• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے منگل کے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو اور ایک انٹرویو میں جو باتیں کیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ آئین و قانون کی پاسداری مقدم ہے اور نگراں حکومت اس امر کو پوری طرح ملحوظ رکھے گی۔ نگراں حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے ان کا موقف یہی ہونا چاہئے کیونکہ مذکورہ حکومتوں کا قیام عبوری مدت کے دورانیے کی ضروریات تک محدود ہوتا ہے۔ یہ اہتمام چند عشرے قبل پاکستان میں کیا گیا۔ اس کا مقصد انتخابات کے منصفانہ انعقاد کو ہر شک و شبہے سے بالا بنانا ہے۔ دیگر جمہوری ملکوں میں انتخابات کے اعلان کے بعد پہلے سے موجود حکومتیں ہی نگہبان سیٹ اپ کے طور پر تقرر، تبادلوں اور بین الاقوامی معاہدوں سمیت ایسے بڑے اقدامات سے گریز کرتی ہیں جن سے انتخابات کی غیرجانبداری کے بارے میں شکوک جنم لینے کا اندیشہ ہو یا مستقبل کی حکومت کیلئے بین الاقوامی سطح پر فیصلہ سازی میں بعض رکاوٹیں سامنے آسکتی ہوں۔ پاکستان میں معیشت کے مسائل سمیت اس وقت جو صورتحال ہے اس میں کسی بھی نوعیت کے فوری فیصلوں کی اشد ضرورت کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اس لئے پارلیمان نے موجودہ نگراں سیٹ اپ کو بعض ایسے اختیارات بھی دیئے ہیں جو سابقہ نگراں حکومتوں کو حاصل نہ تھے۔ ان اختیارات کو استعمال کرنے میں پوری احتیاط ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ نگراں وزیراعظم کی صحافیوں سے گفتگو اور ترک ٹی وی ’’ٹی آر ٹی‘‘ سے انٹرویو میں اس احتیاط کا پہلو نمایاں ہے کہ کسی سیاسی پارٹی یا ممکنہ انتخابی امیدوار کیلئے ان کی حمایت یا مخالفت کا تاثر اجاگر نہ ہو۔ جہاں تک 9؍مئی کے واقعات کا تعلق ہے ان میں سرخ لکیریں پار کئے جانے سے ہر محب وطن پاکستانی کو صدمہ پہنچا اور بنیادی نوعیت کے ایسے معاملات سامنے آئے جن پر کوئی بھی ریاست سمجھوتے کیلئے تیار نہیں ہوتی۔ وزیراعظم کاکڑ کا کہنا تھا کہ 9؍مئی کے معاملات پر نہ تو کوئی ڈیل ہوگی نہ ڈھیل ملے گی۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ نگراں حکومت کی وابستگی کسی سیاسی جماعت سے نہیں، ہم آئین و قانون کے دائرہ میں رہ کر کام کررہے ہیں اور یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کے حامی یا مخالف ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ نگراں حکومت کو کون سے بڑے چیلنجز درپیش ہیں تو وزیراعظم نے تین مرتبہ لفظ ’’معیشت‘‘ دہراتے ہوئے کہا، اس کے سوا ہمیں کوئی چیلنج درپیش نہیں۔ انہیں شکایت تھی کہ گھما پھراکے ان سے منسوب کرتے ہوئے ایسے جملے جوڑنے کی کوشش کی گئی جو ان کا مقصود نہیں تھے۔ غیب کا علم نہ ہونے کے باعث وہ نہیں کہہ سکتے کہ آئندہ الیکشن کس کے ساتھ اور کس کے بغیر ہونگے۔ یہ معاملات سیاسی نہیں قانونی ہیں جن پر ان کا اختیار نہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ نگراں وزیراعظم اپنی گفتگو میںایسی باتوں سے گریز کرتے ہیں جن سے ان کا جھکائو یا مخالفت کسی خاص سمت یا دوسری سمت میں ظاہر ہو۔ ویسے بھی انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری اور نگراں سیٹ اپ کا کام اس کی معاونت کرنا ہے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ دھاندلی کے الزامات عائد کرنا ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہیں مگر انتخابات کی نگرانی کیلئے بین الاقوامی مبصرین بہرحال موجود ہونگے جو الیکشن کے بارے میں اپنی رائے دیں گے۔ قومی مفاد اور مستقبل کا تقاضا ہے کہ ہمارے تمام طبقات انتخابی ہار جیت سمیت حقائق کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔ اس ذہنی و قلبی کشادگی کیلئے ہمارے سیاستدانوں، مصلحین، مبصرین، ماہرین تعلیم اور اساتذہ کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور تعلیمی نصاب سمیت نظام میں ایسی اصلاحات لائی جانی چاہئیں جن کے تحت من حیث المجموع ہم سب حقائق کا اعتراف کرنا اور ان سے سیکھنا شروع کرسکیں۔

تازہ ترین