• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کی کم و بیش 4سال کی ’’خود ساختہ‘‘ جلا وطنی کے بعد وطن واپسی ہو گئی لیکن یہ وہ ہنستا بستا پاکستان تو نہیں جسے وہ چھوڑ کر فرنگیوں کے دیس میں جا بسےتھے، مینار پاکستان میں ان کا استقبال کرنے والے وہی مسلم لیگی کارکن تھے جن کی ’’بیڈ گورنس‘‘ نے مسکراہٹیں چھین لی ہیں، مہنگائی کے بوجھ تلے دبے لوگ نواز شریف کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے مینار پاکستان کے سائے تلے اکھٹے ہوئے ہیں حالات کی ستم ظریفی پژمردہ چہروں پر عیاں تھی لیکن اپنے قائد کو اپنے درمیان دیکھ کر بے اختیار ’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پچھلے 6سال کے دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے پنجاب جو کبھی مسلم لیگ (ن) کا پاور بیس ہوا کرتا تھا 16ماہ کی پی ڈی ایم حکومت کی ’’بیڈ گورننس‘‘ نے بڑی حد تک پی ٹی آئی کی گود میں پکے پھل کی طرح ڈال دیا، لیکن پی ٹی آئی کی ’’عاقبت نا اندیش‘‘ قیادت نے9مئی 2023ء کا ’’مس ایڈونچر‘‘ کر کے اپنا سارا ’’پولیٹکل کیپٹل‘‘ ضائع کر دیا اب نواز شریف ’’امید پاکستان‘‘ بن کر واپس آئے ہیں، مسلم لیگ (ن) نے قوم کو ’’امید سے یقین تک، پاک سرزمین تک‘‘ کا نیا نعرہ دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ کہیں گم ہو گیا ہے۔ اس نے ’’نواز شریف پرانا پاکستان واپس لائے گا‘‘ کا نیا بیانیہ دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کے نئے بیانیہ کو کس قدر پذیرائی حاصل ہوتی ہے اس کا فیصلہ تو عام انتخابات میں ہی ہو گا عام انتخابات کے انعقاد کے بارے جہاں غیر یقینی صورت حال پائی جاتی ہے وہاں پیپلز پارٹی نواز شریف کی واپسی پر طنز و تشنیع کے تیر چلا رہی ہے۔ جہاں تک مینار پاکستان کے سائے تلے ایک بڑے جلسے کا انعقاد کا معاملہ ہے وہ ایک بڑا سیاسی ’’پاور شو‘‘ تھا یہ پاور شو مینار پاکستان کےسائے تلے بے نظیر بھٹو اور عمران خان کے ہونے والے شوز کا ہم پلہ تھا جب کہ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق نواز شریف کا شو بڑا تھا، شرکا ء کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو اور عمران خان کے جلسوں کے شرکا کی تعدا د لاکھوں بتائی جاتی تھی، یہ جلسہ بھی لاکھوں سے کم نہ تھا۔ پہلی بار مسلم لیگ (ن) نے منظم طریقے سے جلسہ کو تاریخی بنانےکیلئے شعوری کوشش کی، مریم نواز نے پورے ملک سے مسلم لیگی کارکنوں کو متحرک کر کے مینار پاکستان کے سامنے لا کھڑا کیا۔ لاہور مسلم لیگ (ن) کا ’’لینن گراڈ‘‘ تصور کیا جاتا تھا، پی ٹی آئی نے ’’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ ایجنڈا اختیار کر کے قلعہ کے درو دیوار میں جگہ جگہ سوراخ کر کے اس کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور کو پاش پاش کر دیا، اب پی ٹی آئی بھی نواز شریف کے شہر پر اپنا ’’کلیم‘‘ کر رہی ہے۔ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ نواز شریف کی وطن واپسی سے مسلم لیگ (ن) کے تن مردہ میں جان آگئی ہے۔ مسلم لیگیوں کو نواز شریف کی شکل میں اپنا ’’سروائیول‘‘ نظر آرہا ہے۔ پنجاب جہاں اٹک سے لے کر صادق آباد تک مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا پرچم لہراتا تھا، اب ہر حلقے میں پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کو آنکھیں دکھا رہی ہے وہ تو ’’کپتان‘‘ کی غلط حکمت عملی نے پوری جماعت کو پہاڑ سے دھکا دے کر گہری کھائی میں گرا دیا اور آج پوری جماعت زخمی زخمی ہے اور اپنے ہی قائد کو تمام تر صورت حال کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے ’’الیکٹیبل‘‘ اسی طرح اپنی جماعت کو داغ مفارقت دے رہے ہیں جس طرح 2018ء میں پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کے لئےمسلم لیگ (ن) کے الیکٹیبلز‘‘ کو نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور کیا گیاتھا، پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پارلیمان میں براجمان ہونے والوں نے ’’سیاسی عدت‘‘ کے دن بھی پورے نہیں ہونے دئیے اور دھاڑیں مار کر روتے ہوئے سیاست سے تائب ہو گئے۔ پچھلے چند دنوں سے نواز شریف کی واپسی موضوع گفتگو بنی ہوئی تھی نواز شریف مخالف عناصر مسلسل نواز شریف کی وطن واپسی کا پروگرام ملتوی کرنے کا پروپیگنڈہ کر رہے تھے جوں جوں 21اکتوبر کی تاریخ قریب آتی گئی نواز شریف مخاف عناصر شرمندہ شرمندہ نظر آنے لگے، کرائےکے لوگوں نے نواز شریف کے استقبالیہ بینر اور ہورڈنگز پھاڑنے شروع کر دئیے اب ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے کہ نواز شریف ’’ڈیل‘‘ سے آرہے ہیں، نواز شریف کو راہداری کی ضمانت اسی قانون کے تحت ملی ہے جس کے تحت ایک ہی روز عمران خان کو اکھٹے 9مقدمات میں ضمانت دی گئی اور انہیں قانون کی گرفت سے بچانے کے لئے آئندہ درج ہونے والے نئے مقدمات میں بھی ضمانت دے دی گئی تھی۔ نواز شریف نے اپنی واپسی کے لئے وہی راستہ اختیار کیا ہے جو پاکستان کے کسی عام شہری کو حاصل ہے۔ سیاسی مخالفین نے نواز شریف کی واپسی پر طعنہ زنی کی اور کہا کہ وہ میدان جنگ فتح کر کے نہیں آ رہے۔ البتہ ایک بات واضح ہے کہ نواز شریف کی واپسی سے پژمردگی کا شکار مسلم لیگ (ن) میں نئی زندگی کے آثار نظر آنے لگے ہیں نواز شریف کی وطن واپسی پر بے سود بحث ختم ہو گئی ہے۔ اب کئی روز تک یہ بحث جاری رہے گی کہ نواز شریف کا جلسہ بڑا تھا یا عمران خان اور بے نظیر بھٹو کا پاور شو بڑا تھا۔ نواز شریف کا جن حالات میں استقبال ہوا ہے وہ عمران خان اور بے نظیر بھٹو سے بالکل مختلف ہے۔ بے نظیر بھٹو ضیاالحق کی آمریت کے خلاف میدان میں اتری تھیں لیکن وہ تمام تر کوششوں کے باوجود پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہ کر سکیں عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے جلسہ منعقد کیا لیکن عام انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کر سکے حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں اپنا اپوزیشن لیڈرتک نہ بنوا سکے، اب یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کی واپسی اور شو آف پاور میں اسٹیبلشمنٹ حائل نہیں لیکن یہ شو مسلم لیگ ن کا اپنا شو ہے، وہ گلی کوچوں کےعام لوگوں کو متحرک کر کے مینار پاکستان لائی۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ مسلم لیگی کارکنوں کو کسی ایک شخصیت نے متحرک کیا تو یہ زیادتی ہو گی۔ مریم نواز کو اس حد تک کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو ’’متحرک‘‘ کرنے کے لئے تمام وسائل کو بروئے لایا، پارٹی کے دیگر رہنمائوں نے بھی نواز شریف کے بے مثال استقبال میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔(جاری ہے)

تازہ ترین