• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہ قول مصطفیٰ زیدی ؎ بچا گئیں کئی لوگوں کو متّحد لہریں…ڈبو دیا ہمیں پایابیٔ تمنّا نے… مَیں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں …تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ غمِ جاناں کو غمِ دوراں سے نظم، غزل اور نثر میں تو کیا، زندگی کے کسی بھی شعبے میں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا اور ایک شاعر کی یہ فنی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے قاری کے سامنے ان دونوں جذبوں کے امتزاج سے انفس و آفاق کی وجدانی کیفیات کو مکمل منظر کشی کے ساتھ پیش کرے۔ 

مصطفیٰ زیدی کا شمار بھی ایسے ہی چند قابلِ ذکر شعرا میں کیا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے غمِ جاناں اور غمِ دوراں کو نہ صرف ذاتی زندگی میں جھیلا بلکہ اپنے کلام میں بھی بھرپور طریقے سے برتا۔ ان کی شاعری میں فکر کی صداقت، جذبے کی شدّت اور خلوصِ دل بہ درجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ وہ اِک طرزِ فقیرانہ لیے ہوئےعشق و محبّت کے شاعر تھے۔ اُن کی شاعری میں روایتی شاعری سے رُوگردانی بھی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر کہیں وہ فراقؔ اور فیضؔ کی طرح نرم اور دھیما لہجہ اپناتے ہیں، تو کہیں جوشؔ کی سی گھن گھرج اور بلند آہنگی۔

مشہور جواں مرگ شاعر، مصطفیٰ زیدی اپنی شاعری کے اوّلین دَور میں تیغ اِلہ آبادی تخلّص کیا کرتے تھے اور اسی نام سے ادبی محافل میں جانے جاتے تھے۔ اُن کی ذاتی زندگی پر بہت کچھ لکھا جا چُکا ہے۔سو، ہم اس مضمون میں اُن کی دل میں اُتر جانے والی اچھوتی شاعری کا ذکر کریں گے۔

مصطفیٰ زیدی کی نظم ’’بنامِ وطن‘‘ نے بین الاقوامی شُہرت حاصل کی۔ اس نظم کے بند اپنے اندر برجستگی اور ایک نیا اسلوب سموئے ہوئے ہیں۔ نظم کچھ یوں ہے کہ ؎ کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم … جوہری بم کی صدا اور صدائے گو تم … رزق برتر ہے کہ یہ شعلہ بداماں ایٹم…گھر کے چولھے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم…زخم اچّھا ہے کہ ننّھی سی کلی اچّھی ہے… خوف اچّھا ہے کہ بچّوں کی ہنسی اچّھی ہے… علم سقراط کی آواز ہے، عیسیٰ کا لہو … علم گہوارہ و سیارہ و انجام و نمو…علم عبّاس عَلم دار کے زخمی بازو …علم بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے آنسو …وادیٔ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا… جو اِن اشکوں پہ ہنسے گا، وہ جُھلس جائے گا۔

جوش ملیح آبادی کے ساتھ ایک یادگار تصویر
جوش ملیح آبادی کے ساتھ ایک یادگار تصویر 

عمیق مطالعے نے مصطفیٰ زیدی کو انسانی جذبات و احساسات کے نہایت قریب کر دیا تھا اور وہ انسانی رویّوں کے مصنوعی پن و ملمّع سازی سے انتہائی بےزار تھے۔ وہ مغربی شاعری اور ادب سے بےحد متاثر تھے، لہٰذا انہیں اپنی بات بِلا کم و کاست اور کسی جھجک و منافقانہ مصلحت کے بغیر کہنے میں کوئی باک نہ تھا۔ اس ضمن میں ہم اُن کی دو نظموں کے اقتباسات پیش کر رہے ہیں۔ ؎ ہاں بڑی چیز ہیں راہ و رسمِ جہاں…باپ، خاوند، بہنیں قفسِ پاسباں… رکھ لیا اپنے رشتوں کا تُونے بھرم… آبگینہ تھا دل اس کو بھی سہہ گیا… تو مُجھے بھائی کہتی رہی اور مَیں…کیا بتاؤں تجھے دیکھتا رہ گیا اور ؎ آج اِک افسروں کے حلقے میں …ایک معتوب ماتحت آیا…اپنے افکار کا حساب لیے… اپنے ایمان کی کتاب لیے… ماتحت کی ضعیف آنکھوں میں… ایک بُجھتی ہوئی ذہانت تھی…افسروں کے لطیف لہجے میں …قہر تھا، زہر تھا، خطابت تھی… یہ ہر اِک دن کا واقعہ، اِس دن…صرف اس اہمیت کا حامِل تھا… کہ شرافت کے زُعم کے باوصف… مَیں بھی اُن افسروں میں شامل تھا۔

