کسی کو بھی اس کے مزید کیمپس بنانے کا خیال نہیں آیا یہ کالج صرف ساڑھے تین ایکڑ میں ہے یعنی صرف 28 کنال میں ہے جبکہ اس شہر لاہور میں ایلیٹ کلاس کے فارم ہائوس سینکڑوں اور ہزاروں کنال میں ہیں۔ یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ جہاں پر اعلیٰ تعلیم دینے والے سرکاری اداروں کے حالات روز بروز خراب ہو رہے ہیں اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی عمارت اور حالات روز بروز بہترین سے بہترین ہوتے جا رہے ہیں۔ این سی اے کے ساتھ گوروں کے زمانے کی ایک کمپنی رہتی تھی وہ فوج والوں نے کئی سال پہلے مہربانی کر کے وہ جگہ این سی اے کو دے دی اس طرح کئی برس قبل نوازشریف نے اپنے پہلے دور میں این سی اے کے کانووکیشن میں وعدہ بلکہ اعلان کیا تھا کہ اس کالج سے متعلقہ چیف منسٹر انسپکشن ٹیم کی عمارت (اب صوبائی محتسب مرد اور خاتون محتسب کے دفاتر ہیں) این سی اے یعنی نیشنل کالج آف آرٹس کو دی دی جائے گی۔ مگر آج تک وہ عمارت نیشنل کالج آف آرٹس کو نہ مل سکی۔ ہمارے نزدیک تو بینڈ اسٹینڈ گارڈن گول باغ (اب ناصر باغ) کو این سی اے کو دے دیا جائے ایک تو یہ باغ خوبصورت ہو جائے گا دوسرے این سی اے کی جگہ کی قلت کا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ تمام گول باغ پر این سی اے بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ کچھ حصے پر این سی اے کے قدیم فن تعمیر کو سامنے رکھ کر بنایا جائے۔ اس باغ کو بینڈ سٹینڈ گارڈن (Band stand garden) بھی کہا جاتا ہے میاںنوازشریف کو پرانی عمارات سے بہت لگائو ہے اور وہ تمام پرانی عمارات کی بحالی کیلئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اب وہ مری کے 1920 میں تعمیر ہونے والے پوسٹ آفس کو اس کی اس شکل و صورت میں بحال کرنے کے لئے این سی اے کے پرنسپل ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری کو کہہ چکے ہیں اس شہر لاہور میں اور ملک میں کئی ایسی تاریخی عمارات ہیں جن کے تعمیراتی فن کو بحال کرنے اور انہیں محفوظ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بہرحال وزیراعظم نواز شریف کو چاہئے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں اور این سی اے کے ساتھ واقع محتسب کی عمارات کو اس کالج کو دے دیں تاکہ کالج میں جگہ کی قلت کا مسئلہ حل ہو جائے اور کئی نئے شعبے قائم ہو سکیں۔ گرما گرم خبر آئی کہ وینا ملک نے شادی کر لی اور مولانا طارق جمیل نے اس شادی میں نہ صرف شرکت کی بلکہ خصوصی دعا بھی کرائی۔ مولانا طارق جمیل ایک قابل احترام مذہبی رہنما ہیں۔ انہوں نے شادی اور نکاح کرا کے یقیناً اچھا کام کیا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ مولانا طارق جمیل اس شہر کی غریب ترین بستیوں میں جا کر وہاں کے غریب ترین لوگوں کے بچوں کے نکاح پڑھائیں۔ اس ملک میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بچوں کے نکاح پڑھائیں اور اپنی دعائوں میں رخصت کریں۔ اس ملک کے تمام علما کرام سے بڑی عاجزانہ درخواست ہے کہ اس ملک کے غریب لوگوں کے لئے اور مریضوں کے علاج کیلئے صاحب حیثیت لوگوں کو وہ اس نیک کام کے لئے قائل کریں۔
تازہ ترین