• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو پاکستان کے تقریباً تمام ہی محکمے، خواہ وہ نادرا ہو یا محکمۂ پاسپورٹ، پولیس ہو یا ریونیو ڈیپارٹمنٹ،عوام کو اذیّت پہنچانے میں پیش پیش ہیں، لیکن لگتا ہے کہ یہ مقابلہ واپڈا نے جیت لیا ہے، جس کی تقسیم کار کمپنیز نے ہوش رُبا بِلز کے ذریعے صارفین کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ حالت یہ ہے کہ لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی غریب اور بیوہ خواتین بھی، جن کے گھروں میں صرف ایک پنکھا اور ایک انرجی سیور لگا ہوا ہے، ہاتھوں میں 10،15 ہزار کا بِل تھامے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں، تو دوسری طرف، ڈنر ٹیبلز پر بیٹھے صاحبِ ثروت بزنس مین بھی بجلی کا بِل دیکھ کر بڑبڑا رہے ہیں کہ’’اِتنی بجلی استعمال نہیں کی، جتنا بِل آ گیا۔‘‘ 

پاکستان میں بجلی کا شاید ہی کوئی صارف ایسا ہوگا، جسے گزشتہ چند مہینوں سے بِلز کی صُورت440وولٹ کے جھٹکے نہ لگے ہوں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں بجلی کی قیمتوں میں80فی صد تک اضافہ ہوچُکا ہے، جب کہ گھریلو صارفین پر ٹیکسز کی شرح50فی صد سے زائد ہوگئی ہے اور بجلی کمپنیز نے10فی صد ریکوری لاسز بھی صارفین پر ڈال دیئے ہیں۔ان ہوش رُبا بِلز کا جو ردّ ِعمل ہوا، وہ پورے مُلک نے دیکھ لیا۔ لوگ سڑکوں پر آگئے، بلز نذرِ آتش کیے، واپڈا کے دفاتر پر پتھرائو کیا اور اگر کوئی بجلی کاٹنے آیا، تو صارفین نے اُسے زد و کوب کیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسلام آباد، ملتان، لاہور اور دیگر شہروں میں واپڈا کے دفاتر کے باہر پولیس تعیّنات کرنی پڑی۔ 

عوام کے اس غیظ و غضب کے نتیجے میں نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کو فوری اجلاس بُلانا پڑا، جس میں واپڈا کے ماہرین اور اعلیٰ افسران نے وزیرِ اعظم کو بریفنگ دی۔ یعنی بریفنگ بھی اُنہی ماہرین سے لی گئی، جنہوں نے بِلز میں اضافہ کیا اور اس کے بعد وزیرِ اعظم نے جو بیان جاری کیا، وہ عوام کے زخموں پر نمک اور جلتے بِلز پر تیل چِھڑکنے کے لیے کافی تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’بِل وہ لوگ جلا رہے ہیں، جو بجلی چوری کرتے ہیں اور یہ کہ حالات اِتنے خراب نہیں، جتنے بڑھا چڑھا کر پیش کیے جا رہے ہیں۔‘‘گو کہ بعد میں حکومت کی جانب سے اِس بیان کی روایتی وضاحت جاری کردی گئی۔ 

شاید ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر زمینی حقائق کی منافی پالیسیز بنانے والے ماہرین اُس وقت تک سنجیدہ نہیں ہوتے، جب تک عوامی احتجاج اور غم و غصّے کی آگ کی تپش اُن کے اپنے گھروں تک نہ پہنچے۔ اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ بجلی چوری ہوتی ہے، لیکن یہ سب کچھ واپڈا کے عملے کی ملی بھگت سے ہوتا ہے، جسے روکنے کے لیے آج تک کوئی کوشش نہیں کی گئی اور پھر بجلی کا ایک بڑا حصّہ ترسیل کے دَوران ناقص ٹرانسمیشن لائنز کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے، جس کا بوجھ بھی صارفین ہی پر ڈال دیا جاتا ہے۔

ٹیکس ہی ٹیکس

مُلک کے طول و عرض میں بجلی کے بِلز میں اضافہ تو ایک عرصے سے دیکھنے میں آ رہا تھا، لیکن اب اِن میں اِتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ ہی لب ریز ہوگیا ہے۔ اِس اضافے کی سب سے بڑی وجہ 18،19 اقسام کے وہ ٹیکسز ہیں، جو بِلز میں لگ کر آ رہے ہیں۔ یعنی صارفین جتنی بجلی جَلاتے ہیں، اُنھیں صرف اُس کا بل ادا کرنا نہیں ہوتا، بلکہ درجنوں اقسام کے ٹیکسز بھی ادا کرنے پڑتے ہیں،جن سے بِل کی رقم کئی گُنا بڑھ جاتی ہے۔مثال کے طور پر اگر آپ نے100روپے کی بجلی خرچ کی ہے، تو بِل800 روپے دینا پڑے گا۔ ٹیکسز کی اِس اندھیر نگری کو صرف ’’جگا ٹیکس‘‘ یا’’بھتّا خوری‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔

