• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا ہے اس کی بڑی وجہ ملکی خزانے میں ڈالرز کی قلت ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے ڈالر کی ا سمگلنگ کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ اور بینکوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے۔ تاہم اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جن لوگوں نے معاشی غیر یقینی کی وجہ سے ڈالر خرید کر اپنے پاس جمع کئے ہوئے ہیں انہیں یہ ڈالر بینکوں میں جمع کروانے پر راغب کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں حکومت کو شہریوں سے اپیل کرنی چاہئے کہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے جو شہری ڈالر اپنے پاس رکھنے کی بجائے بینکوں میں جمع کروائیں گے انہیں اور ان کے سرمائے کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ یقین دہانی بھی کروائی جائے کہ جب بھی انہیں اپنے جمع کروائے گئے ڈالرز کی ضرورت ہو گی وہ انہیں فراہم کئے جائیں گے۔ برٹش پاؤنڈز، یورو، سعودی ریال اور اماراتی درہم سمیت دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے حوالے سے بھی پالیسی متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ اس طرح قومی خزانے یا زرمبادلہ کے ذخائر میں فوری نمایاں اضافہ ہو جائے گا اور پاکستان کو غیر ملکی مالیاتی اداروں اور درآمدات کے حوالے سے ادائیگیوں میں درپیش مالیاتی دباؤ سے نجات مل جائے گی۔

اس سلسلے میں بینکوں کی جانب سے شہریوں کو غیر ملکی کرنسی میں اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے نرم شرائط پر ترجیحی سروسز فراہم کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں حکومت کو فوری پالیسی بنا کر اس کا اعلان کرنا چاہئے کہ آئندہ دس دن یا ایک مہینے کے اندر اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے شہریوں سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی کہ ان کے پاس یہ ڈالرز یا غیر ملکی کرنسی کب اور کہاں سے آئی ہے بلکہ انہیں مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے یہ پالیسی بھی بنائی جا سکتی ہے کہ کوئی شہری کتنی مالیت کی غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھ سکتا ہے تاکہ مقررہ مالیت سے زیادہ غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔ اس سلسلے میں کم از کم پانچ ہزار ڈالرز یا اس کے مساوی غیر ملکی کرنسی کی حد مقرر کی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی شہری اپنی فوری ضرورت کیلئے اتنا فارن ایکسچینج اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اس سے تسلسل کے ساتھ بیرون ملک سفر کرنے والے ایکسپورٹرز، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے والدین یا علاج کے لئے بیرون ملک جانے والے شہریوں کے اہلخانہ کو اپنی فوری ضرورت کے پیش نظر درکار غیر ملکی کرنسی مقررہ حد کے مطابق اپنے پاس رکھنے کا قانونی استحقاق حاصل ہو جائے گا اور حکومت کے پاس جمع زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی کوئی بڑا دباؤ نہیں پڑے گا۔ علاوہ ازیں اس اقدام سے فاریکس مارکیٹ میں جاری سٹے بازی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں آنے والے غیر معمولی اتار چڑھاؤ کا بھی تدارک کیا جا سکے گا۔

اس طرح نہ عالمی سطح پر پاکستان کی مالیاتی ساکھ میں بہتری آئے گی ، شہریوں کےبھی حکومت پراعتماد میں اضافہ ہو گا اور وہ بوقت ضرورت باآسانی بینکوں سے ڈالرز یا دیگر غیر ملکی کرنسی حاصل کر سکیں گے۔ یہ اقدام ملک میں مالیاتی نظم ونسق کو بہتر بنانے میں بھی معاون ہو گا اور لوگوں کو غیر ملکی کرنسی کیش میں بیرون ملک لیجانے یا بھیجنے سے نجات مل جائے گی اور وہ بینکنگ چینل کے ذریعے غیر ملکی کرنسی بیرون ملک بھجوا سکیں گے۔ اگر ملک کے مفاد میں وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو اس ایک اقدام سے ہی ملک کے بہت سے مسائل میں بہتری آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آنے سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم ہو گی جس سے پاکستان کو بیرون ملک سے خام مال اور دیگر اشیائے ضرورت درآمد کرنے پر کم زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا۔ اس سے نہ صرف ملک میں جاری مہنگائی کی بلند شرح کو نیچے لایا جا سکتا ہے بلکہ پاکستانی ایکسپورٹرز کو بھی برآمدات میں اضافے کے لئے سازگار ماحول میسر آئے گا اور وہ اپنی مصنوعات کی قیمت کم کرکے عالمی منڈی سے زیادہ برآمدی آرڈرز حاصل کر سکیں گے۔ علاوہ ازیں ڈالر کی قدر میں کمی سے پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی جس سے عام آدمی کو ریلیف میسر آئے گا اور انڈسٹری کی پیداواری لاگت میں بھی کمی آئے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو مارک اپ کی شرح کو بھی سنگل ڈیجٹ پر واپس لانے کے لئے سنجید ہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ارباب اقتدار کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ 24فیصد کی بلند ترین شرح سود کے ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک میں انڈسٹری نہیں چلائی جا سکتی ہے بلکہ ایسے حالات میں دنیا کے بڑے سے بڑے ادارے بھی دیوالیہ ہو جاتے ہیں جس سے جہاںعالمی سطح پر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے وہیں معاشی سرگرمیوں کو بھی بحال ہونے میں لمبا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ مارک اپ کی شرح کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر واپس لانے کے لئے روڈ میپ کا اعلان کیا جائے تاکہ انڈسٹری کا اعتماد بحال ہو اور پاکستان سے جاری سرمائے کے انخلا کو روک کر مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں مزید سرمایہ کاری پر راغب کیا جا سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مارک اپ میں اضافے کو عمومی طور پر افراط زر میں کمی کے لئے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں گزشتہ پانچ سال کے تجربے نے یہ ثابت کیا ہے کہ مارک اپ میں اضافے کی پالیسی نے ملک کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔

تازہ ترین