• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی استحکام ... قرآن و سُنت کی روشنی میں

رابعہ ملک امتیاز

آج پاکستانی معیشت گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔ ہوش رُبا منہگائی، لاتعداد ٹیکسز، غُربت اور بے روزگاری سے عاجز شہری سڑکوں پرنوحہ کُناں ہیں۔بہ نظرِ غائر جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ مُلکی معیشت اور عوام کی اس بدحالی کا بنیادی سبب اسلامی تعلیمات سے دُوری ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے تحاشا قدرتی وسائل سے نوازا ہے ۔ اگر ہم آج بھی قرآن و سُنّت کی روشنی میں اپنی انفرادی و قومی معیشت کی بنیاد رکھ دیں، تو مُلک سے غُربت و افلاس کا خاتمہ اور چہار سُو خوش حالی کا دور دورہ ہو جائے گا۔

درحقیقت، کسی بھی قوم کی ترقّی کا دارومدار مُلک کے معاشی استحکام ہی پر ہوتا ہے اور اس ضمن میں ایک منظّم حکمتِ عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتظامی و کاروباری امور میں نظم و ضبط اور متعلقہ شعبہ جات کے باصلاحیت افراد کی خدمات حاصل کیے بغیر معاشی خوش حالی کا حصول ممکن نہیں۔ قرآنِ پاک میں اسلامی معاشی نظام کے تین سُنہری اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اوّل، دولت اغنیاء کے درمیان گردش نہ کرے۔ دوم، ضرورت سے زاید مال کو خرچ کر دیا جائے اور سوم یہ کہ خرچ کرتے وقت اسراف یا بُخل کی بہ جائے اعتدال کا مظاہرہ کیا جائے۔

عصرِحاضر میں ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ دولت اغنیاء کے مابین گردش کر رہی ہے، اس کی غیر منصفانہ تقسیم جاری ہے اور ہم بُخل اور اسراف سے بھی کام لے رہے ہیں۔ تجارت کو معیشت میں ہمیشہ بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے اور اسے پیغمبروں کا پیشہ قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ آپﷺ سمیت دیگر انبیاء بھی اس پیشے سے وابستہ رہے۔ اسلام میں تجارت کی اہمیت کا اندازہ نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’جو تاجر تجارت میں سچّائی اور امانت اختیار کرے، وہ قیامت کے دن انبیاء، صدّیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔‘‘

اسلامی شریعت کی رُو سے خواتین بھی مُلک کی خوش حالی و بقا میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ نبی اکرمﷺ کے دَور میں خواتین چار اقسام کی معاشی سرگرمیوں سے وابستہ تھیں، جن میں زراعت، تجارت، طبّ اور دست کاری شامل تھی۔ نیز، بہت سی صحابیاتؓ بھی زراعت اور دست کاری سے منسلک رہیں اور اس ضمن میں حضرت اسما بنت ِابو بکرؓکی مثال ہمارے سامنے ہے۔ طبّ میں حضرت اُمّ رفیدہؓ کا نام سرِفہرست ہے، جب کہ تجارت کے شعبے میں سیّدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ کو کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا، جن کی تجارت کا دائرہ عرب سے لے کر شام تک پھیلا ہوا تھا۔

ہمارے یہاںسُود پر مبنی کاروبار، ناجائز منافع خوری اور اسمگلنگ معاشی عدم استحکام کے بڑے اسباب ہیں۔ یاد رہے کہ اسلام نے سُود کی بہ جائے قرضِ حسنہ کی تعلیم دی ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’معراج کی رات مَیں نے جنّت کے دروازے پر صدقے کا ثواب دس گُنا اور قرض کا ثواب اٹھارہ گُنا لکھا دیکھا، تو حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا کہ اے جبرائیلؑ! کیا وجہ ہے کہ قرض کا ثواب صدقے سے زیادہ ہے؟ تو جبرائیلؑ نے جواب دیا کہ مانگنے والا اپنے پاس کچھ ہونے کے باوجود سوال کرتا ہے، جب کہ قرض خواہ ضرورت کے تحت ہی قرض طلب کرتا ہے۔‘‘

علاوہ ازیں، ناپ تول میں کمی اور حق دار کو اُس کے حق سے کم دینا بھی ہلاکت اور خسارے کا باعث ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے، جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں، تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ناپ یا تول کر دیتے ہیں، تو کم دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن یہ اُٹھا کر لائے جانے والے ہیں۔ اُس دن سب لوگ ربّ العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔“

اسلامی معیشت میں ملکیتِ اموال سے مراد صرف امانت و نیابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کسبِ حلال میں امین بنایا ہے، جب کہ زمین اور اس کی پیداوار میں تمام انسانوں کا حق مساوی ہے۔ نیز، جملہ اموال میں حاجت مندوں کا شرعی حق ہے۔ یاد رہے، حقِ معاش کی فراہمی ریاست کی ذمّے داری ہے ، لیکن ہر شہری کے لیے حتی المقدور کسبِ معاش لازم ہے۔ اسلامی معیشت کے مذکورہ بالا اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہو کر مُلکی معیشت کواستحکام و دوام بخشا جا سکتا ہے۔ (مضمون نگار ، پی ایچ ڈی اسکالر اور معاون استاد ، ڈی ایچ اے، صُفّہ یونی ورسٹی، کراچی ہیں)