شبینہ گل انصاری
کیا بتاں جو گزرتی ہے قیامت مجھ پر
آنسوئوں کی مرے واجب ہوئی قیمت مجھ پر
پہلے دامن سے لہو عدل کا وہ صاف کرے
پھر لگائے کوئی الزام، عدالت مجھ پر
اپنے احساس کو لفظوں کا اگر روپ میں دوں
میرے آنچل کی طرح چھائے یہ شہرت مجھ پر
تشنہ لب مَیں تو گزر آئی فراتِ جاں سے
اب کسی طور بھی واجب نہیں بیعت مجھ پر
اپنے یوسفؑ کے مَیں دامن کی محافظ خود ہوں
رشک کرتی ہے مِرے عہد کی عورت مجھ پر
وقت کی دھوپ میں سایہ ہے، مِری ماں کی دُعا
تاقیامت رہے یہ چادرِ شفقت مجھ پر
ہوئی درپیش ضرورت جو شبینہؔ گل کو
کُھل گئی اس کے حوالوں کی حقیقت مجھ پر