پاکستانی معیشت بظاہر بڑی بری صورتحال کا شکار ہے۔ لیکن اگر صحیح معنوں میں اس کی ترقی کی صلاحیتوں (potential ) کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں تمام ذرائع موجود ہیں جن کی بنیاد پر کوئی بھی ملک ترقی کرسکتا ہے۔ قدرتی وسائل، انسانی وسائل چاہے ذہانت ہو یا جسمانی محنت، مالی وسائل چاہے روپے کی شکل میں ہوں یا ڈالر کی، ( حکومت بھلے سے مالی وسائل کی کمی کا رونا روتی رہے miss management کی وجہ سے وسائل کا زیاں ہو سکتا ہے)۔ آخری وسائل ہے ناظم یا آجر ( entrepreneur ) جس کا کام ان تینوں کو ملا کر بہترین طریقہ سے استعمال کرنا ہے تاکہ ملکی پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ ہو سکے۔ علم معاشیات کے مطابق یہ چاروں وسائل کا بہترین استعمال ملکی ترقی کا ضامن ہے۔ لیکن آخر ملک میں ایسا کیا ہے کہ چاروں عاملین پیدائش ( factors of production/ resources )کے باوجود ہماری ترقی کا گراف نیچے کی طرف آتا چلا جارہا ہے؟ لوگوں میں مایوسی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ حکومتی پالیسیاں باوجود بڑے بڑے دعووں کے ناکام ہیں؟ کہیں نہ کہیں کچھ تو گڑبڑ ہے ۔ وسائل کا بہترین استعمال بس جی یہی تو گڑبڑ ہے۔ وسائل تو موجود ہیں لیکن ان کا استعمال طریقے سے یا بہتر طور پر نہیں کیا جارہا۔ معیشت کو چلانے یا تو ناتجربہ کار ہیں، یا صلاحیتوں سے محروم ہیں، یا محب وطن نہیں ہیں۔ کیوں کہ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں کہ پاکستان وسائل سے مالامال ملک ہے۔ مسئلہ ہے تو صرف اور صرف ان وسائل سے مستفید ہونے کا۔ کون کرئے گا یہ کام؟ کوئی سیاستدان؟ کوئی معیشتدان؟ کوئی سائنسدان؟ کوئی منصف؟ کوئی بیوروکریٹ؟ کوئی فوجی؟ یا عام آدمی؟ یقینا کوئی ایک یہ کام نہیں کرسکتا۔ بہت ہوگیا رہنما / لیڈر شپ کا انتظار کرتے ہوئے۔ اب سب کو مل کر یہ فرض نبھانا ہوگا۔ جس کے لئے سب سے پہلے حب الذات ( self interest) سے نکل کر حب الوطنی( patriotism) اختیار کرنی ہوگی۔ با اختیار کی حکمرانی کی بجائے قانون کی حکمرانی (rule of law) قائم کرنی ہوگی۔ ملکی مفاد ہی کو ذاتی مفاد سمجھنا ہوگا۔ بظاہر ایسا کرنا مشکل لگتا ہے لیکن ناممکن نہیں۔ کچھ اہل اقتدار اور کچھ عوام کو لچک ( flexibility) دکھانی ہوگی۔ جو جس جگہ، جس عہدے، جس میدان میں ہو اپنا حصہ یہ سوچ کے ڈالے کہ اگر میرے اس عمل سے میرے ادارے کو فائدہ حاصل ہوگا تو خودبخود وہ میرا ذاتی فائدہ بھی ہوگا۔ لیکن اگر میں نے اپنے ادارے کے بل بوتے پہ صرف اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دی تو کل میرا یہ ادارہ بھی نقصان میں ہوگا اور میں بھی۔ بالکل اسی طرح ادارے بھی اپنی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے ملکی ترقی سے بنیاد بنائیں۔ ناکہ تعلقات کی بنیاد پر اپنے لئے ہر جگہ آسانی پیدا کرتے ہیں اور دوسروں کے لئے مشکلات کھڑی کریں۔ کیوں کہ اداروں کی ترقی سے ہی ملک ترقی کرتا ہے۔ لیکن صرف ایک ادارہ یا چند ادارے بقیہ سارے اداروں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے آگے نکلنے کی کوشش میں سرگرداں رہیں تو نتائج ملکی ترقی کی موافقت (favour) میں نہیں بلکہ مخالفت (against) میں ہوں گے۔ حالات بتاتے ہیں کہ اب دور مقابلے ( competition) کا نہیں بلکہ تعاون ( collaboration) متحد ہو کر عمل کرنے کا ہے۔ کیونکہ مقابلہ میں کوئی ایک جیتتا ہے جب کہ تعاون میں ہر کسی کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اب یہ ہم سب شہریوں کو سوچنا ہوگا کہ ہمیں ایک دوسرے کا حریف ( rival) بن کر اپنا جھنڈا اوپر کرنے کے لئے الزامات کا تبادلہ کرنا ہے یا حلیف (ally) بن کر ملک کا جھنڈا اوپر کرنا ہے۔