باپ، بیٹے کا مکالمہ!!.....
خلعتِ نبوت سے سرفراز ہوکر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کئی دن بعد گھر تشریف لائے تھے۔ دیکھا کہ سامنے والد سنگ تراشی میں مصروف ہیں۔ والد نے غضب ناک نگاہوں سے بیٹے کو گھورتے ہوئے سوال کیا، ’’کہاں سے آرہے ہو؟‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے والد کا سوال نظرانداز کرکے، جُھک کر ایک تراشیدہ چھوٹا سا بُت اُٹھایا اور ادب و احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نہایت محبّت سے والد سے مخاطب ہوئے۔ قرآنِ کریم میں باپ، بیٹے کے مکالمے کو یوں بیان فرمایا گیا ہے۔ترجمہ:’’ابّا جان! آپ ایسی چیزوں کو کیوں پُوجتے ہیں، جو نہ سُنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں۔
ابّاجان! مجھے ایسا علم ملا ہے، جو آپ کو نہیں ملا تو میرے ساتھ ہوجائیں، میں آپ کو سیدھی راہ چلادوں گا، اب شیطان کی پوجا نہ کیجیے۔ بے شک، شیطان اللہ کا نافرمان ہے۔ ابّاجان! مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو اللہ کا عذاب نہ پکڑلے اور آپ شیطان کے ساتھی ہوجائیں۔‘‘ اُس نے (باپ نے) کہا کہ ’’اے ابراہیمؑ ! کیا تُو میرے معبودوں سے برگشتہ ہے؟ اگر تُو باز نہ آئے گا، تو میں تجھے سنگ سار کردوں گا۔ جا، ہمیشہ کے لیے میری نظروں سے دُور ہوجا۔‘‘ ابراہیم علیہ السلام نے سلام کیا اور کہا ’’میں آپ کے لیے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا، بے شک، وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔‘‘ (سورۂ ابراہیم، آیات 47تا42)۔
بُت خاتے میں تباہی کا منظر
ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ عید کا تہوار آگیا۔ قوم کے لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی شہر سے باہر میلے میں چلنے کی دعوت دی، لیکن انہوں نے طبیعت کی خرابی کا کہہ کر جانے سے معذرت کرلی۔ درحقیقت وہ ایسے ہی کسی موقعے کی تلاش میں تھے، چناں چہ جب پوری قوم میلے میں شرکت کے لیے چلی گئی، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک کلہاڑا لے کر بُت خانے میں داخل ہوگئے۔ اُن میں سے اکثراُن کے باپ آزر کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تمام بُتوں کو توڑ ڈالا اور آخر میں کلہاڑے کو بڑے بُت کے کاندھے پر لٹکا کر اپنے گھر آگئے۔ شام کو جب قوم میلے سے واپس آئی، تو بُت خاتے میں تباہی کا منظر اُن کا منتظر تھا۔ قرآن کریم میں اس حوالے سے فرمایا گیا، ترجمہ:’’کہنے لگے، ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ (سلوک) کس نے کیا؟ بے شک، وہ تو ظالموں میں سے ہے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم نے ایک نوجوان کو اُن کا ذکر کرتے ہوئے سُنا ہے، اُس کا نام ابراہیمؑ ہے۔ وہ بولے کہ اُسے لوگوں کے سامنے لاؤ، تاکہ وہ گواہ رہیں۔ جب ابراہیم علیہ السلام آئے، تو انہوں نے کہا کہ’’ کیا ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام تم نے کیا ہے؟‘‘ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ ’’یہ کام اس بڑے بُت نے کیا ہوگا، اگر یہ بولتے ہیں، تو اُن سے پوچھ لو۔‘‘ وہ سر نیچا کرکے بولے، تم جانتے ہو کہ یہ بول نہیں سکتے۔‘‘ (سورۃ الانبیاء، آیات 65تا58)۔
آگ میں ڈالنے کا فیصلہ
