• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

صرف جَو کا پانی؟

تازہ ’’سنڈے میگزین‘‘ سامنے ہے۔ محمود میاں نجمی، منور مرزا، رئوف ظفر اور فرّخ شہزاد ملک کے مضامین پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ سب ہی بہت اعلیٰ تحریریں ہیں۔ سرِورق کی ماڈل حیا خان کی فوٹو گرافی بھی بہت پسند آئی اور یہ ہمارے’’ پیارا گھر‘‘ کو کیا ہوگیا ہے بس، ’’جَو کا پانی ‘‘ پینے کو مل رہا ہے ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں حسن افضال نے اپنے ہم زلف کی پیدائش سے لے کر انتقال تک کی ساری صفات، خُوبیاں بیان کرکے رکھ دیں، وہ بھی آھے صفحے میں، بڑی بات ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج :ارے بھئی، اِس ہوش رُبا منہگائی میں یہ جَوکا پانی بھی بڑی نعمت ہے۔

مَن گھڑت قصّہ

’’ سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حکیم لقمان کا قصّہ بہت ہی شوق، دل چسپی اور دل جمعی سے پڑھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے بھارت کے امریکا اور مغرب سے تعلقات پر روشنی ڈالی۔ رئوف ظفر نے 100 بچّوں کی ماں سے ملوایا، بہت ہی شان دار رپورٹ تھی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں شفق رفیع نے غیر ضروری سرجزیر کی بڑھتی شرح پرمفصّل نگارش قلم بند کی اور کیا ہی عُمدگی سے کی۔ ’’یاد داشتیں‘‘ میں پیرزادہ سیّد خالد حسن رضوی نےسیّد حیات النبی رضوی امروہی کے متعلق مضمون تحریر کیا۔ انہوں نے یہ مضمون جس انداز سے تحریر کیا، اُس سے پتا چلتا ہے کہ اُن کی وفات کو شایدسال بھر بھی نہیں ہوا۔ بہرحال، ایسی ہستیاں روزروز پیدا نہیں ہوتیں۔ 

اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں جس ہانڈی میں کھانا کے عنوان سے ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم کا واقعہ ممکن ہے، درست ہو، لیکن وہ سوئی گیس کمپنی میں کیا کررہے تھے، وہ تو ڈاکٹر ہیں۔ مجھے تو یہ ایک گھڑی ہوئی کہانی لگتی ہے۔ اوراب آئیے’’آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، جس میں ہماراخط نہیں تھا۔ خیر، کوئی بات نہیں، اگلےشمارے میں شامل ہوجائے گا۔ آپ خادم ملک کے ساتھ حُسنِ سلوک کا معاملہ کیا کریں، کیوں کہ وہ خاندانی نواب ہیں اور ایسی باتیں ان کی شان کے خلاف ہیں اور پھر اگر اُنہوں نے خط لکھناچھوڑدیا، توہم لوگوں کو جو لطائف پڑھنے کو ملتے ہیں، اُن سے محروم ہو جائیں گے۔ ( سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)

ج: کسی ہومیو ڈاکٹر کا سوئی گیس کمپنی میں ملازم ہونا کون سی ایسی اچنبھے کی بات ہے اوراُن کے بھیجے گئے واقعات بھی عموماً عام روزمرّہ کے قصے، کہانیاں ہوتےہیں، تواُن کے لیے مَن گھڑت کا لفظ قطعاً مناسب نہیں۔ ہاں البتہ یہ آپ کے خادم ملک سو فی صدی خُود ساختہ خاندانی نواب ہیں اور اُن کے بیش تر قصّے کہانیاں مَن گھڑت ہی معلوم ہوتے ہیں۔

