خاندانِ فراعنہ کا سب سے ظالم و جابر بادشاہ، تکبّرو شقاوت، وحشت و دہشت کی زندہ تصویر بنا، حرم سرا کی خُوب صورت ترین عورتوں کے ساتھ تختِ شاہی پر براجمان تھا۔ یہ فرعون کا محل نہیں بلکہ مصر کا ایک وسیع و عریض میدان تھا کہ جہاں آج حق و باطل کے درمیان ایک عظیم مقابلہ ہونے کو تھا۔ بادشاہ کے سامنے بائیں جانب مُلک بھر سے جمع کیے گئے اپنے وقت کے بڑے بڑے جادو گر، فرش نشین تھے، جب کہ دائیں جانب اللہ کے نبی، حضرت موسیٰ، کلیم اللہ علیہ السلام اور اُن کے بھائی، حضرت ہارون علیہ السلام تشریف فرما تھے۔
بادشاہ کے اشارے پر مقابلہ شروع ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت پر جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسّیاں زمین پر ڈالیں، تو وہ پَل بھر میں سانپوں کا رُوپ دھارکر میدان میں دوڑنے لگیں، پورا میدان خطرناک سانپوں سے بھرچُکا تھا۔ مجمعے پر ہیبت طاری ہوگئی۔ فرعون اور اُس کے درباریوں کا رعونت بَھرا قہقہہ فضا میں گونجا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی جانب دیکھا، یہی وہ لمحہ تھا کہ جب جبرائیل امین علیہ السلام نے اللہ کا پیغام پہنچایا۔ ترجمہ:’’ہم نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ اپنا عصا زمین پر ڈال دو۔
وہ زمین پر گرتے ہی سب سے بڑا اژدھا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگلنے لگا۔ حق ظاہر ہوچکا تھا۔ چناں چہ وہ جادو گر سجدے میں گر کرحضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون علیہ السلام کے پروردگار پر ایمان لے آئے۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیات نمبر117تا 122)۔ بادشاہ نے اُن سب اہلِ ایمان کو، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے سے قبل جادو گری سے وابستہ تھے، ہاتھ پائوں کٹوا کر سُولی پر لٹکا دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت عبید بن عمیرؓ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا کرشمہ ہے کہ دن شروع ہوا، تو یہ کافر جادو گر تھے اور دن ڈھلتے ہی اولیاء اللہ اور شہداء کے عظیم منصب پر فائز ہوگئے۔‘‘ (تفسیرابنِ کثیر)۔
قومِ فرعون پر آنے والے عذاب
مقابلے سے پہلے میدان میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور مسلمان نہیں تھا، لیکن جادو گروں کے ایمان لانے کے بعد چھے لاکھ افراد مسلمان ہوگئے اور یہ ایک بڑی طاقت بن گئے۔ اس واقعے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام بیس سال تک مصر میں رہے اور نہایت صبر و استقامت کےساتھ تبلیغِ دین کا کام کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نو معجزات سے سرفراز فرمایا تھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور ہم نے موسیٰ کو نو معجزے عطا فرمائے۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل،آیت نمبر101)۔
ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ اُن معجزات کو دیکھ کر فرعون اور اُس کی قوم راہِ راست پر آجاتے، لیکن رعونت اور تکبّر کے نشے میں چُور، فرعون اور اس کے ساتھیوں کے ظلم میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اپنی قوم کی زبوں حالی دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم سے فرمایا۔ ترجمہ:’’اے میری قوم! تم فکر نہ کرو،اللہ تعالیٰ بہت جلد تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور بجائے اُن کے، تمہیں اِس سرزمین کا خلیفہ بنادے گا۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت نمبر 129)۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؑ کے اس وعدے کے بعد قومِ فرعون پر لگا تار پانچ قسم کے عذاب نازل فرمائے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ’’پھر ہم نے اُن پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور گُھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت نمبر133) حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ اُن میں سے ہر عذاب، قومِ فرعون پر سات روز تک مسلّط رہتا۔ ہفتے کے آغاز سے شروع ہوکر دوسرے ہفتے تک جاری رہتا، پھر تین ہفتے کی مہلت کے بعد دوسرا عذاب شروع ہوجاتا۔ مولانا مفتی محمد شفیع نے ’’معارف القرآن‘‘ میں سورۃ الاعراف کی تفسیر میں اُن عذابوں سے متعلق جو تفصیل بیان فرمائی ہے، ذیل میں اُس کا مختصر خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔
قحط اور اشیاء کی کم یابی اور گرانی کا عذاب: یہ عذاب مسلسل سات سال تک رہا۔ اس عذاب کا تذکرہ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر130 میں کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت قتادہؓ نے فرمایا کہ قحط اورخشک سالی کا عذاب تو گائوں والوں کے لیے تھا اور پھلوں کی کمی شہر والوں کے لیے، کیوں کہ عموماً دیہات میں غلّے کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے اور شہروں میں پھلوں کے باغات زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا نہ غلّے کے کھیت باقی رہے اور نہ پھلوں کے باغات۔ عذاب کے اس ابتدائی جھٹکے سے پریشان ہوکرانھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دُعا کروائی۔ دُعا قبول ہونے کے بعد جب قحط رفع ہوگیا، تو پھردوبارہ اپنی سرکشی میں مبتلا ہوگئے اور کہنے لگے کہ ’’یہ قحط تو موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے ساتھیوں کی نحوست (نعوذباللہ) کی سبب آیا تھا۔‘‘ جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُن پر سخت ترین عذاب کا فیصلہ کرلیا۔
طوفان کا عذاب: حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب قحط کا عذاب ٹل گیا، تو قومِ فرعون نے پھر کفر و شرک اور نافرمانی شروع کردی۔ چناں چہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دُعا کی۔ ’’اے میرے پروردگار! یہ سرکش لوگ اپنے معاہدے سے پِھر گئے ہیں، اب اُن پر ایسا درد ناک عذاب نازل فرما، جو ہماری قوم کے لیے وعظ اور آنے والوں کے لیے باعثِ عبرت ہو۔‘‘ اس مرتبہ اللہ نے اُن پر شدید طوفانِ بادوباراں کا عذاب نازل فرمایا۔
اس خوف ناک طوفان سے قومِ فرعون کے گھربار اور کھیت کھلیان تباہ و برباد ہوگئے۔ جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے مکانات اور زمینیں محفوظ رہیں۔ اس طوفان سے گھبرا کر وہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور التجا کی ’’اے موسیٰ ؑ!آپ اپنے پروردگار سے دُعا کیجیے کہ یہ عذاب ہم سے دُور فرمادے، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ایمان بھی لے آئیں گے اور آپ کی قوم بنی اسرائیل پر لگائی گئی سب پابندیاں بھی ختم کردیں گے۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دُعا فرمائی، تواللہ تعالیٰ نے عذاب ٹال دیا اور اُن کے کھیت کھلیان کو پہلے سے زیادہ ہرا بَھرا کردیا۔
یہ دیکھ کر قومِ فرعون نے کہنا شروع کردیا کہ ’’یہ کوئی عذاب نہیں تھا، بلکہ سیلاب کی شکل میں یہ موسلادھار بارشیں تو ہمارے فائدے کے لیے تھیں، جن کی وجہ سے ہماری زمینوں پر پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔‘‘ اس طرح ایک بار پھر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیے گئے عہد و پیمان کو نظر انداز کردیا اور کفر و سرکشی کی روش پر قائم رہے۔
ٹڈیوں کا عذاب: قرآنِ کریم نے اسے ’’الجراد‘‘ کے نام سے پُکارا ہے۔ جراد، ٹڈی کو کہتے ہیں۔ ٹڈی دَل کا حملہ لہلہاتی فصلوں کو دیکھتے ہی دیکھتے تباہ کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے طوفان کے عذاب کے ٹل جانے کے بعد اس بدبخت قوم کو پورے ایک ماہ کی مہلت دی کہ یہ حضرت موسیٰ کے وعظ و نصیحت پر غور و فکر کریں، لیکن اُن کی بداعمالیاں تو روز بروز بڑھتی چلی جارہی تھیں۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر ٹڈیوں کو مسلّط فرمادیا۔ ٹڈی دَل نہ صرف ان کے کھیتوں اورباغات کو چٹ کرگیا، بلکہ گھروں کے اندر اور باہر لکڑی سے بنی ہر چیز کھاگیا۔
اس عذاب کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ایک بار پھر سامنے تھا کہ اس ٹڈی دَل نے صرف قبطیوں، یعنی قومِ فرعون کو تباہ و برباد کیا، جب کہ قومِ موسیٰ علیہ السلام یعنی بنی اسرائیل کے مکانات، کھیت کھلیان اور باغات بالکل محفوظ رہے۔ قبطی روتے پیٹتے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور التجا کی ’’آپ اپنے ربّ سے دعا فرمائیں کہ وہ یہ عذاب واپس لے لے، ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ایمان بھی لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آزاد بھی کردیں گے۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دُعا فرمائی اور عذاب ٹل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں پھر ایک ماہ کی مہلت دی کہ وہ غور و فکر کرلیں، لیکن وہ لوگ اپنی پرانی روش پر ہی قائم رہے، ایمان لائے اور نہ ہی بنی اسرائیل کو آزاد کیا۔
کیڑے مکوڑوں کا عذاب: قرآنِ کریم میں ’’قمل‘‘ کے نام کا ذکر کیا گیا ہے۔ ’’قمل‘‘ بالوں اور کپڑوں میں پیدا ہونے والی جُوں اور گُھن کے کیڑے کو بھی کہتے ہیں۔ قمل کا یہ عذاب ممکن ہے کہ دونوں قسم کے کیڑوں پر مشتمل ہو۔ کیوں کہ اس گُھن نے ان کے غلّے کا وہ حال کردیا کہ دس سیر گیہوں پیستے، تو اس میں سے تین سیر آٹا بھی نہ نکلتا، جب کہ جُوئوں کی کثیر تعداد، اُن کے بال، پلکیں اور بھنویں تک چٹ کرگئی۔
اس سنگین صورتِ حال سے قومِ فرعون ایک بار پھر بلبلا اٹھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی کہ ’’اب کی مرتبہ ہم ہرگز وعدے سے نہیں پھریں گے۔ آپ دُعا فرما دیں۔‘‘ لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعا سے یہ عذاب بھی ٹل گیا۔ مگر یہ قوم تو کفر و ضلالت میں غرق تھی۔ عافیت ملتے ہی اپنی پرانی ڈگر پر گام زن ہوجاتی۔ اس بار بھی ایک ماہ کی دی گئی مدّت گزر گئی، مگر اُنھیں نہ تو اپنے وعدوں کا پاس تھا، نہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وعظ و نصیحت کا اُن پر کوئی اثر ہوا۔ چناں چہ مدّتِ مہلت گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُن پر ایک اور عذاب مسلط فرما دیا۔
مینڈک کا عذاب: قرآنِ کریم میں ’’الضفادع‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ’’مینڈک‘‘ کے ہیں۔ اس عذاب کی نوعیت یہ تھی کہ اُن کے گھروں میں اس قدر کثرت سے مینڈک پیدا ہوگئے کہ وہ جہاں بیٹھتے، مینڈکوں کا جم غفیر لگ جاتا۔ سونے کے لیے لیٹتے تو اُن کا پورا جسم مینڈکوں سے ڈھک جاتا۔ یہاں تک کہ کھانے پینے کی اشیاء سمیت ہر چیز اور ہر جگہ لاکھوں کی تعداد میں موجود مینڈکوں نے اُن کی زندگیاں اجیرن کردیں۔
چناں چہ اس عذاب سے عاجز آکر ایک بار پھر روتے پیٹتے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاپہنچے۔ آپؑ کو اُن کی حالتِ زار پر رحم آگیا۔ چناں چہ ایک بار پھر وعدے وعید ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعا سے عذاب رفع ہوگیا۔ مگراس عذاب سے نجات پاکر وہ پھر اپنی ہٹ دھرمی پر اُتر آئے اور کہنے لگے کہ ’’اب تو ہمیں اور بھی یقین ہوگیا ہے کہ موسیٰ ؑ ( نعوذ باللہ) بہت بڑے جادوگر ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ایک ماہ کی مہلت دی، لیکن انہوں نے تو راہِ راست پر نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی۔
خون کا عذاب: عربی میں تازہ خون کو ’’الدم‘‘ کہتے ہیں۔ اس عذاب کی نوعیت یہ تھی کہ اُن کی ہر چیز سے تازہ خون اُبل پڑتا، جو چیز بھی رکھتے، وہ خون بن جاتی۔ چوں کہ بنی اسرائیل کے تمام افراد ان تمام عذابوں سے محفوظ تھے، لہٰذا قومِ فرعون نے بنی اسرائیل کے لوگوں سے پانی مانگا، تو انھوں نے دے دیا، لیکن وہ جب قبطیوں کے ہاتھ میں گیا، تو خون بن گیا۔ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر قبطی اور بنی اسرائیل کھانا کھاتے، تو اسرائیلی کا لقمہ تو اپنی اصل حالت میں ہوتا، جب کہ قبطی کا لقمہ اور پانی خون بن جاتا۔ بالآخر پھر وعدے ہوئے، دُعا کی گئی۔ عذاب پھر ٹل گیا۔ مگر وہ گُم راہی پر ہی قائم رہے۔ قرآنِ کریم نے انھیں ’’بڑے عادی مجرم‘‘ قرار دیا ہے۔
وبائی امراض کا عذاب: اس مرتبہ اُن لوگوں پر طاعون کی وبا مسلّط کردی گئی۔ جس میں اُن کے ستّر ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔ تاہم، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعا سے یہ عذاب بھی رفع ہوگیا، لیکن اتنی آزمائشوں اور مسلسل وعدوں کے باوجود یہ ربوبیتِ فرعون پر قائم رہے اور مسلسل عہد شکنی کرتے رہے۔
ہر گزرتے وقت کے ساتھ فرعون کے تکبّر، غیظ و غضب اورظلم و ستم میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا، لہٰذا ربّ ذوالجلال نے اُن کی دراز رسّی کو کھینچنے کا فیصلہ کرلیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ میرے بندوں کو لے کرراتوں رات نکل جائو۔‘‘ (سورۂ طہٰ، آیت 77)۔ علامہ طبریؒ بیان کرتے ہیں کہ ’’اس حکم کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام مرد، عورتوں اور بچّوں سمیت چھے لاکھ تیس ہزار سوار اور بیس ہزار پیادے لے کر 9محرم بروز ہفتہ، غروبِ آفتاب کے بعد مصر سے دریائے قلزم (بحیرئہ احمر) کے جانب روانہ ہوئے۔
اور فرعون ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بن گیا
فرعون جدید ہتھیاروں سے لیس اور سات لاکھ سے زائد سواروں کے ساتھ اُن کے پیچھے روانہ ہوا۔ بنی اسرائیل کے پیچھے فرعون کی سپاہ کا ایک سیلاب اورآگے بپھری موجیں تھیں۔ پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، تو حضرت موسٰی کے ساتھیوں نے کہا ’’ہم تو پکڑے گئے۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ’’ہرگز نہیں، میرا ربّ میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھے راہ بتائے گا۔ ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی لاٹھی مارو۔‘‘ (سورۃ الشعراء، آیات61تا 63)۔ چناں چہ دریا پر لاٹھی مارنے سے بارہ خشک راستے نکل آئے۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے اُن میں سے گزرگئے۔
یہ منظر دیکھ کر خوف زدہ فرعون نے بھی اپنا گھوڑا دریا میں ڈالا اور لشکر کو پیچھے آنے کا حکم دیا۔ فرعون اور اُس کا لشکر جب بیچ دریا میں پہنچا، تو اللہ تعالیٰ نے دریا کو روانی کا حکم دے دیا۔ دریا کے سب راستے آپس میں مل گئے۔ فرعون جب ڈوبنے لگا، تو پُکار اُٹھا ’’مَیں ایمان لایا، موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) کے ربّ پر۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔‘‘ (جواب ملا کہ) ’’اب ایمان لاتا ہے، حالاں کہ تُو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا؟ تو آج ہم تیری لاش کو پانی سے نکال لیں گے، تاکہ تُو اُن کے لیے نشانِ عبرت ہو۔ جو تیرے بعد ہیں اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔‘‘ (سورۂ یونس، آیات نمبر90تا92)۔ آج بھی فرعون کی حنوط شدہ لاش عبرت کا نشان بنی مصر کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔
دعوتِ غور و فکر
قومِ فرعون پر نازل کیے گئے یہ عذاب، امّتِ مسلمہ کے لیے نہ صرف باعثِ عبرت ہیں، بلکہ غور و فکر کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ 58مسلم ممالک اور ڈھائی ارب مسلمان، جس زبوں حالی اور تنزّلی کا شکار ہیں، وہ اللہ کی ناراضی ہی کی وجہ سے ہے۔ ہم نمازیں پڑھتے ہیں، حج، عمرہ ادا کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے اور قرآن پڑھتے ہیں، لیکن سُود کو بُرا نہیں سمجھتے۔ رشوت لینا اور دینا مجبوری گردانا جاتا ہے۔ جھوٹ بولنا، دھوکا دینا، معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔
ناپ تول میں کمی، گراوٹ، بے ایمانی، ہیر پھیر، کاروبار کا حصّہ ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔ اگر یہ سب اعمال ہی ہماری کام یابی و کام رانی کا پیمانہ ہیں، تو پھر غلاظت کے اس ڈھیر پر بیٹھ کر ہمیں اللہ کی مزید ناراضی کا انتظار کرنا ہوگا، جو انفرادی عذاب بھی ہوسکتاہے اور اجتماعی بھی۔