بُتوں کو توڑنے کا عمل نمرود سمیت پوری قوم کے لیے ناقابلِ معافی جرم تھا، لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوآگ میں ڈال دیا جائے، تاکہ آئندہ کسی کو بُتوں کی بے حرمتی کی ہمّت نہ ہو، چناں چہ پوری قوم لکڑیاں جمع کرنے کے عمل میں مصروف ہوگئی۔ یہاں تک کہ اگر کوئی بیمار پڑجاتا یا کسی کا کوئی کام نہ ہوتا، تو وہ منّت مانتا کہ اگر مجھے شفا ہوگئی یا میرا کام مکمل ہوگیا، تو میں ابراہیم (علیہ السلام) کو جلانے کے لیے لکڑیوں کا گٹّھا دوں گا۔ ایک مدّت تک قوم لکڑیاں جمع کرتی رہی، جب لکڑیوں کا پہاڑ کھڑا ہوگیا، تو ایک بہت گہری خندق کھودی گئی، لکڑیوں کے اس ڈھیر کو اس میں ڈالا گیا۔
کہتے ہیں کہ بہت گہرائی میں ہونے کے باوجود بھی لکڑیوں کا ڈھیر آسمان سے باتیں کررہا تھا۔ جس دن لکڑیوں کے ڈھیرمیں آگ لگائی جانی تھی، اُس سے پہلے شیطان، نمرود کے دربار میں پہنچا اور بولا ’’بادشاہ سلامت! جب لکڑیوں کے اس پہاڑ میں آگ لگے گی، تو اُس کی تپش کی وجہ سے کوئی بھی اس کے قریب نہ جاسکے گا، لہٰذا آپ ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں کیسے ڈالیںگے؟‘‘ یہ وہ سوال تھا کہ جو نہ نمرود کے کند ذہن میں آیا تھا اور نہ ہی اُس کے مشیروں اور مصاحبوں کے۔ شیطان نے جب نمرود کو پریشان دیکھا، تو فوراً بولا، ’’تم پریشان کیوں ہوتے ہو، مَیں ہوں ناں، تم بس ایسا کرو، اپنا ایک بہترین شخص میرے حوالے کردو، مَیں اُسے ایک ایسی مشین بنانا سکھادوں گا، جس سے کسی بھی چیز کو کافی دُور تک پھینکا جاسکتا ہے۔‘‘
چناں چہ قوم میں سے ایک بہترین کاری گر کو تلاش کرکے شیطان کے حوالے کردیا گیا۔ علامہ عمادالدین، ابنِ کثیر رحمۃ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’جو مشین بنائی گئی، اسے منجنیق کا نام دیا گیا۔ سنگ باری کی یہ دستی مشین ایک مقام پر کھڑی کردی گئی۔ منجنیق بنانے والے شخص کا نام ہیزن تھا۔ وہ دنیا کا پہلا انسان تھا، جس نے منجنیق بنائی، جس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے اُسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک زمین ہی میں دھنسا ہی رہے گا۔‘‘ (قصص ابنِ کثیرؒ، صفحہ 167)۔
آگ کے غضب ناک شعلے آسمانوں تک
تاریخی روایات میں ہے کہ شہر کے لوگ کئی ماہ تک میدان میں لکڑیاں جمع کرتے رہے۔ دراصل، قومِ نمرود لکڑیاں جمع کرنے کا کام اپنے باطل معبودوں کی خوش نودی کے لیے کررہی تھی، تاکہ پتّھر کے وہ سب معبود ناراضی ختم کردیں اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں ہونے والے نقصان کی تلافی ہوسکے۔ لکڑیاں جمع کرنے کے بعد سات دن و رات پوری قوم اس میں آگ لگاکر اُسے بھڑکاتی رہی۔ یہاں تک کہ اُس کے شعلے فضا میں آسمان تک اس قدر بلند ہوگئے کہ اگر کوئی پرندہ اُس پر سے گزرے تو جل جائے۔ آگ اپنے غیظ و غضب کے ساتھ بھڑک رہی تھی۔ اللہ کے خلیلؑ کو موٹی رسّیوں میں جکڑ کر منجنیق کے پلڑے میں بٹھا دیا گیا۔
ابلیس کے مکروہ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔ وہ بھیس بدل کر اس پورے عمل کی نگرانی کررہا تھا۔ جس وقت پیغمبرِ خدا منجنیق کے ذریعے آگ کے اُس خوف ناک سمندر میں ڈالے جانے والے تھے، اُس وقت ملائکہ سمیت زمین و آسمان کی سب مخلوقات چیخ اٹھیں کہ ’’یارب! تیرے خلیلؑ پر کیا قیامت گزررہی ہے؟‘‘ رب تعالیٰ نے فرمایا ’’جاؤ، اگر مدد کرسکتے ہو، تو کرو۔‘‘ فرشتوں نے مدد کرنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اجازت چاہی، تو آپؑ نے فرمایا کہ ’’میرے لیے اللہ کافی ہے، وہ میرا حال دیکھ رہا ہے۔‘‘ جبرائیلِ امینؑ نے عرض کیا، ’’آپؑ کو مجھ سے کسی قسم کی مدد کی حاجت ہے، تو حُکم کریں، مَیں حاضر ہوں۔‘‘ فرمایا، ’’حاجت تو ہے، مگر آپ کی طرف سے نہیں، بلکہ اپنے ربّ کی طرف سے۔‘‘ (قصص الانبیاء، مولانا مفتی محمد شفیع ؒ، صفحہ 175)۔
حسبُنا اللہ و نعم الوکیل