معیار پر سمجھوتا نہیں کیا

ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دوہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے ہدایت سے لب ریز صفحات موجود تھے۔ ’’کیا ہم آئی ایم ایف کو خیرباد کہنے کے لیے تیار ہیں؟‘‘ پاکستان پر قرضہ ہی اِتنا چڑھ چکا ہے کہ ہم چاہنے کے باوجود اس سے جان نہیں چھڑوا سکتے۔ ہاں، اگر ہماری زمین سونا، گیس، تیل اگلنے لگے تو ایسا ممکن ہے۔ ’’ہیپا ٹائٹس فِری پروگرام2030 ء ‘‘سے پاکستان کوسوں دُور ہے، اللہ پاک اپنا رحم فرمائے۔

’’لاہور کی بیکریاں‘‘ شان دار رپورٹ تھی۔ ’’چڑھتے سورج کی سرزمین، جاپان‘‘ جی ہاں، یہ وہی جاپان ہے جس نے دو ایٹم بموں کو اپنی زمین پر سہا اور ہمّت نہیں ہاری۔ ’’میڈ اِن جاپان‘‘ نے کہاں کہاں اپنا لوہا نہیں منوایا۔ یہ الفاظ کسی بھی آئٹم پر ہوں، آنکھیں بند کرکےخرید لیا جاتا ہے۔ بے شک، اُن کی ترقی کا راز ہی یہ ہے کہ انہوں نے معیار پر سمجھوتا نہیں کیا۔ لوگ محمّد سلیم راجا سے متعلق بہت فکرمند ہوگئے تھے کہ وہ کافی عرصے سے غائب تھے، اب اُن کی ای میل پڑھ کر دل کوتسلّی ہوگئی ہے۔

دوسرا شمارہ محرم الحرام اسپیشل تھا، جس کے تمام ہی مضامین ایک سے بڑھ کر ایک لگے۔ معروف گیسٹرو انٹرولوجسٹ، پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ عباسی نے فرمایا کہ ’’ہیپا ٹائٹس بی سی اور ڈی کے ستّر فی صد کیسز میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں‘‘، مضمون پڑھ کے معلومات میں بے حد اضافہ ہوا۔ اور’’ ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں ناچیز کا پیغام بھی شامل تھا۔ آپ سے گزارش ہے کہ ابرارالحق، سائرہ بانو، سہیل احمد، نواز انجم کو بھی ’’کہی ان کہی‘‘ میں لائیں، ہمیں اُن سے متعلق جاننے کا بہت اشتیاق ہے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

فوراً سے پیش تر نام تبدیل کریں

’’سنڈے میگزین‘‘ کا نام تبدیل کردیں۔ ایک اُردو جریدے کا انگریزی نام کچھ خاص جچتا نہیں۔ پھر یہ میگزین 1998ء سے شائع ہو رہا ہے، تو25 سال سے ایک ہی نام سُن سُن کر عوام اُکتا چُکے ہیں۔ اِس لیے فوراً سے پیش تر اِس کا نام تبدیل کرکے کوئی اچھا سا نام رکھیں۔ نیز، برمودا ٹرائی اینگل سے متعلق کوئی تفصیلی رپورٹ بھی شائع کریں۔ (نواب زادہ بے کارملک، سعید آباد، کراچی)

ج: غالباً آپ کا نام پہلے خادم ملک ہوتا تھا، جو آپ نے اپنی مستقل بے روزگاری، بے کاری کےبعد تبدیل کرکے ’’بے کار ملک‘‘ کرلیا۔ لیکن ضروری نہیں، ہر ایک کے ساتھ ایسے ہی تلخ تجربات ہوں۔ ہمارا جریدہ روزِ اوّل سے آج تک ایک کام یاب شمارہ ہے اور الحمدللہ، اِس کا نام اِسے خُوب راس ہے۔ سو، ہم قطعاً ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ دوم، پہلے بھی متعدّد بار گوش گزار کیا گیا ہے کہ جریدے سے متعلق کئی معاملات ہمارے استحقاق و اختیارسے قطعاً باہر ہیں اوراُن ہی میں سے ایک، نام کی تبدیلی کا معاملہ بھی ہے۔