اب ذرا ٹیکس ملاحظہ کیجیے۔ 1۔ پی ٹی وی ٹیکس، 2۔ریڈیو پاکستان ٹیکس، 3۔نیلم جہلم سرچارج، 4۔سیلز ٹیکس، 5۔انکم ٹیکس (حالاں کہ یہ ایف بی آر کا کام ہے)، 6۔کرایہ سروس (واپڈا کا ملازم جو بِل دینے یا میٹر ریڈنگ کے لیے آتا ہے، اُس کا ٹیکس)، 7۔ٹی اے آر سرچارج، 8۔کرایہ میٹر (جو پی ڈی ایم حکومت نے لگایا)، 9۔سیلز ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، 10۔انکم ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، 11۔محصول بجلی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، 12۔فاضل ٹیکس انکم فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، 13۔ فردر فیول ٹیکس ایڈجسٹمنٹ ٹوٹل، 14۔فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر سیلز ٹیکس، 15۔ایف سی چارج، 16۔جنرل سیلز ٹیکس، 17 -مزید ٹیکس۔ 

دیگر کئی ناقابلِ فہم ٹیکس ملا کر کُل 18،19 ٹیکس صارف کو بجلی کے بِل کے ساتھ ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اگرچہ واپڈا حکّام صرف 8،10 ٹیکسز کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن حقائق کچھ اور ہی ہیں۔ایک صارف کے بقول اُس کا اصل بِل15 ہزار تھا، مگر اُسے ٹیکسز ملا کر 47 ہزار 369 روپے دینے پڑے۔ (واضح رہے کہ ان میں سے سات نئے ٹیکسز پی ڈی ایم حکومت کے دَور میں شامل کیے گئے)۔بِلز میں اعداد و شمار کا یہ گورکھ دھندا برسوں سے صارفین کے لیے پریشانی کا باعث بنتا چلا آ رہا ہے۔ ٹیکسز کا ایسا پیچیدہ اور ناقابلِ فہم فارمولا تیار کرنے والے ماہرین یقیناً حکومت کے لیے’’قابلِ ستائش‘‘ ہیں۔ 

اگرچہ اِن ماہرین کی نشان دہی نہیں کی جاسکتی، یقیناً وہ واپڈا کے اُن ایک لاکھ 79 ہزار سرکاری ملازمین میں سے ضرور ہوں گے، جو بجلی کے سالانہ34 کروڑ یونٹس مفت حاصل کرتے ہیں اور اُن کے بِلز کی مَد میں 8ارب کی ادائی قومی خزانے سے ہوتی ہے۔ ’’جیو نیوز‘‘ کے ایک پروگرام میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے بھی اِس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اگر واپڈا ملازمین کی مفت بجلی کی سہولت ختم کردی جائے، تو قومی خزانے کو سالانہ 8 سے 9 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔

بجلی کے یونٹس کی لُوٹ سیل

عام صارفین صرف واپڈا کے موجودہ اور ریٹائرڈ ملازمین ہی کا بِل اپنی جیب سے ادا نہیں کرتے، بلکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے حاضر سروس ججز کے یوٹیلٹی بِلز (بشمول بجلی کے بلز) بھی حکومت ادا کرتی ہے، جب کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز کو بھی بجلی کے2000یونٹس فِری ملتے ہیں۔ ہائی کورٹ کے سابق ججز کو800 یونٹس بجلی مفت ملتی ہے۔ صرف یہی نہیں، موجودہ صدر اور وزیرِ اعظم کسی حد کے بغیر مفت بجلی استعمال کرسکتے ہیں، جب کہ سابق صدر کو 2000یونٹس ماہانہ مفت بجلی کی سہولت حاصل ہے اور یہ سب رقم ٹیکس دہندگان کی جیب سے جاتی ہے۔ چیئرمین نیب کو بھی تقریباً ایسی ہی سہولتیں حاصل ہیں۔ 

جہاں تک لیسکو کے ملازمین کا تعلق ہے، تو ایک رپورٹ کے مطابق حاضر سروس ملازمین کے علاوہ لیسکو کے 10ہزار سے زائد ریٹائرڈ ملازمین اور انتقال کر جانے والے ملازمین کی بیوائیں بھی مفت بجلی استعمال کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے کمپنی کو اربوں روپے کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ جو ملازمین دورانِ ملازمت بجلی کے سو فی صد یونٹس مفت حاصل کرتے ہیں، اُنھیں ریٹائرمنٹ کے بعد نصف یونٹس کی سہولت مل جاتی ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین 500سے 2000یونٹس مفت لیتے ہیں۔ اِس معاملے کا ایک تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اکثر سابقہ ملازمین اے۔سی سمیت ہر قسم کے بجلی کے آلات بے دردی سے استعمال کرتے ہیں اور بعض ملازمین تو ہم سایوں کو پیسوں کے عوض کنڈے بھی دیتے ہیں۔

گزشتہ دنوں عوامی سطح پر یہ ایشو خاصا زیرِ بحث رہا اور میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا پر مفت بجلی فراہمی کے خلاف پوسٹس کی بھرمار رہی، مگر اس کے باوجود حکومت نے ان ملازمین کے مفت یونٹس بحال رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے 11ارب روپے کا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔اِس ضمن میں ’’دی انجینئرز پاکستان‘‘ کے چیئرمین جاوید سلیم قریشی کا کہنا ہے کہ’’پاور سیکٹر کے ملازمین کو مفت اور لامحدود یونٹس ملنے کا تاثر درست نہیں کہ یہ اُن کے کنٹریکٹ کا حصّہ ہے۔ بِلز پر ٹیکس ختم کرکے جنگی بنیادوں پر بجلی چوری کا خاتمہ کیا جائے، جس سے750 ارب روپے کا بوجھ فوراً ختم ہو سکتا ہے۔‘‘ 

اِس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ بجلی کی موجودہ ابتر صُورتِ حال میں کسی حد تک، مختلف طبقات کو مفت بجلی کی فراہمی بھی شامل ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی توانائی کے موجودہ بحران میں درجنوں عوامل کارفرما ہیں۔ ماہرِ معاشیات فرّخ سلیم کے مطابق، بجلی کے بِلز میں بجلی کی کھپت 20فی صد سے زیادہ نہیں ہے،30فی صد ٹیکسز اور حکومت کی نا اہلیاں 50فی صد ہیں۔ 13ارب روپے کی مفت بجلی دی جارہی ہے۔ ہمارا ڈسٹری بیوشن سسٹم بالکل تباہ ہو چُکا ہے اور مجموعی نقصانات کا تخمینہ ایک کھرب روپے کے قریب ہے۔‘‘بجلی کی اِس وقت جو بد ترین صُورتِ حال ہے، اس کی ابتدا 2008ء میں ہوئی تھی اور 2023ء تک جتنی بھی حکومتیں آئیں، سب نے صُورتِ حال مزید سنگین بنانے میں اپنا اپنا حصّہ ڈالا۔ پاور ڈسٹری بیوشن بورڈز میں سیاسی تقرّریاں کی گئیں، ڈسٹری بیوشن کمپنیز کو اُن کی ناقص کارکردگی کے باعث جو نقصانات ہوئے، اُن کی ایک لمبی فہرست ہے، تاہم ایک رپورٹ کے مطابق 2021-22ء میں22298 گیگاواٹ بجلی ضائع ہوئی۔ اسلام آباد الیکٹرک پاور کمپنی کا خسارہ 8اعشاریہ 1ارب 90کروڑ، گوجرانوالہ الیکٹرک کمپنی کا خسارہ 24ارب 70کروڑ، لیسکو کا 72رب70کروڑ اور فیسکو کا33ارب سے زائد رہا۔ 

دیگر کمپنیز کی بھی ایسی ہی حالت رہی۔ مجموعی طور پر بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے دَوران نقصان کا اندازہ 520ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ واضح رہے کہ اِس وقت کراچی کی’’ کے- الیکٹرک‘‘ کو چھوڑ کر مُلک میں بجلی کے صارفین کی تعداد 2کروڑ 96لاکھ 62ہزار ہے، جن سے بِلز کی مد میں ٹیکسز سمیت ایک اعشاریہ 735کھرب روپے حاصل ہوتے ہیں۔اِس موقعے پر بجلی چوری کی مناسبت سے ایک دل چسپ رپورٹ کا ذکر نامناسب نہ ہوگا، جو جنرل پرویز مشرف کے دَور میں کے الیکٹرک کے ایک جرمن انجینئر، شمڈٹ نے مرتّب کی تھی۔ اُنہوں نے مستعفی ہونے سے پہلے رپورٹ میں لکھا کہ’’ کراچی میں50فی صد حکومتی اور 40فی صد صنعتی ادارے بجلی چوری میں ملوّث ہیں، جب کہ صرف 10فی صد غریب افراد بجلی چوری کرتے ہیں۔‘‘

گزشتہ ماہ سرکاری دستاویزات کے حوالے سے میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مُلک بَھر میں یومیہ ایک ارب 61کروڑ اور ماہانہ 49ارب 9کروڑ کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بنّوں، ڈی آئی خان، ٹانک اور شانگلہ میں 100فی صد صارفین کنڈا لگا کر بجلی چوری کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، مُلک میں بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیز (ڈسکوز) نے 116ارب 50کروڑ یونٹس خریدے اور 97ارب 34کروڑ یونٹس صارفین کو فروخت کیے۔ اِس طرح 19ارب 17کروڑ یونٹس چوری، کنڈے اور تیکنیکی نقصانات کی نذر ہو گئے۔ دستاویزات کے مطابق، سندھ میں بھی کنڈا کلچر بڑھ گیا ہے۔ نگران حکومت نے گزشتہ ماہ بجلی چوری کے خلاف ایک مُلک گیر مہم شروع کی ہے، دیکھتے ہیں، اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔

آئی پی پیز کا آکٹوپس

اگرچہ بجلی کے موجودہ بحران اور ہوش رُبا بِلز کے پسِ پردہ درجنوں عوامل کار فرما ہیں، جن میں بجلی کی ترسیل سے تقسیم تک لائن لاسز، واپڈا ملازمین کی ملی بھگت سے بجلی چوری، بدانتظامی، کرپشن اور ڈیمز کا فقدان وغیرہ شامل ہیں، لیکن ایک بنیادی وجہ وہ آئی پی پیز (INDEPENDENT POWER PRODUCERS) ہیں، جو اس مُلک کو 8بازوئوں والے آکٹوپس کی طرح گرفت میں لیے ہوئے ہیں کہ کوشش کے باوجود انٹرنیشنل گارنٹیز کی وجہ سے ان سے جان چُھڑانا ممکن نہیں۔ ان کی شرائط خوف ناک اور عوام دشمن ہیں۔1994ء میں جب بے نظیر بھٹّو برسرِ اقتدار تھیں، ان معاہدوں کو عملی شکل دی گئی۔ 

یہ بات درست ہے کہ اُس وقت مُلک میں لوڈ شیڈنگ عروج پر تھی اور حُکم رانوں نے اس کے خاتمے کے لیے ایک انویسٹر فرینڈلی پالیسی کے تحت غیر مُلکی سرمایہ کاروں کو فرنس آئل، گیس اور کوئلے سے فوری بجلی بنانے کی دعوت دی، لیکن اُن سے جو شرائط طے کی گئیں، وہ مُلکی مفاد کے یک سَر منافی تھیں۔ ان شرائط کی پیچیدگیاں آج بھی عوام کی فہم سے بالاتر ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ اُنہیں یہ چُھوٹ دی گئی کہ ایک تو اُنہیں منافعے کی ادائی ڈالرز میں ہوگی۔چناں چہ جُوں جُوں ڈالر کے ریٹ بڑھے، صارفین کے لیے بجلی منہگی سے منہگی ہوتی گئی۔ 

دوسرا وہ اپنی ممکنہ بھرپور پیداواری گنجائش کے مطابق پورے پیسے وصول کریں گے، چاہے حکومت اُن سے بجلی خریدے یا نہ خریدے۔ ایسی اور کئی درپردہ سخت شرائط نے حکومت کو معاہدے کی ایسی بیڑیوں میں جکڑ دیا، جس سے چھٹکارا پانا کم از کم آئندہ چند سال تک تو ممکن نہیں، جب تک یہ معاہدات ختم نہیں ہو جاتے۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی معاہدہ ایسا ہو، جس پر اِس معاہدے سے زیادہ (ہر دور میں)تنقید کی گئی ہو، لیکن پھر بھی ہر بار، چاہے نواز شریف کا دَور ہو یا آصف زرداری کا، آئی پی پیز ہی کی جیت ہوتی رہی۔یہ معاہدے اِتنے پیچیدہ ہیں کہ عام افراد کے لیے اِنھیں سمجھنا ناممکن ہے، البتہ ماہرین کے ردّ ِ عمل سے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔ 

مثلاً اینکرپرسن ارشد شریف نے ان معاہدوں پر تحقیق کر کے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ یہ انکشاف کیا تھا کہ ان آئی پی پیز نے حکومتِ پاکستان سے ایندھن کی مَد میں 190ارب روپے زائد وصول کیے۔ یعنی اگر ایندھن کے 100روپے وصول کیے، تو 50روپے کا ایندھن ڈلوایا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان رانا بلند اختر نے 2014ء میں اپنی آڈٹ رپورٹ میں آئی پی پیز کو500ارب روپے کی بغیر پِری آڈٹ ادائی کے حوالے سے بے ضابطگیوں کا انکشاف کرتے ہوئے اسے پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیا۔ اُس کے بعد اُن کے خلاف ایک لابی سرگرم ہو گئی، جب کہ ارشد شریف کو بھی انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ان آئی پی پیز کے خلاف کارروائیاں قدرے زور پکڑ گئیں اور معاہدوں پر نظرِ ثانی کے لیے کئی اجلاس ہوئے، جب کہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ٹیرف کی کمی سے حکومت کو 600ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔ 

اُسی دَور میں سپریم کورٹ میں بھی آئی پی پیز کا معاملہ زیرِ بحث آیا، جس کے دَوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’’یہ معاہدے ہمارے گلے کا پھندا بن گئے ہیں۔نہ جانے کون لوگ تھے، جنہوں نے یہ معاہدے کیے۔ لوگوں کو بجلی ملتی ہے، نہ صنعتوں کو۔‘‘ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ’’کروڑوں، اربوں روپے آئی پی پیز کو ایسے ہی ادا کر دئیے جاتے ہیں۔‘‘ عمران خان کے دورِ حکومت میں اگر کچھ کام یابی ہوئی بھی، تو وہ قابلِ ذکر نہ تھی، کیوں کہ آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرِ ثانی ہوتی بھی تو کیسے، جب کہ اُن کی اپنی کابینہ کے 4وزرا کا تعلق انہی آئی پی پیز سے تھا۔عمران خان کے دورِ حکومت میں قائم ایک انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ آئی پی پیز نے گزشتہ 20سال میں، حکومت کی ناقص پالیسیز کی وجہ سے ایک ہزار ارب روپے کا منافع کمایا۔ 

