• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باعث مہنگائی کی شرح ستمبر میں 31.44 فیصد ہوگئی ہے جو کہ چار ماہ کی بلند ترین شرح ہے۔ درآمدات پر عائد پابندیوں میں نرمی اور سبسڈی کے خاتمے سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ستمبر میں اشیائے خورد و نوش بدستور مہنگی ہوئیں۔ مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 38.4 فیصد ہوگئی ۔شہری علاقوں میں یہ شرح 4.7 فیصد اور دیہی علاقوں میں 3فیصد تک بڑھی۔ بجلی کی قیمتوں میں ماہانہ، سہ ماہی اور سالانہ بنیادوں پر متعدد بار اضافے کے باوجود پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بھی بڑھ کر 23.1کھرب تک جاپہنچے ہیں۔ ہر ماہ آنے والا بل صارفین کے لئے 440وولٹ کے جھٹکے سے کم نہیں۔ نیپرا نے ایک بار پھر سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 3 روپے 28پیسے بجلی مہنگی کرکے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈال دیا ہے جنہیں 6 ماہ میں اضافی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔ المیہ یہ ہے کہ انہیں اصل بل کے ساتھ درجنوں اقسام کے ٹیکس ادا کرنا پڑتے ہیں۔ آئی پی پیز کے مہنگے معاہدوں،مفت اور بجلی چوری کا خمیازہ بھی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔گزشتہ ستمبر کے مقابلے میں آج بجلی کا ایک یونٹ 166فیصد زیادہ مہنگا ہوگیا ہے اس طرح گیس کی قیمت گزشتہ سال کے مقابلے میں 63فیصد زیادہ ہے۔ جس میں مزید 45فیصد اضافے کا امکان ہے۔پٹرول ریلیف کے بعد بھی 324روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ شرح سود 22فیصد ہونے کے باوجود بنیادی مہنگائی میں کمی نہیں آئی۔ آٹے کی قیمتوں میں 88 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ چاول کی قیمت میں تقریباً دو تہائی اضافہ ہوا۔ مہنگائی ایک بار پھر ایسے وقت میں عروج پر ہے جب روزگار کے مواقع کم ہیں۔ تنخواہ دار اور دیہاڑی دار طبقہ ساری بدحالی سے بہت زیادہ متاثر اور شدید مالی مشکلات کا شکارہے ۔سفید پوش طبقہ ’’پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ کی کیفیت سے دو چار ہے۔ معاشرے کی یہ حالت ’’جگ بیتی ‘‘ہی نہیں بلکہ ’’آپ بیتی‘‘ جیسی ہے۔

تازہ ترین