اگرمصطفیٰ زیدی کی غزلوں کی بات کی جائے، تو ان کا اسلوب جہاں نہایت ترو تازہ اور شگفتہ ہے، وہیں یہ رجائیت اور ایک طنزیہ برجستگی بھی لیے ہوئے ہیں۔ ان کی غزلیں دروں بینی، معاشرتی نا ہم واریوں اور عصری ناقدردانیوں کا شعور اجاگر کرتی ہیں۔ نیز، انہوں نے غزلوں میں بھی صداقت اور حقیقت کو اپنے فن کی بنیاد بنایا ہے۔ اُن کی غزلیں نئے زاویۂ فکر کی عکّاس اور چونکا دینے والے تاثر سے پُر ہوتی ہیں۔ مثلاً ؎ آندھی چلی تو نقشِ کفِ پا نہیں ملا… دل جس سے مِل گیا، وہ دوبارہ نہیں ملا…کچّے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی… مضبوط کشتیوں کوکنارا نہیں ملا۔ ؎ کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے…غمِ دل مِرے رفیقو، غمِ رائیگاں نہیں ہے…انہی پتّھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آئو…مِرے گھر کے راستے میں کہیں کہکشاں نہیں ہے۔ اور ؎ غازی بنے رہے سبھی عالی بیان لوگ…پہنچے سرِصلیب فقط بے نشان لوگ…آیا تھا کوئی شام سے واپس نہیں گیا…مُڑ مُڑ کے دیکھتے ہیں ہمارا مکان لوگ۔ اسی طرح ؎ سفر پر نکلے تھے ہم جس کی رہنمائی پر…وہ اِک ستارہ کسی اور آسمان کا تھا…جسے ہم اپنی رگِ جاں بنائے بیٹھے تھے…وہ دوست تھا، مگر اِک اور مہربان کا تھا… ؎ حدیث ہے کہ اُصولاً گناہ گار نہ ہوں…گناہ گار پہ پتھّر سنبھالنے والے… اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر نظر رکھیں… ہماری آنکھ سے کانٹے نکالنے والے۔

اہلیہ اور بچّوں کے ساتھ
اہلیہ اور بچّوں کے ساتھ 

مصطفیٰ زیدی کو اپنے ہم عصروں اور اپنے عہد کے ادبی پنڈتوں کی جانب سے خود کو نظرانداز کیے جانے کاسخت گلہ رہا۔ ملازمت، غمِ دوراں اور غمِ جاناں سے وہ جاں بر نہ ہو سکے اور عین جوانی یعنی 40برس کی عُمر میں 12اکتوبر 1970ء کو کراچی میں اس دارِفانی سے کُوچ کر گئے۔ ان کی رحلت کے بعد صہبا لکھنوی نے بڑے اہتمام سے اپنے رسالے، ’’افکار‘‘ کا ’’مصطفیٰ زیدی نمبر‘‘ شایع کیا، جس کا دوسرا ایڈیشن بھی شایع کیا گیا، جو برس ہا برس سے نایاب ہے۔ 

صہبا لکھنوی کی صاحب زادی، مقصودہ صہبا نے، جو غالباً اب بیرونِ مُلک مقیم ہیں، روانگی سے قبل رابطہ کیا اور اُن سے افکار کے دوسرے اہم شماروں کے علاوہ مذکورہ شمارے کی فوٹو اسٹیٹ ہی دست یاب ہوسکی۔ مصطفیٰ زیدی کے مجموعۂ کلام میں زنجیریں، روشنی، شہرِآزر، موج مِری صدف صدف، گریباں، قبائےساز اور کوہِ ندا دست یاب ہیں۔ ؎ گزرنے والوں میں کتنے جگر فگار تھے آج… فقیرِ راہ ہیں ہم، ہم کو کیا نہیں معلوم… بہت سے وہ ہیں، جو بارِ سفر اُٹھانہ سکے… بہت سے و ہ ہیں، جنھیں راستہ نہیں معلوم۔