• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا کریں ہمارے غیر سیاسی لوگوں کا ’’شوق سیاست‘‘ ہے کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتا ان تجربات نے سیاست کا ہی لیول گرا دیا ہے، لیول پلینگ فیلڈ کیا ملنی تھی۔ پچھلے 45سال سے’ مائنس ون‘ فارمولہ چل رہا ہے اور بدقسمتی سے خود سیاستدان اپنے ذاتی مقاصد کی خاطر اس کے حصہ دار بن جاتے ہیں۔ کبھی مائنس بھٹو، کبھی مائنس بے نظیر، کبھی مائنس الطاف، تو کبھی مائنس نواز، اب اس کو ایک ’ہائبرڈ‘ نظام کا نام دے دیا گیا اور اس کا تازہ شکار بادی نظر میں سابق وزیر اعظم عمران خان ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کل کے مائنس آج کے پلس ہیں اور کسے پتا جب تک الیکشن ہوں کون کیا ہو جائے آخر کوئی تو وجہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم آگے نہیں بڑھ پا رہے۔

لہٰذا بہتر ہے کہ ہم ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ والی بات کرنا چھوڑ دیں بس ہر الیکشن سے پہلے اور بعد میں حکومت کون بناتا ہے اور کیسے بنتی ہے، جائزہ لے لیا کریں خود پتا چل جائے گا اس بار کا ’’لاڈلہ‘‘ کون ہے کیونکہ یہ لاڈلے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ جو اپنے آپ کو ہر دور کا لاڈلہ سمجھتے تھے آج دربدر نظر آ رہے ہیں حالانکہ ان کی حویلی سے ہر وقت گیٹ نمبر4- کی صدا بلند ہوتی رہی ہے۔ ایوب خان سے لے کر جنرل ضیاء اور جنرل مشرف تک اس سیاسی فیلڈ کو لیول پلینگ کا نام دے کر اپنا نظام رائج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بنیادی جمہوریت ہو یا غیر جماعتی نظام جمہوریت۔ سب سے پہلے پاکستان کا محض نعرہ ہو یا پھر یہ ہائیرڈ نظام ،ہر دور میں کوئی ایک جماعت اور اس کے لیڈر کی قربانی درکار ہوتی ہے ۔ ’چلی ہے رسم کے کوئی نہ سر اٹھا کے چلے‘۔

اس سب پر عمل درآمدکیلئے ایک آسان فارمولا ’’احتساب‘‘ کا نام ہے جو ہمیشہ سے امتیازی ہی رہا ہے۔ ’’بلاامتیاز‘‘ کے نام پر جس کی وجہ سے جماعتیں توڑی جاتی ہیں۔ حکومتوں کو گھر بھیج دیا جاتاہے اور ہماری اعلیٰ عدلیہ اس پورے عمل کو نظریہ ضرورت کا نام دے کر آئینی قرار دے دیتی ہے۔ اور خود آئین بس ایک’ ردی‘ کی مانند کونے میں ڈال دیا جاتاہے۔ اس سب نے سیاست اور سیاستدانوں کو کارپوریٹ کر دیا ہے۔ جس کلچر کی حصہ دار اب خاص حد تک صحافت بھی بن گئی ہے نظریات، اصول کہیں کھو ہی گئے ہیں اب تو بس قیمت لگاؤ اور کچھ بھی وصول کر لو۔ اصول کی بھی قیمت لگ گئی ہے۔

2024 کا الیکشن جو دراصل نومبر 2023 میں ہونا تھا اسی ہائبرڈ نظام کی ایک شکل ہو گا بس کردار بدل جائیں گے پارٹی بدل جائے گی۔ لیڈر بدل جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) 2018میں پنجاب کی سب سے بڑی جماعت تھی اس نظام کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ’باجوہ ڈاکٹرائن کی‘۔ آئندہ تین سے پانچ ماہ میں بہت کچھ بدلنے والا ہے۔ ہمارے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ خود ہائبرڈ نظام کی پیداوار ہیں لہٰذا وہ جو بھی بات کریں گے وہ اسی کی عکاسی ہو گی فرق صرف یہ ہے کہ 2018میں نواز کے خلاف نظام کا حصہ تھے اور 2023میں عمران کے خلاف... اب یہ ساری باتیں اٹک جیل میں عمران بھی سوچیں۔ لندن میں بیٹھے نواز بھی اور لاہور میں بیٹھے زرداری اور بلاول بھی۔

اس پس منظر میں الیکشن کا منظر نامہ کچھ یوں نظر آتا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں مائنس پی ٹی آئی، مائنس الطاف اور ایم کیو ایم (پاکستان) پلس فارمولا ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر یہاں ایک بار پھر پی پی پی مخالف انتخابی اتحاد بنانے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس بار مسلم لیگ (ن) ، ایم کیو ایم ، جی ڈی اے اور جے یو آئی کو مشترکہ پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مسئلہ ان تمام جماعتوں کا یہ ہے کہ ان کی تنظیمی حالت بہت بری ہے خاص طور پر ایم کیو ایم (پاکستان) کی ۔ دوئم ان میں سے ماسوائے جے یو آئی کسی نے اندرون سندھ بھر پور سیاسی سرگرمیاں ان برسوں میں نہیں کیں۔ بہرحال شہباز شریف ایک بار پھر کراچی کی اس نشست سے لڑ سکتے ہیں جہاں سے انہیں ہرایا گیا تھا یا ہروایا گیا تھا۔ مریم نواز بھی اگریہاں سے لڑتی ہیں تو شہری سیاست میں گرمی بڑھے گی۔ جماعت اسلامی نے پچھلے چند سال میں بہت محنت کی ہے اور اگر بلدیاتی الیکشن کے وقت پی ٹی آئی مشکل میں نہ ہوتی تو جماعت کے اتحاد کی صورت میں میئر حافظ نعیم ہوتے۔ پی پی پی کو امید ہے کہ وہ اس بار ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کو درپیش صورت حال میں شہر سے 8 سے 10سیٹیں جیت سکتی ہے مگر کیا وہ لیاری جیت پائے گی اور کیا خود پارٹی بلاول کو یہاں سے دوبارہ لڑائے گی یا اس بار آصفہ بھٹو میدان میں اتریں گی۔ اندرون سندھ آج بھی پی پی پی ہی فرنٹ سیٹ پر ہے اب اگر کوئی ارباب رحیم، لیاقت جتوئی والا فارمولا آ گیا تو الگ بات ہے۔

پنجاب کا معرکہ مائنس عمران نہیں ہو پایا تو شاید خود میاں صاحب واپس نہ آئیں باقی پی ٹی آئی بحیثیت تنظیم خاصی مشکل میںہے کیونکہ صرف الیکشن مہم کیلئے ہزاروں کارکن چاہئے ہوتے ہیں۔ ووٹر تونکل ہی آئے گا۔پی پی پی کو اگر جنوبی پنجاب سے کچھ مل جائے تو الگ بات ہے ورنہ تو تحریک لبیک سے بھی پیچھے ہے۔

رہ گئی بات پختونخوا کی تو 2013 سے آج تک پی ٹی آرہی ہے۔ جس میں پرویز خٹک کا بہت ہاتھ رہا ہے۔ مگر ووٹ وہاں عمران کا ہی ہے۔ مائنس فارمولا کے تحت مقابلہ جے یو آئی، خٹک گروپ، مسلم لیگ (ن) اور اے این پی میں ہے۔ یہاں ایک اور پارٹی کو مائنس فارمولا کی لسٹ میںرکھا گیا ہے۔ پشتون قومی موومنٹ جس کو فری ہینڈ ملے تو حیران کن نتائج آ سکتے ہیں۔ بلوچستان کی صورتحال جو ں کی توں ہے۔ پاکستان کے اس سب سے حساس صوبہ کو اپنوں اور غیروں دونوں نے غیر مستحکم رکھاہے۔ نوجوان یہاںکا بہت کچھ تبدیل کرنا چاہتا ہے مگر وہ سیاست اور ریاست دونوں کا یرغمال ہے۔یہاں کے نوجوانوںکو قومی سیاست میں لائیں ورنہ تو ہائبرڈ نظام کو سرداری نظام ہی سوٹ کرتا ہے۔اب کیا ہو سکتا ہے کہ سیاست کا لیول ہی گر چکا ہے۔ لیول پلینگ فیلڈ ہو یا نہ ہو۔ اس لیول کو کون بہتر کر سکتا ہے اور کیسے اس کا انتظار رہے گا۔

آخر میں کالم ختم کرتے وقت خبر آئی کہ ہمارا ایک ساتھی صحافی عمران ریاض 141دن بعد ہی سہی گھر آ گیاہے۔ میں اس وقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا کہ یہ سب سلسلہ بھی اسی نظام کا حصہ ہے کوئی عمران کی طرح واپس آ گیا اور کوئی ارشد کی طرح واپس نہ آ سکا۔ اللہ عمران اور اس کے اہل خانہ کو اپنی حفاظت میں رکھے۔

؎عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین