اگر ہم نے اپنی ڈگر نہ تبدیل کی اور دو رخی حکمت عملی کو جاری رکھا تو یہ طے ہے کہ ہمارے ، فوجی ، پولیس ، قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں سے وابستہ افراد اور شہری دہشت گردی کی کارروائیوں کی زد میں رہیں گے، شہیدوں کے جنازوں پر چوڑیاں ٹوٹتی اور بچے یتیمی کا دکھ برداشت کرتے رہیں گے ۔ مستونگ ، هنگو، میانوالی اور جڑانوالہ بھی،کوئی اچانک رو نما ہونے والے سانحات نہیں، ہم ان کے منتظر تھے کہ یہ ہو تو ہماری آنکھیں کھلیں ۔ آنکھیں کھل جانے کیلئے ایک طویل عرصے سے ہماری زمین خوں رنگ ہو چکی ہے ۔ عشروں پر محیط ذہن سازی ہمیں اس موڑ پر لے آئی ہے کہ پاکستان کو مستقل طور پر دہشت گردی کے خطرے سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے ۔ آج سے عشروں قبل سرکاری ٹی وی پر نسیم حجازی کے ناول کو ڈرامائی تشکیل دیتے ہوئے آخری چٹان کے نام سے ڈرامہ پیش کیا گیا ۔اردو ادب سے شناسا افراد اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مولانا عبد الحليم شرر اور نسیم حجازی کے ناول اصل تاریخی شخصیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مصنف کے ذاتی تخیل پر مشتمل واقعات ہوتے تھے جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا تھا ۔ ادبی چاشنی کیلئے تحریر کئے گئے ناولوں کو ایسے پیش کیا گیا کہ جیسے یہ سب کچھ در حقیقت وقوع پذیر ہوا تھا ۔ آخری چٹان کا اس سبب سے ذکر کر رہا ہوں کہ اس کی پہلی قسط میں ہی یہ دکھایا گیا کہ صلیب کو گرايا جا رہا ہے ۔ صلیب ہم مسلمانوں کیلئے مذہبی نشان نہ سہی مگر وطن عزیز میں بسنے والے لاکھوں مسیحیوںکیلئے حرز جاںہے ۔ ذرا چشم تصور میں لائیے کہ ایک پاکستانی مسیحی کے دل پر کیا گزری ہوگی جب اس نے اپنے مقدس مذہبی نشان کی اس طرح ایک سرکاری ادارے کے تیار کردہ ڈرامےمیں بے توقیری ہوتے دیکھی ہوگی اور مزید غور کیجئے کہ جب مسلمانوں نے ایک ایسے ڈرامہ میں جس کو مکمل طور پر گلیمرائز کر کے پیش کیا جا رہا تھا اس قسم کا منظر دیکھا ہوگا تو ان کی کس نوعیت کی ذہن سازی ہوئی ہوگی ؟ کیا اس کے بعد بھی اس کا امکان رہ جاتا تھا کہ وہ اپنے پاکستانی مسیحی بھائیوں کے مذہبی جذبات ، ان کیلئے مذہبی طور پر مقدس اشیا کا اس لئے احترام کریں کہ اس سے دوسرے مذہب کے جذبات مجروح ہونگے ؟ جواب نفی میں آئے گا ۔ جھگڑا ہمارا انڈیا سے ہے لیکن اس جھگڑے کی وجہ سے جس کا جو دل چاہتا ہے وہ ہندو دھرم کے حوالے سےجو جی میں آئے کہہ جاتا ہے اور یہ کہنا کوئی صرف اپنے منعقد کردہ پروگراموں تک محدود نہیں ہوتا ہے بلکہ ٹی وی تک پر اس قسم کی گفتگو دیکھنے کو ، سننے کو مل جاتی ہے ۔ ابھی کوئی زیادہ پرانی بات نہیںکہ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کے ایک وزیر نے ہندو دھرم کے حوالے سے ایک نہایت ہی نازیبا بیان داغ دیا ۔ ان سے وزارت واپس لے لی گئی مگر چند ہفتوں بعد وہ دوبارہ وزارت پر برا جمان ہو گئے ۔ کیا تاثر گیا ؟ کہ بس دنیا دکھانے کو ایک رسمی کارروائی کی گئی اور پھر دوبارہ وزیر بنا دیا گیا ۔ میں نے آخری چٹان سے اب تک کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ ایک تسلسل برقرار ہے جو مستقل طور پر اسی انتہا پسندانہ ذہنیت کو تیار کر رہا ہے اور شو مئی قسمت کہ جب تک یہ تسلسل ہے اس وقت تک اس نوعیت کے واقعات سے پالا پڑتا رہے گا ۔ میں نے ابتدا میں ڈگر کی تبدیلی کی بات کی تھی ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں کہ افغانستان میں کالعدم تنظیمیں پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہیں ، سب جانتے ہیں مگر یہ بھی ہم سب جانتے ہیں کہ جو دہشت گرد ہیں وہ تو ہیں مگر ان کی سوچ کو پروان چڑھانےوالے ، آج بھی جن کی پہچان بندوق کی نالی ہے، سوشل میڈیا پر ان کے نفرت آمیز بیانات ، تقاریر، اختلافی نظریہ رکھنے والوں کو جان سے مارنے کی گفتگو کرنے والے پاکستان میں کھلے عام دھڑلے سے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ جب یہ لوگ ذہن سازی کر رہے ہیں اور یہ تصور بھی مزید گہرا ہو رہا ہے کہ ان کا کچھ نہیں بگڑ سکتا بلکہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں انتخابات میں چند نشستوں کیلئے یا حکومت سازی کے لئے ان سے اتحاد بھی کر گزرتی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس سوچ کے لوگ بار بار سر نہ اٹھائیں اور کہیں نہ کہیں دہشت گردی کیلئے بار بار منظم نہ ہو جائیں ۔ مولانا شبلی نعمانی نے امام ابوحنیفہ کی سیرت پر ، سیرت النعمان کے عنوان سے بہت بے نظیر کتاب رقم کی تھی اس کتاب میں مولانا شبلی نعمانی رقم طرازہیںکہ ’’ یہ مسلم اور یقینی ہے کہ جو شخص توحید اور نبوت کا قائل ہے اور دل سے اس پر اعتقاد رکھتا ہے وہ قرآن مجید کی نص کے مطابق مسلمان ہے ۔ اب اس کے مقابلے میں وہ حدیثیں جو قطعی الثبوت نہیں ہیں اور جن میں بہت سے خارجی امور پر کفر کا حکم دیا گیا ہے کچھ اثر نہیں پیدا کر سکتیں ۔ اسی بنا پر امام صاحب ( یہاں مولانا شبلی نعمانی نے چند فرقوں کے نام تحریر کئے ہیں مگر میں بوجوہ ان کے نام نہیں لکھ رہا ہوں ) کو کافر نہیں کہتے تھے ، اور اس قسم کی حدیثوں کا کہ’’بہتر فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہے اور باقی دوزخی‘‘ اعتبار نہیں کرتے تھے لیکن بہت سے ظاہر بینوں نے ان حدیثوں کا یہ رتبہ قائم کیا کہ ان کی بنا پر بات بات پر کفر کے فتوے دیے ، یہاں تک کہ جو شخص وضع قطع میں ذرا بھی کسی دوسرے کا مشابہ ہو جائے، وہ کافر ہے ۔ خود متاخرین حنفیہ نے امام صاحب ( امام ابو حنیفہ ) کے اس عمدہ اصول کو نظر انداز کردیا اور سینکڑوں ہزاروں مسئلے کفر کے ایجاد کر دیے جن کی تفصیل سے فقہ کی کتابیں مالا مال ہیں۔ امام ابوحنیفہ سے لیکر مولانا شبلی نعمانی تک فہم دین کس قسم کا رکھتے تھے اور ہمارا پالا کن سے پڑ گیا ہے ۔ اور زیادہ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود ہم ابھی تک ان لوگوں کے حوالے سے اگر مگر میں پڑے ہوئے ہیں ۔ یاد رکھئے جب تک ان ذہن سازی کرنے والوں کو نہیں روکا جائے گا اس وقت تک کوئی نہ کوئی دہشت گرد تنظیم وجود پاتی رہے گی اور صرف یہ کہنے سے کہ ان کا کوئی مذہب نہیں یا یہ خوارج ہیں، مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ خاکم بہ دہن، ٹوٹی چوڑیاں روز کا مقدر ہونگی ۔