پرانے جرائد موجود ہیں

مورخہ 20 اگست کے ’’سنڈے میگزین‘‘ میں مصطفیٰ احمد نامی ایک صاحب نے پرانے میگزین منگوانے سے متعلق دریافت کیا۔ میرے پاس 20نومبر 2022ء تا 20اگست2023 ء کے شمارے موجود ہیں۔ وہ کسی بھی وقت آکر مجھ سے لے سکتے ہیں، مَیں ہر وقت گھر ہی پر ہوتا ہوں۔ (انعام الحق، ایم وائی پلازا، ناظم آباد نمبر1،چائولہ مارکیٹ، کراچی)

ج: ہم نے آپ کا مکمل ایڈریس اپنے پاس نوٹ کرلیا ہے۔ اب اگر وہ صاحب رابطہ کریں گے، تو اُنہیں دے دیا جائے گا۔

میری تصویر شائع ہوسکتی ہے؟

جواب دیں یا نہ دیں، بس ملاقات کرلیں اور بتادیں کہ میرے مضامین کب شائع ہوں گے اور میگزین کے صفحات میں کب اضافہ ہوگا۔ نیز، سرورق پر جو تصویر شائع ہوتی ہے، اُس کے لیے کتنا معاوضہ دینا پڑتا ہے اور کیا ٹائٹل پر میری بھی تصویر شائع ہوسکتی ہے۔ (شہناز سلطانہ، گلزار ہجری، کراچی)

ج: سرورق پر کوئی تصویر نہیں، باقاعدہ ماڈلنگ (شُوٹ) کے بعد، کسی نوجوان ماڈل کا ایک منتخب پوز شایع کیا جاتا ہے اور جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے، آپ نے پچھلے کسی خط میں بتایا تھا کہ آپ غالباً30برس سے سنڈے میگزین کی قاریہ ہیں اور کسی ٹیچرز سوسائٹی کی رہائشی ہیں۔ اب ہم آپ کے اِس شوق اور خواہش کا کیا جواب دیں۔ آرزوئیں، عُمر سے میل کھاتی ہوئی ہی ہوں، تو اچھی لگتی ہیں۔ اور تحریر تو آپ کی کوئی بھی قابلِ اشاعت نہیں، جب کہ ہم آفس میں صرف خُود ہی سے ملاقات کرنا پسند کرتے ہیں کہ ورک لوڈ ہی اتنا ہوتا ہے۔ 

دنیا کی سیر کو نکل جائوں

میگزین پکڑا، تو وزن کافی کم محسوس ہوا، پلٹا، تو ایک ماڈل توقعات کےبرعکس باحجاب نظرآئی۔ دیکھ کےبےحد خوشی ہوئی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں قصّۂ شیطان لعین تھا، جس پر میرا دماغ کوئی تبصرہ نہیں دے پارہا۔ ہاں، ’’ہر گود ہوآباد‘‘ کا چھوٹا سا بےبی اتنا کیوٹ لگا کہ دیکھ کرمیرا دل ’’چُوچو، چُوچو‘‘ کرنے لگا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں سفرِحجاب دیکھ کر پڑھنے کا دل کیا، مگر… دل تھام کر آگے بڑھ گئی۔ اوہ آگے… ’’اسپیس ریس‘‘ دیکھی، تو بس اب آرام سے پڑھوں گی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ماڈل اچھی بلکہ بہت اچھی لگی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ دیکھ کر دل اُتنا ہی خُوش ہوگیا، جتنا میگزین کا کم وزن دیکھ کرافسردہ ہوا تھا۔ ’’باکو اور قبالا‘‘ دونوں بہت اچھی جگہیں لگیں۔

شاید مَیں عُمرکےجس حصّے میں ہوں یاپتانہیں کوئی اوربات ہے کہ سفرنامے پڑھ کر دل چاہتا ہے کہ بندہ بس دنیا کی سیرکو نکل جائے۔ یقین کریں، کائنات بڑی حسین ہے، آپ ایک کُھلےمیدان ہی میں چلےجائیں، تو زبان سے ’’سبحان اللہ‘‘ کی تسبیح نہیں رُکتی۔ حالاں کہ مَیں توایک چھوٹےسےشہرگوجرہ میں رہتی ہوں، جو زیادہ خُوب صُورت بھی نہیں، لیکن مجھے یہ بھی بہت پسند ہے، خاص طور پر یہاں کی شامیں، اکثر دل کرتا ہے، اِس کے گلی کُوچوں میں آوارہ گردی کروں۔ اور ہاں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں نواب زادہ بےکار ملک توآج معمول سے بھی کچھ زیادہ بے کار لگے۔ ( منتہٰی ریاض، حفیظ پارک، گوجرہ)