کمیٹی نے سفارش کی کہ ان تمام فاضل ادائیوں کی ریکوری ہونی چاہیے۔ پی ٹی آئی حکومت نے8 جنوری 2022ء کو یہ دعویٰ کیا کہ معاہدوں پر نظرِ ثانی کی بدولت حکومت کو سالانہ 120ارب روپے کی بچت ہوگی اور ڈالر کی بجائے روپوں میں ادائی ہوگی۔ عمران خان کو یہ بھی بتایا گیا کہ اگرحکومت آئی پی پیز سے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتی ہے، تو وہ کمپنیز بین الاقوامی مصالحتی عدالتوں میں چلی جائیں گی اور ایک قانونی جنگ شروع ہو جائے گی، جس سے مُلک کو جرمانے کے طور پر22 ارب روپے ادا کرنے پڑیں گے۔ بہر حال، ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد،جُوں جُوں ان معاہدات کے خوف ناک اثرات طشت از بام ہونے لگے، ان کمپنیز کے محاسبے کے مطالبات میں بھی شدّت آنے لگی۔ 

سینیٹر مشتاق احمد خان نے معاہدات کے مندرجات عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف فوج داری کارروائی ہونی چاہیے، جب کہ 31اگست 2023ء کو سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر فدا محمّد نے بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی تمام تر ذمّے داری ان103آئی پی پیز پر ڈالی۔اِس سے قطع نظر کہ یہ کمپنیز اِس اضافے کی کس حد تک ذمّے دار ہیں، تلخ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان، ریجن میں صارفین کو سب سے منہگی بجلی فراہم کرنے والا مُلک ہے۔ مثلاً بھارت میں بجلی فی یونٹ6روپے، بنگلا دیش میں7ٹکے، افغانستان میں 4افغانی، سری لنکا میں 27سری لنکن روپے اور پاکستان میں 52روپے فی یونٹ ہے۔

ترسیل اور تقسیم میں نقصان

مُلک بَھر کے صارفین کو بجلی کے جو ہوش رُبا بِلز آتے ہیں، ان میں آئی پی پیز کی پیدا کردہ منہگی ترین بجلی کے علاوہ بجلی کے ترسیل اور تقسیم کے فرسودہ نظام کی وجہ سے 20فی صد نقصانات، بڑے پیمانے پر چوری اور 10فی صد بجلی کے بلز کی عدم ادائی بھی شامل ہے۔ یہ سب نقصانات صارفین سے وصول کیے جا رہے ہیں۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق 2022ء میں بجلی کی مجموعی پیداوار 41557میگا واٹ تک پہنچ گئی تھی، جب کہ 2025ء تک بجلی کی کھپت 45ہزار میگا واٹ تک ہو جائے گی۔

پاکستان 36ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِس وقت پاکستان میں قدرتی گیس سے 32فی صد، ہائیڈرو سے 24اعشاریہ 7فی صد، فرنس آئل سے 14اعشاریہ 3فی صد، کوئلے سے 12اعشاریہ 8فی صد، ایٹمی توانائی سے 8اعشاریہ 8فی صد، سولر سے ایک اعشاریہ4فی صد اور ہوا سے 4اعشاریہ 8فی صد بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی، جو کہ آئی پی پیز بنا رہی ہیں، سب سے منہگی (40،50روپے فی یونٹ سے زیادہ)، جب کہ ہائیڈرو (ڈیم وغیرہ سے) سے پیدا ہونے والی بجلی سب سے سستی، یعنی 4روپے فی یونٹ پڑتی ہے۔ 

کوئلے اور قدرتی گیس سے بھی بجلی سستی (تقریباً 6روپے سے 8روپے تک فی یونٹ) پڑتی ہے۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے بعد گرڈ اسٹیشنز تک اس کی ترسیل اور تقسیم کے دَوران بجلی کا زیاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جہاں تک ترسیل کا تعلق ہے، تو ماہرین اِس کی بنیادی ذمّے داری ٹرانسمیشن کے انفراسٹرکچر پر عائد کرتے ہیں، جو انتہائی فرسودہ اور کم زور ہو چکا ہے اور زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ 2021-22ء کے مالی سال میں ڈسٹری بیوشن کمپنیز کی طرف سے ٹرانسمیشن کے دَوران جو بجلی ضائع ہوئی، وہ22298گیگا واٹ تھی، جس کی مالیت 520 ارب بنتی ہے۔

کے- الیکٹرک کمپنی کو اِس سے مبرّا قرار دیا گیا، جب کہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لپیکو) کے نقصانات سب سے زیادہ ہیں۔ماہرین نے اِن نقصانات میں کمی کے لیے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے انفرا اسٹرکچر کی اَپ گریڈنگ اور اس میں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔ لائن لاسز اور مِس مینجمنٹ کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو اربوں روپے کی سبسڈی دینا پڑتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بجلی کا 1/5حصّہ تو راستے ہی میں ضائع ہو جاتا ہے، اب جو ہم تک پہنچتا ہے، اُس میں بھی چوری کی بڑی وجہ کنڈا مافیا ہے، اے- سی چلانے اور رات گئے تک مارکیٹس میں بجلی کا بے دریغ استعمال کرنے والوں کے بِل تو کم آتے ہیں، جب کہ بے تحاشا خرچ ہونے والے اِن یونٹس کا خسارہ شریف اور سفید پوش صارفین کے بِلز سے پورا کیا جاتا ہے۔ 

