پاکستان میں معاشی بحران کا ایک بڑا سبب اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی ہے جس کے تدارک کیلئے ماضی میں یا تو سرے سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی یا کی بھی گئی تو مجرمانہ غفلت سے کام لیتے ہوئے نیم دلانہ اقدامات کئے گئے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کو جو پر لگ گئے اور گندم، چینی، کھاد اور دوسری اہم اجناس کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہو گیا اس کی روک تھام کیلئے نگران وفاقی حکومت نے فوج کی مدد سے آہنی کریک ڈاؤن کیا جس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ ڈالر کی قیمت گر کر 286روپے تک آ گئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ مزید گرے گی اور ڈھائی سو روپے کی اصلی قدر تک پہنچ جائے گی۔ عسکری قیادت اگر ڈالر مافیا اورا سمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن نہ کرتی تو منی چینجرز کے مطابق سٹے بازوں نے ڈالر کا نرخ چار سو روپے تک پہنچا دینا تھا۔ حساس اداروں کی جانب سے غیر قانونی ملکی اور غیر ملکی کرنسی کے ناجائز کاروبار کے خلاف جو کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔اس کے نتیجے میں پشاور کی کرنسی مارکیٹ مسلسل دو ہفتے سے بند پڑی ہے۔ یہی صورتحال کوئٹہ ، کوہاٹ ، کراچی ، لاہور اور دوسرے شہروں کی کرنسی مارکیٹوں کی بھی ہے۔ پورے ملک میں ڈالر کے خرید ار اکا دکا رہ گئے ہیں جبکہ فروخت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ڈالر کی قدر مسلسل نیچے آنے کی وجہ سے حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کر دی ہے۔ کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ذخیرہ اندوزوں کے گوداموں میں چھپائی ہوئی ہزاروں بوری گندم، چینی اور کھاد برآمد کی جا چکی ہے جس کی مقدار لاکھوں من ہے۔ ان اشیا اور غیر ملکی کرنسی کو افغانستان اسمگل کیا جا رہا تھا۔ نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس میں اعتراف کیا ہے کہ اسمگلنگ اونٹوں پر نہیں بلکہ ٹرکوں کے ذریعے سکیورٹی ایجنسیوں کی ناک کے نیچے ہوتی ہے اور آرمی چیف نے ایک میٹنگ میں واضح کیا ہے کہ اسمگلنگ میں فوج کے لوگ ملوث ہوئے تو ان کا بھی کورٹ مارشل ہو گا اور انہیں جیل بھیجا جائیگا۔ حساس اداروں نے ملک بھر میں ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں اور آٹے، چینی سمیت ضروری اشیا کی اسمگلنگ کے خاتمے کیلئے سخت ہاتھ ڈال رکھا ہے۔ ایسی ہی ایک کارروائی میں تقریباً ڈھائی ہزار ٹن گندم افغانستان اسمگل کرتے ہوئے پکڑی گئی۔اسی طرح چینی کی اسمگلنگ روکنے کیلئے بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کو کراچی پورٹ سے افغانستان تک ہر جگہ مانیٹر کیا جا رہا ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ اسمگلنگ ذخیرہ اندوزی اور حوالہ ہنڈی کے غیر قانونی دھندے میں ملوث بڑے سے بڑے شخص کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ بلوچستان میں دس مشترکہ چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں جو کسٹمز، فرنٹیئر کور اور پولیس حکام پر مشتمل ہیں۔ ان کا مقصد اسمگلنگ کی مانیٹرنگ اور روک تھام ہے۔ا سمگلنگ اور دوسرے غیر قانونی دھندوں کو روکنے کیلئے فوج کا کردار بڑا اہم ہے۔ فوج کے پاس احتساب کا ایسا موثر میکنزم ہے جس کا عام لوگوں کو پتہ نہیں، اس سے کام لے کر حساس ادارے مجرموں کا سراغ لگا رہے ہیں۔ آرمی چیف اس عمل میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں جس کی وجہ سے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔وزیر داخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ اسمگلنگ میں سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کےنام بھی شامل ہیں۔ تحقیقات میں ان کے خلاف ثبوت مل گئے تو ان کے نام سامنے لے آئیں گے۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان نہ صرف زرعی بلکہ معدنی دولت اور محنت کش افرادی قوت سے مالا مال ہے۔ مگر اسکے وسائل اسمگلنگ کی نذر ہو رہے ہیں۔ اس ناسور پر قابو پا لیا جائے تو ملک بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کر کے خوشحالی کی منزل حاصل کر سکتا ہے۔ حکومت کو اس سمت میں موثر اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