ج: اِک دنیا کی سیر کو نکلنے والا معاملہ ہی نہیں، اور بھی کئی باتوں سے تمھارا بچپنا عود عود کے باہر آرہا ہے، لیکن کوئی بات نہیں، آرزوئیں، عُمر سے میل کھاتی ہوئی ہوں، تو اچھی ہی لگتی ہیں۔

تابندہ لاری کہاں ہیں؟؟

آپ اورآپ کی ٹیم کی خیریت کے لیے ہمہ وقت دُعاگو ہوں۔ روزنامہ جنگ کا بہت ہی پُرانا قاری ہوں۔ کلاس نہم کا طالب علم تھا، جب جنگ اخبار پڑھنےکاچسکالگا۔اوراب سنڈے میگزین کا ہراِک صفحہ آپ کی محنت کامنہ بولتا ثبوت معلوم ہوتا ہے۔ شروع تاآخربھرپورمعلوماتی اورخُوب سبق آموز۔ آپ سے پوچھنا یہ تھا کہ 1970ء کی دہائی میں ’’بلادی‘‘ کےعنوان سے ایک صفحہ نکلتا تھا، جوکہ تارکینِ وطن کےمسائل سے متعلق ہوتاتھا۔ وہ تابندہ لاری تیارکیا کرتی تھیں۔ تابندہ لاری آج کل کہاں ہیں، پلیز، اُن کے بارے میں ضرور بتائیں۔ باقی محفل میں شامل تمام دوستوں کوسلام۔ پرچے کی ترقی کے لیے دعُاگو ہوں۔ (قدیر رانا، اسلام آباد)

ج: تابندہ لاری تو بہت عرصہ قبل ایک نجی ادارےسےوابستہ ہوگئی تھیں۔ ویسے نعت خوانی کی محافل میں وقتاً فوقتاً دیکھی جاتی ہیں، جب کہ اُن کے چھوٹے بھائی، مرحوم عمران لاری بھی ایک طویل عرصے تک ’’سنڈے میگزین‘‘ سےوابستہ رہے۔ آپ بلادی کے جس صفحے کی بات کررہے ہیں، وہ تو کچھ عرصہ قبل تک جنگ اخبار کا باقاعدہ حصّہ تھا، مگر وہ کبھی تابندہ کرتی تھیں، یہ ہمارے علم میں نہیں کہ آپ ہمارے ہوش کی دنیا میں آنے سے بھی پہلے کی بات کر رہے ہیں۔ 

البتہ ہم نے کچھ عرصہ قبل اپنے ’’سال نامے‘‘ کے لیے اُن سے ’’ٹی وی اسکرین‘‘ کا ری ویو ضرور کروایا تھا کہ ہمارے علم میں تھا کہ وہ کسی دَور میں ٹی وی تبصرہ کرتی رہی ہیں۔ ویسے آج کل کسی کو ڈھونڈنا کون سا مشکل کام ہے، کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جا کے صرف نام ٹائپ کریں، اور بس پھرسب روزمرّہ معمولات، کچا چٹّھا آپ کے سامنے۔

        فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کی ٹیم کو بمع اہل وعیال خُوش وخرّم رکھے،آسانیاں عطافرمائے۔ بحیثیت ایڈیٹر، سنڈے میگزین آپ کے اس جواب نے کہ ’’بلاشبہ آپ کا شمار بھی چند اچھے اردو لکھنے والوں میں ہوتا ہے‘‘، آبزرویشن میں پڑے میرے نیم مُردہ وجود میں ایک نئی رُوح پھونک دی۔ بیٹا! مجھے اس حقیقت کا بھی اعتراف ہے کہ میرے بعض الفاظ کی جگہ اُن کے متبادل یا اُن سے کہیں موزوں الفاظ سے جملے کی تزئین و آرائش کرکے میری اصلاح اور خطوط کی اُردو اچھی کرنے میں آپ ہی کا کمال ہے۔ 

بہرحال، 20اگست کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں افغانستان سے متعلق مضمون ’’احسان کا بدلہ احسان، نہ کہ احسان فروشی‘‘ ایک بحث طلب موضوع تھا۔ عوام کی اکثریت اس نقطۂ نظر سے اختلاف رکھتی ہے۔ میرے نزدیک یہ تحریر ایک مشقِ زیاں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ ’’اسحاق ڈار کی واپسی خوش آئند‘‘ اور ’’آئی ایم ایف سے مذاکرات بحالی، ایک کام یابی‘‘ جیسے مضامین کی طرح یہ بھی اپنے انجام کو پہنچ کر نام نہاد ذہانت و فطانت کی سند قرار پائے گا۔ ؎ جابجا بکتے ہوئے کُوچہ و بازار میں جسم… خاک میں لِتھڑے ہوئے، خُون میں نہلائے ہوئے۔ 

فیض احمد فیض کے اِس شعر سے ذہن ’’گھروں میں کام کرتےکم سِن مزدوروں‘‘ کی طرف گھوم جاتا ہے۔ رئوف ظفر نے اس انتہائی فکرانگیز موضوع پر قلم اُٹھا کر معصوم بچّوں پر ہونے والے ظلم وجبرکوبےنقاب کیا۔ بعض اوقات بے پناہ تشدّد کے سبب ہلاکتوں یا معذوری کی الم ناک خبریں دل دہلاکر رکھ دیتی ہیں۔ اگرچہ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میری طبع آزمائی کا میدان نہیں، مگرآپ کی طرف سے’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ لکھنے کی دعوتِ عام کے بعد معاملہ سنگین صُورت اختیارکرگیا۔ 

اس فراخ دلانہ پیش کش پرہر طرف ایک پُراسرارسناٹا چھا گیا۔ بڑے بڑے جغادریوں نے پَروں میں چونچ دَبا کرآنکھیں مُوند لیں۔ یہاں تک کہ رات کی تاریکی میں راگ الاپنے والے جھینگروں نے بھی چُپ سادھ لی۔ یہ خاموشی یقیناً کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ اورپھر وہی ہوا، جس کا خدشہ تھا۔ ایک شام چُرانے کے شوق میں ’’بحرِ تنہائی‘‘ میں جذبات و احساسات سے ’’لرزاں‘‘ خُوب صُورت الفاظ کا اُٹھنے والا ایک طوفان، فصاحت و بلاغت کی تمام کم زور عمارتوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا۔ تلاطم ذرا تھما تو دیکھا، شائستہ بیٹی قلم کا پتوار لیے روزمرّہ جھنجھٹوں، تھکاوٹوں کی بپھری منہ زور موجوں کو پیچھے دھکیلتے بالآخر اپنی کشتی ’’اسٹائل‘‘ کے ساحل پر لے ہی آئیں۔

تحریر گرچہ بہت جان دار تھی، مگر تصاویر کے پس منظر سے اس کی کوئی موافقت و مطابقت نظر نہیں آئی۔ اس پرمیری ادبی و فنی غیرت نےمجبور کیا کہ مَیں بھی اپنی تہذیب و روایات کی آئینہ دار تصاویر لے کر ’’رائٹ اَپ‘‘ کے لب و رخسار کو امام دین گجراتی، فضل دین مَکڑوالوی اور لعل چوپڑا، بَھٹِنڈوی کے حسین اشعار سے آراستہ و پیراستہ کرکے میدان میں کُود پڑوں، لیکن مصلحتِ وقت نے روک دیاکہ ’’زنانوی اسٹائل‘‘ کے ساتھ ’’مردانوی رائٹ اَپ‘‘ اُن ناظرین وقارئین کی طبعِ نازک پر گراں گزرے گا، جو پڑھنے کی ترتیب کو تہس نہس کرکے ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی طرف لپکتے ہیں اور پھر آپ کے منتخب کردہ اشعار پڑھ کر گویا اُن کے جسم و رُوح کا رشتہ ہی ٹُوٹ جاتا ہے۔ اِس لیے بیٹا! رائٹ اَپ کا یہ کوہِ گراں آپ ہی تھامے رکھیے کہ اِسی میں میری خیر ہے۔ (محمّد جاوید، اقبال ٹائون، راول پنڈی)