یہ بھی شنید ہے کہ شمالی علاقہ جات کے بعض حصّوں میں بجلی کے بِل ادا کرنے کا رواج ہی نہیں ہے۔ 27اپریل 2023ء کو وزارتِ توانائی کے قومی اسمبلی میں پیش کردہ ایک تحریری جواب کے مطابق 2022ء میں مُلک کو بجلی چوری کے ضمن میں مجموعی طور پر230 ارب کا نقصان اٹھانا پڑا، جس میں پاور لائن لاسز کے113 بلین بھی شامل ہیں۔ اِس سے قبل 2020 ء میں کے الیکٹرک انویسٹر پریزنٹیشن میں بتایا گیا کہ پاکستان میں بجلی کی ترسیل کے دَوران اور بعد ازاں بجلی چوری ہونے کی شرح 29اعشاریہ 7فی صد تک پہنچ گئی ہے، جو کہ ریجن میں سب سے زیادہ ہے۔ بھارت میں یہ 24فی صد، سری لنکا میں 10فی صد،تُرکی میں 14اعشاریہ 8فی صد، بنگلا دیش میں 22فی صد اور نیپال میں 24اعشاریہ 4فی صد ہے۔

’’بجلی کی ترسیل پر سیاست کا غلبہ، آئی پی پیز گلے کا طوق ہیں‘‘ ڈاکٹر راحیل احمد صدیقی

پاکستان اِس وقت جس انرجی کرائسز سے دوچار ہے، اِس کی وجوہ نہ صرف طویل بلکہ بہت پیچیدہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عام صارفین کی بھاری بَھر کم بِلز اور لوڈ شیڈنگ سے جان کیسے چُھوٹ سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں ڈاکٹر راحیل احمد صدیقی کے مشاہدات اور تاثرات قارئین کے لیے یقیناً دل چسپی کا باعث ہوں گے۔ڈاکٹر راحیل احمد صدیقی کا تعلق سینٹرل سپرئیر سروسز سے ہے اور اُنھیں دَورانِ ملازمت اہم انتظامی اور مالیاتی عُہدوں پر کام کا موقع ملا۔ وہ دو سال دیامیر بھاشا ڈیم کے جنرل منیجر رہے، جب کہ ملازمت کے ابتدائی دَور میں متعدّد بار بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈائون بھی کیا۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، جب کہ چیئرمین پنجاب ریونیو بورڈ کی حیثیت سے ریکارڈ ریونیو اکٹھا کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد علمی وادبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، جب کہ انرجی کرائسز پر بھی کافی ریسرچ ورک کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر راحیل صدیقی کا کہنا ہے کہ’’ تربیلا اور منگلا ڈیم تو خوش قسمتی سے بن گئے، لیکن بعد ازاں مسلسل بڑھتی آبادی کے باوجود بھی حُکم رانوں نے توانائی کو کبھی اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ 

جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرّف نے 20سال مُلک پر حکومت کی، لیکن کسی نے ڈیم بنانے کی طرف توجّہ نہ دی، حالاں کہ ہمیں جنرل ضیاء الحق کے دَور میں ہائیڈرل جنریشن کی طرف چلا جانا چاہیے تھا۔ پھر سب سے بڑی غلطی جنرل مشرّف کی تھی، جنہوں نے محض سیاسی مفادات کے لیے یہ حکم جاری کیا کہ جس گائوں میں ایک آدمی بھی رہتا ہے، وہاں بجلی پہنچا دو۔ مَیں اُس وقت ڈیرہ غازی خان میں ایک اہم انتظامی عُہدے پر تعیّنات تھا۔ ایم پی اے اور ایم این ایز نے ہمیں بلیک میل کیا اور اپنی مَن مانیاں کیں۔ جب کسی متعلقہ افسر سے پوچھتے کہ ہم جتنی بجلی دے رہے ہیں، اِتنی ہمارے پاس ہے بھی یا نہیں، تو اُن کا جواب تھا کہ بجلی تو نہیں ہے، لیکن اوپر والوں سے ڈر کے مارے کوئی سوال نہیں کرتا۔ 70فی صد افراد نے تو بجلی کے میٹر ہی نہیں لیے۔ 

جب بجلی کے پول اور تار لگ گئے، تو لوگوں نے کنڈے لگا لیے اور بغیر بِل بے تحاشا بجلی استعمال کی۔یہ کنڈا کلچر بعد ازاں مُلک بھر میں پھیل گیا۔ کچھ ایسا ہی حال دوسری حکومتوں میں بھی ہوا، جنہوں نے سیاسی مفادات کے تحت پاور سیکٹر کا ناجائز استعمال کیا۔ جنرل ضیاء الحق کو ایک ڈیم ضرور بنا لینا چاہیے تھا اور مشرّف کو امریکا سے جتنے پیسے ملے، اُس سے بھی ایک بڑا ڈیم بآسانی بن سکتا تھا اور چھوٹے ڈیم تو بے شمار بن سکتے تھے، لیکن کسی نے نہیں سوچا کہ آنے والے وقتوں میں ہمارا کیا حال ہونے والا ہے۔‘‘اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ 90ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹّو آئی پی پیز لے کر آئیں۔ 