علامہ ابنِ کثیرؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’جب مشرکین، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منجنیق میں بٹھانے لگے، تو اُس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اس دُعا کو وردِ زبان بنائے ہوئے تھے، ’’لاالہ اِلّا انتَ سبحانک رب العالمین، لک الحمد و لک الملک، لاشریک لک۔‘‘ حضرت امام بخاریؒ نے حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت کی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا، تو انہوں نے کہا ’’حسبنا اللہ و نعم الوکیل‘‘ ترجمہ:’’ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا، تو انہوں نے کہا ’’اے میرے اللہ! تُو آسمان میں تنہا ہے اور زمین میں تیری عبادت کرنے والا تنہا ہے۔‘‘
جب آتشِ نمرود، گل و گل زار ہوگئی
ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور ہم نے حُکم دیا، اے آگ ٹھنڈی پڑجا اور ابراہیمؑ کے لیے سلامتی والی بن جا۔‘‘ (سورۃ الانبیاء،69)۔ علماء فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ’’ٹھنڈی‘‘ کے ساتھ سلامتی والی نہ کہتا، تو اس آگ کی ٹھنڈک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی۔ بہرحال، یہ ایک بڑا معجزہ ہے، جو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دہکتی، بھڑکتی آگ کے گل و گل زار بن جانے کی صُورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے اللہ کی مشیت سے ظاہر ہوا اور اس طرح اللہ نے اپنے نبیؑ کو مشرکین کی شیطانی سازشوں سے محفوظ فرمایا۔
علامہ ابنِ کثیرؒ، قصص الانبیاء میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’ابنِ عباس ؓ اور سعید بن مسیّب سے مروی ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے سپرد کیا جارہا تھا، اُس وقت بارش برسانے والا فرشتہ سخت اضطراب اور پریشانی کے عالم میں کہہ رہا تھا کہ ’’کب مجھے حُکم ملے گا کہ مَیں موسلادھار بارش برساؤں۔‘‘ لیکن اللہ کا حکم اس کی سوچ سے بھی زیادہ برق رفتار تھا اور اللہ نے خود ہی آگ کو حکم فرما دیا تھا۔ ان نازک لمحات میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اُن کے ساتھ تھے اور آپؑ کی جبینِ اطہر (پیشانی) سے پسینہ پونچھ رہے تھے۔
اس پسینے کے علاوہ کوئی اور تکلیف آپؑ کو نہیں پہنچی۔ حضرت کعب بن احبارؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’جس روز حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آتشِ نمرود کے سپرد کیا گیا، اُس روز آگ سے تپش و گرمائش ختم کردی گئی تھی، جس کی بِنا پر نہ لوگوں کے چولھے گرم ہوسکے اور نہ ہی آگ سے کوئی کام لیا جا سکا۔‘‘ حضرت کعبؓ نے مزید فرمایا کہ ’’اُس روز آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بندھی ہوئی رسّی کے علاوہ کچھ اور نہ جلایا۔‘‘ حضرت سدیؒ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ سایہ کرنے والا فرشتہ بھی تھا اور ایک میل تک سایۂ ٹھنڈک اور سلامتی تھی اور سرسبز باغ گل و گل زار بن گیا تھا، جب کہ آس پاس آگ اپنے شعلوں اور شراروں کے ساتھ بھڑک رہی تھی اور لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف دیکھ رہے تھے۔‘‘ سبحان اللہ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کے کہے ہوئے کلمات میں سے سب سے اچھے کلمات وہ ہیں، جو آزر نے اپنے بیٹے کو آگ کے اندر اس حالت میں دیکھتے وقت کہے۔ ترجمہ، ’’اے ابراہیم! تیرا پروردگار بہترین پروردگار ہے۔‘‘ ابنِ عساکرؒ حضرت عکرمہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ نے جب اپنے لختِ جگر کو گُل و گُل زار میں یوں مطمئن دیکھا، تو پُکارا ’’اے میرے بیٹے! میں بھی تیرے پاس آنا چاہتی ہوں۔ اللہ سے دُعا کر کہ تیرے اِردگرد کی آگ کی حرارت سے مجھے نجات دے۔‘‘ تو حضرت ابراہیم علیہ اسلام نے عرض کیا ’’جی امّاں۔‘‘ پھر آپ کی والدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب چلیں اور آگ نے انھیں کچھ نہ کہا۔
