پنجاب ہمیشہ سے مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے۔ماضی میںپنجا ب کے مینڈیٹ نے ہی مسلم لیگ ن کیلئے مرکز ی حکومت کی راہ ہموار کی۔میاںنواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے،پنجاب کے لوگوں نے ہی نواز شریف اور ان کی جماعت کے ساتھ ہمیشہ پیار کیا۔اسی لئے مسلم لیگ ن پنجاب کو اپنا سیاسی قلعہ سمجھتی ہے۔ویسے بھی پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں پنجاب ہر دور میں کلیدی کردار ادا کرتارہا ہے۔جو جماعت پنجاب سے کامیاب ہوتی ہے،اس کیلئے مرکزی حکومت بنانا ایک آسان ہدف رہ جاتا ہے۔کیونکہ پنجاب کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد مرکزی حکومت کے ہدف کو پورا کرنے کیلئےکافی ہے اور پنجاب سے اکثریتی نشستیں حاصل کر نے کا مقصد ہے کہ مرکز میں بھی آپکی اکثریت ہوگی۔گزشتہ 35سال کے دوران مسلم لیگ ن پنجاب کی واحد اسٹیک ہولڈر تھی اور ہر دور میں اس کی مقبولیت اپنی انتہا پر تھی۔مشرف دور میں بھی ق لیگ دراصل مسلم لیگ ن کے بطن سے ہی وجود میں آئی تھی۔ اور مسلم لیگ ق نے یہی نعرہ دیا تھا کہ ہم دراصل مسلم لیگ ن کی ہی بی ٹیم ہیں اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ آمریت سے لڑنے کے بجائے ایک نئی جماعت کے پلیٹ فارم کے ذریعے اسمبلی میں پہنچا جائے۔کچھ لوگوں نے تو اپنے حلقوں میں یہاں تک تاثر دیا کہ ہم مجبوری کی وجہ سے ق لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں ،لیکن ہمارا دل نوازشریف کے ساتھ ہے۔یعنی کہ پنجاب کے لوگوں نے ہمیشہ نواز شریف کے نام پر ووٹ دیا۔
پنجاب میں لیفٹ کا ایک بہت بڑا طبقہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔جب تک محترمہ بے نظیر بھٹو حیات تھیں،پنجاب کے لیفٹ کے لوگ متحد ہوکر ان کے ساتھ کھڑے رہے اور یوں پیپلزپارٹی کی پنجاب میں ایک مضبوط شناخت قائم رہی۔پیپلزپارٹی کو کبھی سندھ مرکزی حکومت میں لے کر نہیں آیا بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئیں اور وزارت عظمیٰ تک ان کا سفر پنجاب نے ہی طے کروایا۔ 2008سے 2013 تک پیپلزپارٹی کی پنجاب میں تقریباً 126نشستیں تھیں۔مگر بد انتظامی اور کرپشن کے بازار نے پیپلزپارٹی کا پنجاب میں شیرازہ بکھیر دیا۔پانچ سال کے عرصے میں پی پی پی کی پنجاب اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 126سے کم ہوکر6رہ گئی۔یہ پی پی پی کا زوال تھا۔دانشور حضرات فرماتے ہیں کہ پی پی پی کا سیاسی زوال ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادت سے شروع نہیں ہوا،بلکہ پی پی پی کا اصل زوال پنجاب میں اپنے ووٹر کو گنوانے سے شروع ہوا۔
بہرحال حالات تبدیل ہوئے اور پی پی پی کا اکثریتی ووٹ بینک تحریک انصاف کے ساتھ جڑتا چلا گیا۔پی پی پی کے زعما جس وقت تحریک انصاف کی مقبولیت کو مسلم لیگ ن کے ووٹ بینک میں ڈینٹ قرار دے رہے تھے اور زرداری صاحب اسے اپنی کامیاب سیاسی چال سمجھ رہے تھے۔ دراصل یہ وہ وقت تھا ،جب مسلم لیگ ن کے مقابلے میں پی پی پی کے بجائے تحریک انصاف کو لاکھڑا کیاگیا۔آج تحریک انصاف نے پنجاب میں جتنی بھی جگہ حاصل کی ہے،یہ وہی خلا ہے ،جسے پی پی پی کے زوال کے بعد کسی سیاسی جماعت نے تو پرُ کرنا تھا۔ایسے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی کھلی سپورٹ نے تحریک انصاف کیلئے یہ معرکہ آسان بنایا اور یوں 126ایم پی ایز رکھنے والی پیپلزپارٹی صرف چھ سیٹوں تک محدود ہوگئی اور ایک بھی نشست نہ رکھنے والی تحریک انصا ف2018میں پنجاب اسمبلی میں 126کا ہندسہ باآسانی عبور کرگئی۔ان سب حقائق کے باوجود پنجاب پر گرفت ہمیشہ مسلم لیگ ن کی مضبوط رہی۔
گزشتہ چند ماہ سے سوشل میڈیا کے ٹرینڈز یہ تاثر دے رہے تھے کہ اب تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کو بھی پچھاڑ دیا ہے اور تحریک انصاف اس وقت پنجاب کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر ہے۔چونکہ مسلم لیگ ن چند ماہ کی مرکزی حکومت میں تھی ،اس لئے اس کی جانب سے بڑے عوامی اجتماعات کا انعقاد نہیں کیا جارہا تھا ،جس سے ثابت ہوسکتا کہ پنجاب میں اس وقت مقبول کون ہے؟ سوشل میڈیا کے ٹرینڈز سے یہی تاثر دیا جارہا تھا کہ پنجاب اب صرف تحریک انصاف کا ہے۔مسلم لیگ ن کی کوئی بڑی سیاسی سرگرمی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔مگر نواز شریف کی واپسی کے اعلان نے مسلم لیگ ن کے ووٹر میں نئی روح پھونک دی۔سو شل میڈیا پر اس وقت پورے پنجاب سے سیاسی جلسوں کی تصاویر اور ویڈیوز موصول ہورہی ہیں۔مسلم لیگ ن کی گزشتہ ایک ہفتے کی سیاسی سر گرمی نے ثابت کیا ہے کہ پنجاب اس وقت بھی مسلم لیگ ن کا ہی سیاسی گڑھ ہے۔سوشل میڈیا کے ٹرینڈز عوامی مقبولیت کے عکاس نہیں ہوتے۔تحریک انصاف کا پنجاب میں اچھا خاصا ووٹ بینک ہے۔لیکن تحریک انصا ف کی پنجاب میں جڑیں ابھی مضبوط نہیں ہوئیں اور نہ ہی تحریک انصاف پنجاب میں مسلم لیگ ن کی جڑیں اکھاڑنے میں کامیاب ہوئی۔آئندہ چند ماہ کا سیاسی منظر نامہ بتارہا ہے کہ پنجاب ایک مرتبہ پھر پوری طاقت سے نوازشریف کے ساتھ کھڑا ہوگااور یہی پنجاب مسلم لیگ ن کیلئے مرکزی حکومت کی راہ ہموار کرے گا۔ظاہر ہے غیر مقبول سیاسی فیصلوں سے سیاسی جماعتوںکے ووٹ بینک کو نقصان پہنچتا ہے۔مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک بھی سخت معاشی فیصلے کرنے کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ پنجاب آج بھی مسلم لیگ ن کا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)