یہی وہ دور تھا، جب سابق صدر آصف زرداری (صحیح یا غلط طور پر) مسٹر 10پرسینٹ مشہور ہو گئے۔ اِس امر میں شک نہیں کہ اُس زمانے میں بجلی کا شدید بحران تھا اور جنریشن میں سرمایہ کاری کی ضرورت تھی، لیکن ہم نے جن شرائط پر ان کمپنیز کو نوازا، وہ ہمارے گلے کا طوق بن گئیں۔ دو شرائط تو اب عام آدمی بھی جاننے لگا ہے۔ یعنی منافعے کی ادائی ڈالرز میں اور دوسرا بجلی بنانے کی بھرپور صلاحیت(Installed Capacity)۔مطلب آپ بجلی لیں یا نہ لیں، ادائی کرنی ہوگی۔ ہم اُنھیں ایندھن دینے کے بھی پابند ہیں۔ 

میرے نزدیک تو اِن معاہدوں پر فوری نظرِ ثانی ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ نون کے دَور میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کچھ کم ہوا، لیکن اب پھر بجلی کا بحران پیدا ہوگیا ہے، جسے ہم سنبھال نہیں سکے اور اِس صُورتِ حال کی تمام حکومتیں ذمّے دار ہیں۔‘‘ راحیل صدیقی نے مزید کہا کہ’’ بجلی کی چوری ہمارے لیے ایک بہت بڑی لعنت بن چُکی ہے اور بد قسمتی سے یہ سب واپڈا کے بعض ملازمین کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے اور اس کا حصّہ بڑے افسران تک بھی پہنچتا ہے۔ گرمیوں میں زیادہ بل دئیے بغیر اے- سی چلتے ہیں اور رات کو دکانیں انتہائی طاقت وَر بلبوں سے جگمگا رہی ہوتی ہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، تو ایک شہر میں بجلی کی لُوٹ سیل لگی ہوئی تھی۔ 

ہر شخص نے کنڈے لگا رکھے تھے۔ حکومت نے سیاسی مفادات کے تحت ہر شخص کو کُھلی چھٹّی دے رکھی تھی۔ جب لوڈ زیادہ پڑتا، تو ٹرانسفارمر بَھک سے اُڑ جاتا۔ اس کے لیے حکومت نے ووٹرز کے لیے ریزرو ٹرانسفارمرز کی ایک لائن لگا رکھی تھی۔ بجلی کا اِتنی بے دردی سے زیاں اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو گئی، تو پھر بھی چوری کا یہ سلسلہ جاری رہا، لیکن متبادل ٹرانسفارمر دینے پر پابندی لگا دی گئی۔ لوگوں نے سڑکیں بلاک اور ٹائر جلانا شرو ع کر دئیے۔ مَیں نے آپریشن کے لیے ایک خصوصی ٹیم تیار کی، اُس زمانے میں دیواروں میں ونڈو اے- سی لگتے تھے۔ ہماری ٹیم نے باہر ہی سے تمام اے- سی اتار دئیے اور کنیکشنز بھی کاٹ دئیے، یہ بھی معلوم ہوا کہ بجلی کا کنیکشن لیتے وقت کسی صارف نے اے- سی کے لیے درخواست نہیں دی تھی، لہٰذا وہ ناجائز تھے۔ بہر حال، ایک مہینے میں کنڈے ختم ہو گئے۔ 

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر نیّت صاف ہو، تو پورے مُلک میں بجلی چوری کے خلاف جنگی بنیادوں پر مہم چلا کر اس کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے بجلی کی جتنی بچت ہوگی، وہ ہمارے تصوّر سے بھی بڑھ کر ہے۔ایک اور بڑا مسئلہ مارکیٹس کا رات 8بجے بند کرنا ہے۔ اس کے لیے بھی نیک نیّتی اور عزم کی پختگی درکار ہے کہ اگر شادی ہالز پر رات 10بجے تک کی پابندی کام یابی سے لگ سکتی ہے، تو مارکیٹس بھی بند کی جاسکتی ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری تاجر برادری صبح نماز پڑھ کر سو جاتی ہے اور پھر آرام سے دُکان یا بزنس سینٹر کھولتی ہے۔ 

حالاں کہ پوری دنیا میں پاکستان جیسا کلچر نہیں ہے۔ اگر ہم یہ پابندی عائد کرنے میں کام یاب ہو جائیں، تو یقین کیجیے، بجلی کی کھپت آدھی رہ جائے گی اور لوڈ شیڈنگ کا بحران بھی ختم ہو سکتا ہے۔ اور جیسا کہ حکومت کا اندازہ ہے، اس سے کم از کم 62ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے، لیکن ہمارے نیم دلانہ اعلانات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ پوری دنیا نے دریائوں کے بہتے پانیوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر بجلی کا مسئلہ حل کر لیا ہے، نہ جانے ہم اس طرف توجّہ کیوں نہیں دیتے۔‘‘ ڈاکٹر راحیل کا خیال ہے کہ’’ جب تک تمام سیاسی جماعتیں کالا باغ ڈیم پر متفّق نہ ہو جائیں، اِس مسئلے کو نہیں چھیڑنا چاہیے۔ 

میرے نزدیک اس میں پنجاب کا فائدہ زیادہ اور دوسرے صوبوں کا کم ہے۔ بحران حل کرنے کے لیے میری تجویز ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرِ ثانی کی جائے، لائن لاسزکم کیے جائیں، مارکیٹس رات 8بجے ہر صُورت بند ہونی چاہئیں، بجلی کی تقسیم کار کمپنیز ہمیشہ خسارے میں رہتی ہیں، لہٰذا اُنہیں ختم کر کے واپڈا کا پرانا نظام بحال کیا جائے تاکہ ان کمپنیز کے شاہانہ اخراجات کم ہو سکیں۔ اگر یہ معاملات کمپنیز کے پاس ہی رہنے دئیے جائیں، تو اُنہیں ہائرنگ اور فائرنگ کے حتمی اختیارات دئیے جائیں۔ اس وقت اگر وہ کوئی ملازم برخاست کردیں، تو وہ عدالت سے اِسٹے آرڈر لے آتا ہے۔‘‘

’’ منہگی بجلی کی وجہ سے چوری بڑھی ہے‘‘، خورشید احمد

خورشید احمد، پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک یونین کے جنرل سیکرٹری ہیں، اِس سارے معاملے پر اُن کا کہنا ہے کہ’’ سستی بجلی صنعت، زراعت، تجارت اور گھریلو استعمال کے لیے لازمی ہے-منہگی بجلی سے گھریلو صارفین ہی نہیں، تمام شعبے متاثر ہو رہے ہیں۔ 

واپڈا ساڑھے چار روپے فی یونٹ بجلی مہیّا کررہا ہے، جب کہ نجی تھرمل پاور ہائوسز یہی یونٹ چالیس روپے سے زیادہ میں دیتے ہیں۔ماضی کی حکومتوں نے نجی تھرمل پاور اسٹیشنز سے منہگی ترین بجلی خریدنے کے معاہدے کیے اور بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود اُنھیں ساٹھ فی صد پیدا کردہ بجلی کی رقم ڈالرز میں دینے کی ذمّے داری لی۔

ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے بجلی بھی منہگی ہوتی چلی گئی اور اِس کی چوری بھی بڑھی- بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف پچاس ہزار سے زائد ایف آئی آرز درج کروائی گئی ہیں، لیکن کسی ایک بھی ملزم کی گرفتاری نہیں ہوئی۔ جب بجلی کا نظام واپڈا کے تحت تھا، اُس کے اپنے خصوصی مجسٹریٹ ہوتے تھے، جو بجلی چوری کا سدّ ِباب کرتے، جو اب نہیں ہو رہا۔ محکمۂ بجلی کے تین ملازم اسلام آباد اور ایک لودھراں میں بجلی چوری روکتے وقت غنڈہ عناصر کے ہاتھوں موت کا لقمہ بن چُکے ہیں۔

منہگی بجلی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ محکمۂ بجلی کو واجبات وصول کرنے کے ساتھ یہ ذمّے داری بھی دی گئی ہے کہ وہ بجلی کی قیمت سے113 فی صد سے زاید رقم صارفین سے ٹیکسز کی صُورت وصول کرے، جس سے صارفین پر دُہرا بوجھ پڑتا ہے۔

پھر یہ کہ حکومت نے نجی جنریشن پاور ہائوسز کو بجلی کی پیداوار کے لیے غیر مُلکی کوئلہ درآمد کرنے کی اجازت دے رکھی ہے، جو کہ قومی کوئلے کی قیمت سے تین گُنا زیادہ ہے-محکمۂ بجلی کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ خالی اسامیاں پُر کی جائیں- چار کروڑ سے زائد بجلی صارفین کے لیے عملے کی شدید کمی ہے، گزشتہ چھے برسوں سے بھرتیاں نہیں کی جا رہیں، جب کہ سنیئر ملازمین ریٹائر ہو رہے ہیں۔کام کی زیادتی کی وجہ سے پچھلے سال66 سے زائد کارکن کرنٹ لگنے سے جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ 

حکومت قوم کو آئی ایم ایف کے رحم وکرم پر چھوڑنے کی بجائے اقتصادی خود کفالت کی پالیسی پر عمل درآمد کرکے صنعت، زراعت، تجارت اور گھریلو صارفین کو بجلی جیسی بنیادی سہولت سستے داموں فراہم کرے-بانیٔ پاکستان، قائدِ اعظم محمّد علی جناح نے بھی ارشاد فرمایا تھا کہ یہ ریاست کی ذمّے داری ہے کہ وہ عوام النّاس کو پانی، بجلی، تعلیم اور علاج معالجے کی سہولت مہیّا کرے۔