حضورِ اقدس ﷺ کے اوصافِ جمیلہ ، آپﷺ کے خلقِ عظیم ، حسنِ کردار اور مبارک تعلیمات کا تذکرہ قرآن کریم نے بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے اور آپﷺ کے اخلاق کو’’خُلق عظیم‘‘ فرمایا۔ چناں چہ فرمایا: حضور ﷺکا خلق قرآن ہے: ’’وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ’’(سورۃالقلم: 4)ترجمہ:’’اور بے شک تمہاری خُو بڑی شان کی ہے‘‘۔ معلوم ہوا کہ کوئی بھی حضور ﷺکے اخلاق اور اوصاف کو کماحقہ بیان نہیں کر سکتا۔
خلقِ عظیم وہ نعمت عظمیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تعلیم اپنے حبیب پاک ﷺ کو اس آیتِ مبارکہ میں فرمائی ہے: ترجمہ: درگزر کی عادت اپناؤ، نیکی کا حکم دو اور جاہلوں کو منہ نہ لگاؤ۔(سورۃ الاعراف)حدیثِ پاک میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تونبی اکرم ﷺ نے حضرت جبرائیل امین ؑسے اس بات کی وضاحت چاہی۔ انہوں نے فرمایا :آپ ﷺکو بہترین اخلاق عطاکیےگیے ہیں، جوآپﷺ سے قطع تعلق کرے، اسے اپنے ساتھ بلائیں،جو آپ ﷺکو نہ دے، آپﷺ اسے عطا کریں،جو آپ ﷺپر ظلم کرے ،اسے آپﷺ معاف فرمادیں۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب ﷺ پر فضل و کرم اس درجے ہے اور آپ ﷺ کے اخلاق عظیم اعلیٰ پائےکے ہیں کہ عقل اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ سیرتِ طیبہ کے مطالعے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکارہوتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ا ن مراتب عالیہ کو آخری حد تک پہنچا دیا۔ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیےبھیجا گیا ہے۔(سنن ابو داؤد،جلد 2، صفحہ42)
حضرت حسینؓ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کا خلق عظیم کیوں نہ ہوگا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل اقدس پر اخلاقِ عظیم و اخلاقِ کریمہ کے انوار کی تجلی فرمائی ہے۔ سب سے بہتر اور جامع تفسیر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے بیان فرمائی ہے۔حضرت سعد بن ہشامؒ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا، اے ام المومنینؓ! مجھے نبی اکرم ﷺ کے خلق کے بارے میں بتائیے۔ آپ ؓ نے فرمایا: تم قرآن پاک نہیں پڑھتے؟
میں نے عرض کیا ،میں پڑھتا ہوں۔آپ نے فرمایا :نبی اکرمﷺ کا خلق قرآن ہے۔(صحیح مسلم)
حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا ہے کہ میں نے دس برس رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی اور اس دوران آپﷺ نے کبھی بھی مجھے اُف تک نہ کہا اورنہ کبھی یہ کہا کہ کہ تم نے فلاں کام کیو ں نہیں کیا۔ آپ ﷺ تمام لوگوں میں بہترین خلق کے مالک تھے۔(بخاری ومسلم)
حضوراقدس ﷺ بچوں، عورتوں اور عاجزو ضرورت مند لوگوں پر بے حدشفقت فرماتے۔ ایک صحابی راوی ہیں کہ ایک بار میں ڈھیلے(پتھر)مار مار کر کھجوریں گرارہا تھا۔ آپﷺ نے پوچھا کہ تم کھجوروں پر پتھر کیوں مار رہے تھے ؟ میں نے کہا کہ کھجوریں کھانے کے لیے۔ آپﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا ،دعا دی اور پھر فرمایا پتھر اور ڈھیلے نہ مارا کرو، زمین پر جو کھجوریں گری ہوئی ہوں انہیں اٹھا کر کھالیا کرو۔ (سنن ابوداؤد)
زید بن حارثہ ؓ آپ ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے ،آپ زید کے ننھے بیٹے اسامہ سے بہت پیار کرتے ۔(بخاری ومسلم)حضوراقدس ﷺ ہر غزوے کے موقع پر کفار کے بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا کرتے اور فرماتے تھے کہ ہرجان اللہ کی فطرت پر پیدا ہوتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی عادت میں شامل تھا کہ کوئی شخص بیمار ہوتا تو اس کی عیادت فرماتے اور کوئی شخص فوت ہوجاتا تو اس کی نماز جنازہ میں شریک ہوتے اور پسماندگان سے تعزیت کرتے۔ رسول اللہ ﷺ عبدللہ بن ثابت ؓ کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے ۔انہیں عالم نزع میں دیکھ کرفرمایا افسوس ابوالربیع تمہارے معاملے میں ہم اب بے بس ہیں۔ یہ سن کر گھر کی عورتیں چیخنے چلانے لگیں، صحابہ ؓ نے انہیں رونے سے منع کرنا چاہا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اب رونے دو،البتہ مرنے کے بعد نوحہ نہیں کرنا چاہیے۔وفات کے بعد عبداللہ بن ثابت کی بیٹی نے عرض کیا کہ میرے ابا شہادت کا درجہ حاصل کرنے کے خواہش مند تھے اور انہوں نے اس نیت سے جہاد کا سامان بھی تیار کرلیا تھا۔آپﷺ نے فرمایا کہ انہیں اپنی نیت کا ثواب مل گیا ۔(ابوداؤد)
ان تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ اسلام اخلاق ِ حسنہ کا دین ہے، اور رسول اللہﷺ خلقِ مجسم بناکر مبعوث فرمائے گئے۔آپﷺ کا مثالی اخلاق اور تعلیمات تعلیم و تربیت اور کردار سازی کا مثالی سرچشمہ ہیں۔