پھر بیٹے کے پاس پہنچ کر بیٹے کو گلے سے لگایا اور بوسہ دے کرواپس لوٹ آئیں۔ حضرت منہال بن عمرو سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں (گُل وگُل زار) میں چالیس یا پچاس دن ٹھہرے اور انہوں نے فرمایا کہ دنوں اور راتوں میں، مَیں نے اُن سے اچھی زندگی نہیں گزاری اور میری تمنّا رہی کہ میری تمام زندگی اُسی کی طرح ہوجائے۔ (صلوٰۃ اللہ و سلام اللہ علیہ) کفارومشرکین حضرت ابراہیم علیہ السلام سے انتقام لینا چاہتے تھے، مگر رسوا و ذلیل ہوئے، بلند ہونا چاہا، لیکن پست و خوار ہوئے۔ غالب ہونا چاہا، مگر مغلوب ہوگئے۔‘‘ (قصص الانبیاء، علامہ ابنِ کثیرؒ، صفحہ 169,168)۔ شاعرِ مشرق، علامہ اقبالؒ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عشقِ حقیقی کو بڑے خُوب صُورت انداز میں پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں ؎ بے خطر کُود پڑا آتشِ نمرود میں عشق… عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی۔
آگ میں رہنے کی مدّت
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا، تو آپؑ کی عُمر 16یا 20سال تھی، آپؑ کتنی مدّت تک آگ میں رہے؟ اس سلسلے میں تین اقوال ہیں۔ (1) بعض مفسّرین کہتے ہیں کہ آپ سات دن تک آگ میں رہے (2) بعض نے تحریر کیا ہے کہ چالس دن رہے اور بعض کے مطابق، پچاس دن تک آگ میں رہے۔ (واللہ اعلم) قرآنِ کریم میں آتشِ نمرود کہ جس میں اللہ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ڈالا گیا تھا، اس کا چار مقامات پر ذکر آیا ہے۔ قرآنِ کریم کی 21ویں سورۃ، سورۃ الانبیاء کی آیات 69,68 میں، سورۂ عنکبوت24 ویں اور 37ویں آیات میں، سورۂ الصافات کی آیت 97میں۔
چھپکلی کو مارنے کا حکم
حضرت فاکہہ بن مغیرہ کی آزاد کردہ لونڈی سائبہؒ سے روایت ہے کہ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کے پاس ایک نیزہ ہوا کرتا تھا۔ مَیں نے ان سے پوچھا کہ آپ اس سے کیا کام لیتی ہیں؟ فرمایا کہ ہم اس سے چھپکلیاں مارتے ہیں، کیوں کہ ہمیں اللہ کے نبی ﷺ نے بتایا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا، تو زمین کے سب جانور آگ بجھانے میں مصروف تھے، سوائے چھپکلی کے۔ وہ آگ تیز کرنے کے لیے پھونکیں مارتی تھی۔ چناں چہ رسول اللہ ﷺ نے اسے مارنے کا حکم دیا ہے۔ (سنن ابنِ ماجہ، حدیث 3231، سنن مسند احمد، حدیث نمبر 6504)۔
ایمان و یقین کی کمی
یہ نوجوان ابراہیم علیہ السلام کا اپنے اللہ پر کامل ایمان و یقین تھا کہ صرف ایک اکیلا شخص، باطل کی طاغوتی قوتوں کے مقابل استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑا ہوگیا اور جب قومِ نمرود نے آگ کے بھڑکتے سمندر میں پھینکا، تو لبوں پر تھا، ’’حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔‘‘ آج 58مسلم ممالک اور ڈھائی ارب سے زیادہ مسلمانوں کے پاس دنیا کی ہر نعمت وافر مقدار میں موجود ہے، بشمول ایٹمی قوت کے، لیکن اگر کسی چیز کی کمی ہے، تو وہ ہے ایمان و یقین کی قوت کی۔ اور صرف اس ایک محرومی نے امّتِ مسلمہ کو دنیا بھر میں ذلیل و خوار کر رکھا ہے۔ علامہ اقبال نے سالوں پہلے فرمایا تھا ؎ آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا … آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا۔