اسلام آباد (انصار عباسی)نواز شریف کی جانب سے جنوری 2020ء میں جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے خواجہ آصف کو بھیجا جانے والا نوٹ ان کے اس بیانیے سے متصادم ہے جو وہ سابق آرمی چیف اور دیگر کیخلاف اپنی حکومت کیخلاف 2017ء میں سازش کے حوالے سے استعمال کر رہے ہیں۔
نون لیگ نے جنوری 2020ء میں غیر مشروط انداز سے تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے پیش کی گئی قانون سازی کی حمایت کی تھی۔ نواز شریف کی رضامندی کے بعد اس قانون کے تحت جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع ملی تھی۔
اب نواز شریف جنرل باجوہ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض، سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ اور جسٹس اعجاز الاحسن کے احتساب کی باتیں کر رہے ہیں کہ اِن لوگوں نے اُن کی حکومت ہٹا کر عمران خان کی حکومت قائم کرنے کی راہ ہموار کی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نون لیگ کے چیف میاں نواز شریف اب کیسے 2017ء کی سازش کی بات کر سکتے ہیں جبکہ انہوں نے اور ان کی پارٹی نے خود 2020ء میں جنرل باجوہ کو تین سالہ توسیع دی۔
جنوری 2020 کے اوائل میں، میاں نواز شریف نے خواجہ آصف کو ایک ’’خفیہ‘‘ چٹھی بھیجی تھی جس میں یہ ہدایت موجود تھی کہ نون لیگ کو ملکی استحکام کی خاطر تحریک انصاف کی جانب سے پیش کردہ قانون کو مثبت انداز سے دیکھنا چاہئے۔
میاں نواز شریف صرف یہ چاہتے تھے کہ قانون سازی کو نقصان نہ ہو۔ نواز شریف نے قانون سازی کیلئے ٹائم فریم تجویز کیا لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا لیکن پھر بھی نون لیگ نے اس کی مکمل تائید کی۔
میاں نواز شریف کے نوٹ میں لکھا تھا کہ ’’ محترم خواجہ صاحب، مجھے امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ مجھے آپ کا پیغام موصول ہوا کہ حکومت نے وقت میں 24؍ گھنٹے کی توسیع پر اتفاق کیا ہے۔ بے جا جلد بازی یا قواعد و ضوابط کو بلڈوز کرنا کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں۔
اس طرح کا اہم قانون 24 یا 48 گھنٹوں میں منظور نہیں ہو سکتا۔ ہم ملک میں استحکام کیلئے بل کو مثبت انداز میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم ہم پارلیمنٹ کے وقار پر کسی سمجھوتے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
میری تجویز یہ ہے کہ ہم حکومت پر زور دیں کہ وہ پارلیمانی اصولوں کے مطابق بل کیلئے درج ذیل طریقہ کار کو اپنائے: جمعہ 3 جنوری : بل قومی اسمبلی میں پیش کرکے اور قائمہ کمیٹی کو بھیجا دیا جائے۔
اسی دوران سیاسی جماعتیں بل پر غور کرنے اور قائمہ کمیٹی میں اپنے اراکین کیلئے سفارشات مرتب کرنے کیلئے اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس منعقد کریں۔ منگل 7 جنوری اور بدھ 8 جنوری : قائمہ کمیٹی بل پر غور کرے اور رپورٹ قومی اسمبلی کو بھیجے۔
جمعرات 9 جنوری اور جمعہ 10 جنوری : قومی اسمبلی بل پر غور کرے، بحث کرے اور ووٹنگ کرے اور پھر بل کو سینیٹ بھیج دیا جائے۔ پیر 13 جنوری : سینیٹ اس بل پر غور کیلئے اپنی قائمہ کمیٹی کو بھیجے۔ بدھ 15 جنوری : سینیٹ میں بل پر غور، بحث اور ووٹنگ۔ تمام متعلقہ افراد سے بامعنی رائے حاصل کرنے کے ساتھ بل کی منظوری کیلئے یہ کم از کم ممکنہ ٹائم فریم ہے۔
ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہئے کہ پارلیمنٹ کو اس قدر اہم قانون پر ربڑ اسٹمپ کرتے نہیں دیکھنا چاہئے۔ اگر پارلیمانی اقدار کا درست انداز سے خیال نہ رکھا گیا تو تمام جماعتوں کیلئے مضمرات زیادہ ہوں گے۔
حکومت کی طرف سے بل پیش کرنے سے پہلے کل پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد کریں اور انہیں پڑھ کر سنائیں اور یہ ہدایات قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تمام معزز پارٹی ممبران کو جاری کریں۔ سلام، محمد نواز شریف۔‘‘ نواز شریف کی منظوری کے بعد نون لیگ کا اجلاس ہوا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کیلئے غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا گیا۔
اس کے بعد کہا گیا کہ نون لیگی قیادت نہیں چاہتی کہ آرمی چیف کا عہدہ متنازع ہو، لہٰذا آرمی ایکٹ میں ترمیم کیلئے حکومت کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