ج: ہمیشہ کی طرح بہت خُوب، مگر ہماری رائےمیں منور مرزا کی نگارشات سے متعلق آپ کاتجزیہ ایک بحث طلب اوراختلافی موضوع ہے۔ اور ہم آپ کے اس نقطۂ نظر سے بھی قعطاً متفّق نہیں کہ عوام کی اکثریت افغان مہاجرین سے متعلق کوئی اور رائے رکھتی ہے۔ ہمارے خیال میں تو اِس ضمن میں مُلک کے80 فی صد افراد کی وہی سوچ ہے، جو منور مرزا کی اور خُود ہماری ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* اُمید ہے، مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ ’’سفرنامہ‘‘ دیکھتے ہی باچھیں کِھل گئیں، تاہم مطالعہ کرتے ہی برقی طور پر رابطے کی ضرورت محسوس کی۔ اگرچہ صاحبِ مضمون کی لیاقت پرکوئی شبہ نہیں اور مضمون کی نوک پلک سنوارنے والے احباب کی دیانت پر بھی۔ 

بس، عرضِ مُدعا صرف یہ ہے کہ18سالہ پرانے احوال، امروزہ حالاتِ عالم اورمتذکرہ مُلک میں مطابقت ممکن نہیں۔ پچھلےعشرے ڈیڑھ میں زمانہ ہرلحاظ سےبدل گیا ہے۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ براہِ کرم جس قدر ممکن ہو، زمانۂ قریب کے حالات سے مزیّن سفرنامے ہی شاملِ اشاعت فرمایا کریں۔ (امان رزمی، اسلام آباد)

ج: آپ کی تشویش، اعتراض سوفی صد بجا ہے۔ آئندہ ضرور خیال رکھیں گے۔

* آپ کا میگزین، بہت کم صفحات میں بھی زبردست ہے۔ متنوّع موضوعات پر تحریریں شائع کر کے لگ بھگ ہر طبقۂ فکر کے قارئین کے لیے کچھ نہ کچھ مواد ضرور فراہم کیا جاتا ہے۔ پھر آپ کی ترتیب و تزئین بھی بہترین ہے۔ اگر کبھی محسوس ہو کہ کوئی سلسلہ موجود نہیں، تووہ اگلےکسی ہفتے میں جریدے کا حصّہ بن جاتا ہے۔ مَیں نے بھی ایک تحریر ارسال کر رکھی ہے، قابلِ اشاعت ہوتوپلیز شامل کر لیجیے گا۔ (شائستہ عابد)

ج: جی، اگر تحریر لائقِ اشاعت ہوئی، تو اِن شاء اللہ تعالیٰ ضرور شامل ہوجائے گی۔

* اُمید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گی۔ مَیں نے 13 جون کو ایک تحریرارسال کی تھی، وہ ابھی تک شائع نہیں ہوئی اور نہ ہی ناقابلِ اشاعت میں اب تک نام آیا ہے۔ تو کیا آپ اُس کے بارے میں مجھے کچھ معلومات فراہم کرسکتی ہیں؟ (بنتِ عطا، گوجرانوالہ)

ج : سوری۔ یہ اطلاع تو شائع شدہ تحریر یا ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں نام کی شمولیت کی صُورت ہی میں مل سکتی ہے۔ اور وہ بھی باری آنے پر۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk